... loading ...
ریاض احمدچودھری
مودی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق پر واویلا کرنے والی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں کیخلاف اس معاشی بائیکاٹ پر آواز اٹھانا چاہئے۔بھارت میں مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے آج بھی کروڑوں لوگ خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔بھارت میں غذائی بحران دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اور مودی سرکار کی مسلسل ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہونے کا دعوے دار ملک کروڑوں لوگوں کو آج بھی بھوکا رکھے ہوئے ہے جہاں انہیں خوراک بھی میسر نہیں۔بھارت میں خوراک کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ ہنگر انڈیکس کی رینکنگ میں بھارت 105 ویں نمبر پر ہے۔ اس رینکنگ نے مودی کے اپنے ملک کو معاشی طاقت قرار دینے کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
اتر پردیش میں مسلمانوں کی ملکیت والے ذبح خانوں کو غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیا گیا ہے، جس کے باعث مسلمانوں کے ذریعہ معاش پر حملہ کیا گیا ہے۔ حاجی یوسف قریشی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی روزگار کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ادیتا ناتھ اور مودی کی جوڑی نے مسلمانوں میں ایک ایسے عدم تحفظ کو جنم دیا ہے جس کی کوئی اور مثال ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس جوڑی نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کے اقتدار میں چند رونگٹے کھڑے کر دینے والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس عید سے چند دن پہلے ایک 15 سالہ لڑکا اپنے اور دو دوستوں کے ساتھ دہلی سے عید کی خریداری کر کے ماتھورا میں واقع اپنے گھر بذریعہ ٹرین واپس جا رہا تھا۔ ان سب ساتھیوں کا حلیہ ان کے مسلمان ہونے پر دلالت کر رہا تھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے مسئلے پر ڈبہ میں سوار ایک گروہ سے کچھ تکرار ہوئی جو وقفے وقفے سے جاری رہی لیکن زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یہ مذہبی رنگ اختیار کر گئی۔ اس گروہ نے جنید کی ٹوپی، مسلمان ہونے اور گائے کاگوشت کھانے کے طعنے دیئے اور پھر یہ سارا معاملہ زبردست حملے کی شکل اختیار کر گیا۔ اس گروہ کے لوگ جو جنید اور اس کے بھائی اور دوستوں سے عمر میں بڑے تھے’ جلد ہی چاقو نکال لئے اور جید کو بے رحمی سے قتل کر دیا۔ ایک شہری کا اس قدر سفاکانہ اور بہیمانہ قتل بھارت کی جمہوریت اور اس کے سیکولر آئین پر اک بدنما داغ ہے۔ مرکزی یا ریاستی حکومت کے کسی ذمہ دار نے اس واقعہ کی مذمت میں کوئی بیان نہیں دیا اور یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔
بھارت کے امیر ایک فیصد طبقے کو نکالا جائے تو عوام کی حالت افریقا کے پسماندہ ترین ممالک سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔بھارت کی مجموعی دولت کا 40 فیصد صرف ایک فیصد امیر طبقے کے پاس ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس عوام کے پاس محض 3 فیصد دولت ہے جب کہ تقریباً 70 کروڑ بھارتی شہریوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی معاشی ترقی صرف اشاریوں میں دکھائی جاتی ہے جب کہ دیہی بھارت فاقہ کشی کا شکار، ہے۔ اسی طرح بھارت کی 90 فیصد لیبر فورس مقرر کردہ سے کم اجرت لیتی ہے۔بھوک اور غذائی قلت کا مسئلہ بھارت کے اہم ترین مسائل میں شامل ہے۔بھارت میں یہ مسئلہ نیپال، پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی گھمبیر اور بدتر ہوگیا ہے۔ جی ایچ آئی اسکور میں سب سے بلند چین، برازیل، کویت سمیت دیگر اٹھارہ ممالک شامل ہیں جن کا نمبر پانچواں ہے۔ یہ رپورٹ آئرلینڈ اور جرمنی کے اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے جس میں بھارت میں بھوک کی شرح کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا گیا ہے۔اس مطالعے میں چار اہم عوامل کو دیکھا جاتا ہے جن میں ناکافی غذا، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں بونا پن اور غذائی قلت، چھوٹا قدم اور پانچ سال کی عمر تک پہنچتے ہوئے بچوں میں اموات کی شرح کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بھارت میں یہ شرح بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ممالک اپنے شہریوں کی بھوک مٹانے اور فاقہ دورکرنے میں بھارت سے کہیں آگے اور بہتر ہیں۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف تعصب اور ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔جب سے بی جے پی اقتدارمیں آئی ہے تب سے بھارتی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے بابری مسجد اور پھر کشمیر پر قبضہ کیا اس کے علاوہ بھی بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بھارت میں انتہا پسندی کے خلاف مسلمانوں کی آواز کو دبانے کے لیے مودی حکومت نے نئے ہتھکنڈے اپناتے ہوئے احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھر گرانا شروع کردیئے ہیں،اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جس میں ہندو انتہا پسند پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر کی مدد سے مسمار کررہے ہیں۔
مودی سرکار نے بھارتی مسلمانوں کو زک پہنچانے کیلئے ایک اور نیا کام شروع کیا ہے کہ مسلمانوں کی املاک کو غیر قانونی قرار دے کر ان پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ دو ماہ قبل دہلی میں ہوئے مسلمان ہندو لڑائی جھگڑے کو بنیاد بنا کر دہلی میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلائے گئے ہیں (جھگڑا دونوں جانب سے شروع ہوا لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کی املاک کو بنایا گیا ہے جس پر دہلی ہائی کورٹ میں کیس بھی چل رہا ہے)۔بلڈوزر کے نام پر سیاست بھارت کے ایک بڑے طبقے میں مقبول نظر آتی ہے۔ بی جے پی نے اسے مافیا کے خلاف کارروائی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس نے چند ہندو عقیدے کے مجرموں کے مکانات اور املاک کو مسمار کیا ہے لیکن غیر متناسب طور پر متاثرین کی ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔کم از کم اتر پردیش میں، جہاں اس سال کی شروعات میں ریاستی انتخابات ہوئے تھے، ووٹروں نے بی جے پی کو فتح یاب کر کے اس طرح کی سیاست کا صلہ دیا۔ ان انتخابات میں اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خود کو بلڈوزر بابا کہا اور چند ریلیوں میں بلڈوزروں کی نمائش بھی کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔