... loading ...
ریاض احمدچودھری
متحدہ ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل کرنے میں ناکامی کے بعد حکومت برطانیہ نے 3 جون کو ہندوستان کی تقسیم اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ جولائی 1945ء کے آخر میں برطانیہ میں نئی لیبر حکومت برسراقتدار آئی جس کے وزیراعظم لارڈ ایٹلی تھے۔ لیبر حکومت نے یہ مسئلہ براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے انگریز وائسرے لارڈ ویول تھے۔ برطانیہ کی لیبر حکومت نے 1946ء کے شروع میں تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی لیڈروں سے مل کر کوئی قابل قبول آئینی فارمولا وضع کیا جا سکے۔ 15 مارچ 1946ء کو وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے برطانوی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک ایسے ملک کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں جس میں نسلوں، مذاہب اور زبانوں کے کئی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ان سے بھی واقف ہوں لیکن ان مشکلات پر صرف ہندوستان کے لوگ ہی قابو پا سکتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا ہمیں پورا خیال ہے مگر کسی اقلیت کو اکثریت کی راہ میں ویٹو کا روڑا اٹکانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔” اس کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ یہاں ویٹو برتنے یا اکثریت کی راہ روکنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔
کابینہ مشن 24 مارچ 1946ء کو ہندوستان پہنچا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا۔ پھر شملہ کی دوسری کانفرنس بلائی گئی جس میں گفت و شنید کے لیے کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے چار چار نمائندے ایک کمیٹی کی شکل میں شامل ہوئے۔22 مارچ 1947ء کو متحدہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان آ گیا اور 23 مارچ کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ویول لندن روانہ ہو گیا۔ اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے سبب لارڈ ویول کو برخاست کیا گیا کیونکہ کانگریس کی نظر میں لارڈ ویول کا قصور یہ تھا کہ اس نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں کانگریس کے برابر جگہ دی۔کابینہ مشن نے 14 مئی کو ایک فارمولے کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے اعلان کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔کہ ہندوستان کی ایک وفاقی حکومت ہو جو برطانی ہند اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے محکمے مرکز کے پاس ہوں اور اس کو ٹیکس لگانے کا اختیار بھی ہو۔مذہبی بنیادوں پر صوبوں کے تین گروپ بنائے گئے۔ پہلے گروپ میں ہندو اکثریت کے صوبے یوپی، سی پی، مدراس، بمبئی، بہار اور اڑیسہ شامل تھے۔ دوسرا گروپ مسلم اکثریب کے صوبوں پر مشمل تھا جس میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان شامل تھے۔ تیسرے گروپ میں مشرقی مسلم صوبے بنگال اور آسام شامل تھے۔
صوبے اور ریاستیں وفاق کی بنیادی اکائیاں ہوں گی۔ چند طے شدہ محکموں کے علاوہ باقی تمام محکمے صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔ ریاستیں جو اختیارات حکومت کو سونپ دیں گی ان کے علاوہ باقی تمام اختیارات اپنے پاس رکھیں گی۔صوبوں کا ہر گروپ اپنے صوبوں کے لیے آئین وضع کرے گا اور یہ بھی طے کرے گا کہ نئے انتخابات کے بعد کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کی اکثریت کی رائے سے اپنے گروپ میں سے الگ ہو سکے گا۔دستور ساز اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم اس طرح کی گئی: کل ارکان 385، مسلمانوں کی نشستیں 78، سکھوں کے لیے 4 اور دیسی ریاستوں کے لیے 93 نشستیں۔دس سال بعد ہر صوبہ اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر اپنی حیثیت کو تبدیل کرنے کا مجاز ہو گا۔دس سال کے لیے مرکز میں ایک عبوری حکومت ہو گی جس میں کانگریس کے علاوہ کانگریس کے نامزد پانچ ہندو اچھوتوں سمیت مسلم لیگ کو 5، پارسیوں کو ایک، سکھوں کو ایک اور عیسائیوں کو ایک نشت دی جانا تھی۔ہر پارٹی کے لیے لازم ہے کہ اس فارمولے کو بحیثیت مجموعی قبول یا رد کر دے، جو پارٹی اس کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کر دے گی اس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
ابتداً میں مسلم لیگ نے اس فارمولے کو مشروط طور پر قبول کیا تھا مگر بعد میں مسترد کر دیا۔ اس فارمولے کی روشنی میں ہندوستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جس پر مسلم لیگ نے کابینہ مشن کے فارمولے کی منظوری کا فیصلہ واپس لے لیا اور 16 اگست کو مسلم لیگ نے ”یوم راست اقدام” منایا تاہم بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مذاکرات کے بعد مسلم لیگ کو بھی عبوری وزارت میں شامل کر لیا گیا۔ 26 اکتوبر کو مسلم لیگ کابینہ میں شامل ہو گئی۔ مسلم لیگی وزرا میں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، سردار عبدالرب نشتر اور جوگندر ناتھ شامل تھے۔ لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنا مشہور بجٹ پیش کیا تھا جس کو ”غریب آدمی کا بجٹ” کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سی لارڈ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہو چکے تھے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن مئی 1947ء میں برطانیہ گئے اور وزیراعظم لارڈ ایٹلی اور دوسرے برطانوی لیڈروں سے بات چیت کے بعد واپس ہندوستان آکر طویل مذاکرات کیے اور ہندوستان کے اہم لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ قابل ذکر ہیں۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کا اعلان 3 جون 1947ء کو کیا گیا۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
برصغیر میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں جو شروع میں نوآبادیاتی حیثیت کی حامل ہوں گی۔ پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور حدبندی کمیشن بھی مقرر کیے جائیں گے۔سندھ اور آسام کے مستقبل کا فیصلہ ان صوبوں کی اسمبلیاں کریں گی۔صوبہ سرحد اور آسام کے ضلع میں استصواب رائے کرایا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ وہاں کے باشندے کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ہر دو مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔
راقم الحروف نے اپنے ٹرانسسٹر پر علاقے کے لوگوں کو 3 جون کی تقریر سنوائی تھی۔ لوگوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور نعرے لگائے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ قیام پاکستان کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ اور کانگریس نے تقسیم ہند کے اس منصوبے کو قبول کر لیا جس کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے نشری تقریروں کے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو اس کا وجود بھی عمل میں آ گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتہائی اہم ترین دن ہے جسے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔