... loading ...
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
سندھ ایمپلائز ایسوسی ایشن اور اساتذہ کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر احتجاج کرنے جانے والے اساتذہ کی کوشش کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کی 20سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیکر تھانہ منتقل کیا۔کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس جانے والے اساتذہ کے پرامن احتجاجی ریلی پر سندھ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج، واٹر کینن کے استعمال اور ربڑ کی گولیاں چلانے سمیت بدترین تشدد قابلِ افسوس ہے۔سندھ کے اساتذہ کے جائز مطالبات تسلیم کرکے ان کو اپنے حقوق دیے جائیں، پولیس اساتذہ پرتشدد کی بجائے عوام کو امن اورسندھ میں جرائم ختم کرنے کے لیے اپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔پرامن احتجاج کے دوران تشدد، بلاجواز گرفتاریاں اور اساتذہ پر واٹر کینن کا استعمال اورآنسوگیس سمیت بلاوجہ لاٹھی چارج کرکے اساتذہ کا تقدس پامال کیا گیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ تنخواہوں میں اضافے سمیت اپنا جائز حق مانگنے والے اساتذہ کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنے کی بجائے ان پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریوں سے اساتذہ کا عزت اور وقار مجروح ہوا ہے۔بے گناہ اساتذہ پر پہلے بہیمانہ تشدد اور ان کی تذلیل کسی بھی مہذب معاشرے کی تباہی ہے۔ہر مہذب معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت اس میں بسنے والوں کی فلاح وبہبود کو دی جاتی ہے اور انہیں وہ تمام وسائل فراہم کئے جاتے ہیں جن سے ان کی زندگی آرام دہ اور پرسکون انداز میں گزرے۔اساتذہ بہت محترم اور انتہائی قابلِ عزت ہیں۔استاد کا بلند مقام ہے۔یہ پیغمبری پیشہ ہے۔
ہمارے وطن عزیز کے اساتذہ سے ہم کیا سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو ان چند باتوں سے ہو جائے گا کہ اساتذہ کو تو ہم نے سب سے حقیر اور فارغ سمجھ رکھا ہے۔مردم شماری ہو، پولیو کے قطرے بچوں کو پلانا ہوں، الیکشن ڈیوٹی کرنا ہو یا کسی بھی قسم کی ایمرجنسی ڈیوٹی ہو، اساتذہ ہی انجام دیتے جبکہ اساتذہ کا کام درس و تدریس ہے۔افسوس کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں برسر اقتدار رہیں ان میں سے کسی نے بھی محکمہ تعلیم اور اس سے وابستہ اساتذہ کے متعلق کسی نے کچھ نہیں کیا۔استاد کائنات کے اندر اس ہستی کا نام ہے جو معاشرے میں موجود لوگوں کے اخلا ق و کردار کو سنوارنے میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا میں پہنچا دیتا ہے ۔استاد ہی اصل زندگی کے معنی سکھاتا ہے ۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔استاد ہی کی بدولت ایک عام انسان ڈاکٹر، انجینئر، جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاستدان بنتا ہے۔استاد ہی انسان کو معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے ، اچھائی اور برائی کی پہچان کراتا ہے ۔ اسی لیے استاد کو پوری قوم کا معمار کہا جاتا ہے ۔کیونکہ ایک استاد کی دی ہوئی اچھی تربیت سے نسلیں ترقی کرتی ہیں اور انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس کو کسی استاد کا ہی دامن تھامنا پڑتا ہے ۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پائے گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے استاد لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
استاد کو علم کا منبع اور معاشرے کی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام میں استاد کو معلمِ کائنات (نبی کریم ۖ) کا نائب قرار دیا گیا ہے ، اور ان کی عزت و تکریم کو دین کا حصہ مانا گیا ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں استاد کا وہ مقام و مرتبہ نہیں جو دنیا کی مہذب اقوام عالم اپنے اساتذہ کو دیتی ہیں ۔امریکہ میں استاد کو وی آئی پی پروٹوکول حاصل ہے ، جرمنی میں استاد کو کرسی پیش کی جاتی ہے ، جاپان میں حکومت کی اجازت کے بغیر کسی استاد کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا کے ہر ملک میں استاد کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کبھی ہمارے ملک میں بھی استاد کی عزت ہوتی تھی، آج کل تو استاد کو ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے ، پولیس موبائل میں زبردستی بری طرح گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور تھانہ میں بند کر دیتے ہیں اور ایک اشفاق صاحب کورٹ میں پیش ہوتے ہیں تو جج کھڑا ہو جاتا ہے۔یہاں پر مجھے ایک اعلی درجے کے بہترین استاد اور بہت بڑے دانشور اشفاق احمد کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کسی زمانے میں آپ اٹلی کے شہر روم میں رہتے تھے وہاں پر انکا ٹریفک چالان ہو گیا۔ مصروفیت کے باعث ان کو چالان بھرنے میں تاخیر ہو گئی۔ انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے پو چھا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر چالان بھی ادا نہیں کیا کیوں؟ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی پروفیسر ہوں اور مصروفیت کی بنا پر وقت پر چالان ادا نہیں کر سکا۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرے یہ الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ جج صاحب
A teacher in the court کا نعرہ لگاتے ہو ئے کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے۔
مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نکتہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔
جرمنی میں میڈیکل ڈاکٹرز نے جرمن چانسلر سے مطالبہ کیا کہ ان کی تنخواہیں اساتذہ کے برابر کی جائیں، جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی تنخواہیں کس طرح اساتذہ کے برابر کر دوں وہ تو قوم کے طلباء و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کے کردار کی تعمیر بھی کرتے ہیں۔چانسلر نے جواب دیا کہ آپ ان کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو آپ کو بناتے ہیں۔۔۔اساتذہ کی شان میں ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا:
A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher
جاپان میں اساتذہ کو اتنا بڑا مقام حاصل ہے کہ اگر کسی تقریب میں یونیورسٹی پروفیسر آ جائے تو اس تقریب کے شرکاء استاد کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں، خواہ اس تقریب کی جاپانی وزیراعظم ہی کیوں نہ صدارت کر رہا ہو۔
ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک بارمیں جاپان میں ایک یونیورسٹی میں مہمان خصوصی تھا جب فنکشن ختم ہوا تو میں وہاں کے استاد کے ساتھ ٹہلتا ہوا گاڑی کی طرف جا رہا تھا، راستے میں میَں اور وہ ایک جگہ کھڑے ہوکر باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دو بچے ہمارے پاس سے کود کود کے گزررہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ بچے کود کود کر کیوں گزررہے ہیں تو استاد نے بتایا کہ دراصل ہم دونوں جہاں کھڑے ہیں ،ہمارا سایہ زمین پر پڑ رہا ہے تو یہ اس سے بچ کر کود رہے ہیں کہ ہم اس سائے کے اوپر سے نہ گزریں ۔یہ تھی استاد کی عزت جاپان میں۔
فاتح عالم سکندر کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار سکندراعظم اپنے استاد محترم ارسطو کے ساتھ گھنے جنگلات سے گزر رہا تھا کہ اچانک راستے میں ایک نالہ آگیاجس میں برسات کی وجہ سے طغیانی آئی ہوئی تھی، اب نالے سے ایک شخص پہلے اور ایک بعد میں گزر سکتا تھا۔ لہٰذا استاد اور شاگرد میں پہلے نالہ پار کرنے پر بحث شروع ہو گئی۔سکندر پہلے نالہ پار کرنے پر بضد تھا بالآخر ارسطو نے بحث کے بعد سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا،نالہ عبور کرتے ہی ارسطو نے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرتے ہوئے میری بے عزتی نہیں کی؟ سکندر نے بڑے احترام سے جواب دیا،نہیں استاد محترم، ایسا بالکل نہیں ہے ، میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے کیونکہ اگر ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔پیٹرول دن بدن مہنگا ہو رہا ہے۔اساتذہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔حکمران اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی بجائے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ، محکمہ تعلیم کے صوبائی وزیر و دیگر بالا حکام کی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ سمیت دیگر سرکاری ملازمین کے جائز حقوق پر توجہ دیکر ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔تشدد اور گرفتاریاں مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید انتشار کا باعث ہونگیں۔ گرفتار اساتذہ کی رہائی فوری طور پر یقینی بنائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔