وجود

... loading ...

وجود

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اتوار 06 جولائی 2025 اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

سندھ ایمپلائز ایسوسی ایشن اور اساتذہ کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر احتجاج کرنے جانے والے اساتذہ کی کوشش کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کی 20سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیکر تھانہ منتقل کیا۔کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس جانے والے اساتذہ کے پرامن احتجاجی ریلی پر سندھ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج، واٹر کینن کے استعمال اور ربڑ کی گولیاں چلانے سمیت بدترین تشدد قابلِ افسوس ہے۔سندھ کے اساتذہ کے جائز مطالبات تسلیم کرکے ان کو اپنے حقوق دیے جائیں، پولیس اساتذہ پرتشدد کی بجائے عوام کو امن اورسندھ میں جرائم ختم کرنے کے لیے اپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔پرامن احتجاج کے دوران تشدد، بلاجواز گرفتاریاں اور اساتذہ پر واٹر کینن کا استعمال اورآنسوگیس سمیت بلاوجہ لاٹھی چارج کرکے اساتذہ کا تقدس پامال کیا گیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ تنخواہوں میں اضافے سمیت اپنا جائز حق مانگنے والے اساتذہ کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنے کی بجائے ان پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریوں سے اساتذہ کا عزت اور وقار مجروح ہوا ہے۔بے گناہ اساتذہ پر پہلے بہیمانہ تشدد اور ان کی تذلیل کسی بھی مہذب معاشرے کی تباہی ہے۔ہر مہذب معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت اس میں بسنے والوں کی فلاح وبہبود کو دی جاتی ہے اور انہیں وہ تمام وسائل فراہم کئے جاتے ہیں جن سے ان کی زندگی آرام دہ اور پرسکون انداز میں گزرے۔اساتذہ بہت محترم اور انتہائی قابلِ عزت ہیں۔استاد کا بلند مقام ہے۔یہ پیغمبری پیشہ ہے۔
ہمارے وطن عزیز کے اساتذہ سے ہم کیا سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو ان چند باتوں سے ہو جائے گا کہ اساتذہ کو تو ہم نے سب سے حقیر اور فارغ سمجھ رکھا ہے۔مردم شماری ہو، پولیو کے قطرے بچوں کو پلانا ہوں، الیکشن ڈیوٹی کرنا ہو یا کسی بھی قسم کی ایمرجنسی ڈیوٹی ہو، اساتذہ ہی انجام دیتے جبکہ اساتذہ کا کام درس و تدریس ہے۔افسوس کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں برسر اقتدار رہیں ان میں سے کسی نے بھی محکمہ تعلیم اور اس سے وابستہ اساتذہ کے متعلق کسی نے کچھ نہیں کیا۔استاد کائنات کے اندر اس ہستی کا نام ہے جو معاشرے میں موجود لوگوں کے اخلا ق و کردار کو سنوارنے میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا میں پہنچا دیتا ہے ۔استاد ہی اصل زندگی کے معنی سکھاتا ہے ۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔استاد ہی کی بدولت ایک عام انسان ڈاکٹر، انجینئر، جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاستدان بنتا ہے۔استاد ہی انسان کو معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے ، اچھائی اور برائی کی پہچان کراتا ہے ۔ اسی لیے استاد کو پوری قوم کا معمار کہا جاتا ہے ۔کیونکہ ایک استاد کی دی ہوئی اچھی تربیت سے نسلیں ترقی کرتی ہیں اور انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس کو کسی استاد کا ہی دامن تھامنا پڑتا ہے ۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پائے گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے استاد لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
استاد کو علم کا منبع اور معاشرے کی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام میں استاد کو معلمِ کائنات (نبی کریم ۖ) کا نائب قرار دیا گیا ہے ، اور ان کی عزت و تکریم کو دین کا حصہ مانا گیا ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں استاد کا وہ مقام و مرتبہ نہیں جو دنیا کی مہذب اقوام عالم اپنے اساتذہ کو دیتی ہیں ۔امریکہ میں استاد کو وی آئی پی پروٹوکول حاصل ہے ، جرمنی میں استاد کو کرسی پیش کی جاتی ہے ، جاپان میں حکومت کی اجازت کے بغیر کسی استاد کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا کے ہر ملک میں استاد کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کبھی ہمارے ملک میں بھی استاد کی عزت ہوتی تھی، آج کل تو استاد کو ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے ، پولیس موبائل میں زبردستی بری طرح گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور تھانہ میں بند کر دیتے ہیں اور ایک اشفاق صاحب کورٹ میں پیش ہوتے ہیں تو جج کھڑا ہو جاتا ہے۔یہاں پر مجھے ایک اعلی درجے کے بہترین استاد اور بہت بڑے دانشور اشفاق احمد کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کسی زمانے میں آپ اٹلی کے شہر روم میں رہتے تھے وہاں پر انکا ٹریفک چالان ہو گیا۔ مصروفیت کے باعث ان کو چالان بھرنے میں تاخیر ہو گئی۔ انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے پو چھا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر چالان بھی ادا نہیں کیا کیوں؟ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی پروفیسر ہوں اور مصروفیت کی بنا پر وقت پر چالان ادا نہیں کر سکا۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرے یہ الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ جج صاحب
A teacher in the court کا نعرہ لگاتے ہو ئے کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے۔
مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نکتہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔
جرمنی میں میڈیکل ڈاکٹرز نے جرمن چانسلر سے مطالبہ کیا کہ ان کی تنخواہیں اساتذہ کے برابر کی جائیں، جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی تنخواہیں کس طرح اساتذہ کے برابر کر دوں وہ تو قوم کے طلباء و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کے کردار کی تعمیر بھی کرتے ہیں۔چانسلر نے جواب دیا کہ آپ ان کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو آپ کو بناتے ہیں۔۔۔اساتذہ کی شان میں ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا:
A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher
جاپان میں اساتذہ کو اتنا بڑا مقام حاصل ہے کہ اگر کسی تقریب میں یونیورسٹی پروفیسر آ جائے تو اس تقریب کے شرکاء استاد کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں، خواہ اس تقریب کی جاپانی وزیراعظم ہی کیوں نہ صدارت کر رہا ہو۔
ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک بارمیں جاپان میں ایک یونیورسٹی میں مہمان خصوصی تھا جب فنکشن ختم ہوا تو میں وہاں کے استاد کے ساتھ ٹہلتا ہوا گاڑی کی طرف جا رہا تھا، راستے میں میَں اور وہ ایک جگہ کھڑے ہوکر باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دو بچے ہمارے پاس سے کود کود کے گزررہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ بچے کود کود کر کیوں گزررہے ہیں تو استاد نے بتایا کہ دراصل ہم دونوں جہاں کھڑے ہیں ،ہمارا سایہ زمین پر پڑ رہا ہے تو یہ اس سے بچ کر کود رہے ہیں کہ ہم اس سائے کے اوپر سے نہ گزریں ۔یہ تھی استاد کی عزت جاپان میں۔
فاتح عالم سکندر کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار سکندراعظم اپنے استاد محترم ارسطو کے ساتھ گھنے جنگلات سے گزر رہا تھا کہ اچانک راستے میں ایک نالہ آگیاجس میں برسات کی وجہ سے طغیانی آئی ہوئی تھی، اب نالے سے ایک شخص پہلے اور ایک بعد میں گزر سکتا تھا۔ لہٰذا استاد اور شاگرد میں پہلے نالہ پار کرنے پر بحث شروع ہو گئی۔سکندر پہلے نالہ پار کرنے پر بضد تھا بالآخر ارسطو نے بحث کے بعد سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا،نالہ عبور کرتے ہی ارسطو نے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرتے ہوئے میری بے عزتی نہیں کی؟ سکندر نے بڑے احترام سے جواب دیا،نہیں استاد محترم، ایسا بالکل نہیں ہے ، میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے کیونکہ اگر ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔پیٹرول دن بدن مہنگا ہو رہا ہے۔اساتذہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔حکمران اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی بجائے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ، محکمہ تعلیم کے صوبائی وزیر و دیگر بالا حکام کی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ سمیت دیگر سرکاری ملازمین کے جائز حقوق پر توجہ دیکر ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔تشدد اور گرفتاریاں مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید انتشار کا باعث ہونگیں۔ گرفتار اساتذہ کی رہائی فوری طور پر یقینی بنائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت ! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار!

واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان کائنات کا سب سے عظیم معرکہ وجود اتوار 06 جولائی 2025
واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان کائنات کا سب سے عظیم معرکہ

بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر