وجود

... loading ...

وجود

قیام پاکستان کی طرف اہم قدم

بدھ 04 جون 2025 قیام پاکستان کی طرف اہم قدم

ریاض احمدچودھری

متحدہ ہندوستان کا آئینی مسئلہ حل کرنے میں ناکامی کے بعد حکومت برطانیہ نے 3 جون کو ہندوستان کی تقسیم اور دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ جولائی 1945ء کے آخر میں برطانیہ میں نئی لیبر حکومت برسراقتدار آئی جس کے وزیراعظم لارڈ ایٹلی تھے۔ لیبر حکومت نے یہ مسئلہ براہِ راست اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس زمانے میں ہندوستان کے انگریز وائسرے لارڈ ویول تھے۔ برطانیہ کی لیبر حکومت نے 1946ء کے شروع میں تین وزراء پر مشتمل ایک مشن ہندوستان بھیجا تاکہ ہندوستانی لیڈروں سے مل کر کوئی قابل قبول آئینی فارمولا وضع کیا جا سکے۔ 15 مارچ 1946ء کو وزیراعظم لارڈ ایٹلی نے برطانوی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ایک ایسے ملک کے بارے میں اظہارِ خیال کر رہا ہوں جس میں نسلوں، مذاہب اور زبانوں کے کئی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ جو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں ان سے بھی واقف ہوں لیکن ان مشکلات پر صرف ہندوستان کے لوگ ہی قابو پا سکتے ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کا ہمیں پورا خیال ہے مگر کسی اقلیت کو اکثریت کی راہ میں ویٹو کا روڑا اٹکانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔” اس کے جواب میں قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ یہاں ویٹو برتنے یا اکثریت کی راہ روکنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔
کابینہ مشن 24 مارچ 1946ء کو ہندوستان پہنچا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں سے تبادلہ خیال کیا۔ پھر شملہ کی دوسری کانفرنس بلائی گئی جس میں گفت و شنید کے لیے کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے چار چار نمائندے ایک کمیٹی کی شکل میں شامل ہوئے۔22 مارچ 1947ء کو متحدہ ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان آ گیا اور 23 مارچ کو سابق وائسرائے ہند لارڈ ویول لندن روانہ ہو گیا۔ اس تبدیلی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے سبب لارڈ ویول کو برخاست کیا گیا کیونکہ کانگریس کی نظر میں لارڈ ویول کا قصور یہ تھا کہ اس نے مسلم لیگ کو عبوری حکومت میں کانگریس کے برابر جگہ دی۔کابینہ مشن نے 14 مئی کو ایک فارمولے کی طرف پیش رفت کرتے ہوئے اعلان کیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔کہ ہندوستان کی ایک وفاقی حکومت ہو جو برطانی ہند اور ریاستوں پر مشتمل ہو۔ دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے محکمے مرکز کے پاس ہوں اور اس کو ٹیکس لگانے کا اختیار بھی ہو۔مذہبی بنیادوں پر صوبوں کے تین گروپ بنائے گئے۔ پہلے گروپ میں ہندو اکثریت کے صوبے یوپی، سی پی، مدراس، بمبئی، بہار اور اڑیسہ شامل تھے۔ دوسرا گروپ مسلم اکثریب کے صوبوں پر مشمل تھا جس میں پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان شامل تھے۔ تیسرے گروپ میں مشرقی مسلم صوبے بنگال اور آسام شامل تھے۔
صوبے اور ریاستیں وفاق کی بنیادی اکائیاں ہوں گی۔ چند طے شدہ محکموں کے علاوہ باقی تمام محکمے صوبوں کی تحویل میں ہوں گے۔ ریاستیں جو اختیارات حکومت کو سونپ دیں گی ان کے علاوہ باقی تمام اختیارات اپنے پاس رکھیں گی۔صوبوں کا ہر گروپ اپنے صوبوں کے لیے آئین وضع کرے گا اور یہ بھی طے کرے گا کہ نئے انتخابات کے بعد کوئی بھی صوبہ اپنی اسمبلی کی اکثریت کی رائے سے اپنے گروپ میں سے الگ ہو سکے گا۔دستور ساز اسمبلی میں نشستوں کی تقسیم اس طرح کی گئی: کل ارکان 385، مسلمانوں کی نشستیں 78، سکھوں کے لیے 4 اور دیسی ریاستوں کے لیے 93 نشستیں۔دس سال بعد ہر صوبہ اسمبلی کی اکثریت کی خواہش پر اپنی حیثیت کو تبدیل کرنے کا مجاز ہو گا۔دس سال کے لیے مرکز میں ایک عبوری حکومت ہو گی جس میں کانگریس کے علاوہ کانگریس کے نامزد پانچ ہندو اچھوتوں سمیت مسلم لیگ کو 5، پارسیوں کو ایک، سکھوں کو ایک اور عیسائیوں کو ایک نشت دی جانا تھی۔ہر پارٹی کے لیے لازم ہے کہ اس فارمولے کو بحیثیت مجموعی قبول یا رد کر دے، جو پارٹی اس کو جزوی یا کلی طور پر مسترد کر دے گی اس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
ابتداً میں مسلم لیگ نے اس فارمولے کو مشروط طور پر قبول کیا تھا مگر بعد میں مسترد کر دیا۔ اس فارمولے کی روشنی میں ہندوستان میں ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو تھے جس پر مسلم لیگ نے کابینہ مشن کے فارمولے کی منظوری کا فیصلہ واپس لے لیا اور 16 اگست کو مسلم لیگ نے ”یوم راست اقدام” منایا تاہم بعد میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ مذاکرات کے بعد مسلم لیگ کو بھی عبوری وزارت میں شامل کر لیا گیا۔ 26 اکتوبر کو مسلم لیگ کابینہ میں شامل ہو گئی۔ مسلم لیگی وزرا میں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، سردار عبدالرب نشتر اور جوگندر ناتھ شامل تھے۔ لیاقت علی خان نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنا مشہور بجٹ پیش کیا تھا جس کو ”غریب آدمی کا بجٹ” کہا جاتا ہے۔ اس زمانے میں سی لارڈ ویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہو چکے تھے۔لارڈ ماؤنٹ بیٹن مئی 1947ء میں برطانیہ گئے اور وزیراعظم لارڈ ایٹلی اور دوسرے برطانوی لیڈروں سے بات چیت کے بعد واپس ہندوستان آکر طویل مذاکرات کیے اور ہندوستان کے اہم لیڈروں کی ایک اہم کانفرنس بلائی۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں پنڈت جواہر لال نہرو، قائداعظم محمد علی جناح، سردار پٹیل، اچاریہ کرپلانی، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور سردار بلدیو سنگھ قابل ذکر ہیں۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ اس منصوبے کا اعلان 3 جون 1947ء کو کیا گیا۔ اس کے اہم نکات یہ ہیں:
برصغیر میں دو الگ الگ مملکتیں قائم کر دی جائیں جو شروع میں نوآبادیاتی حیثیت کی حامل ہوں گی۔ پنجاب اور بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا اور حدبندی کمیشن بھی مقرر کیے جائیں گے۔سندھ اور آسام کے مستقبل کا فیصلہ ان صوبوں کی اسمبلیاں کریں گی۔صوبہ سرحد اور آسام کے ضلع میں استصواب رائے کرایا جائے گا جس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ وہاں کے باشندے کس ملک میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ہر دو مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔برصغیر کی مسلح افواج اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم کر دی جائے گی۔
راقم الحروف نے اپنے ٹرانسسٹر پر علاقے کے لوگوں کو 3 جون کی تقریر سنوائی تھی۔ لوگوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور نعرے لگائے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ قیام پاکستان کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ اور کانگریس نے تقسیم ہند کے اس منصوبے کو قبول کر لیا جس کا اعلان آل انڈیا ریڈیو سے نشری تقریروں کے ذریعے کیا گیا۔ اس طرح پاکستان کے قیام کی راہ ہموار ہوئی اور 14 اگست 1947ء کو اس کا وجود بھی عمل میں آ گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ انتہائی اہم ترین دن ہے جسے جوش و جذبے کے ساتھ منایا جانا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند وجود جمعرات 05 جون 2025
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا وجود جمعرات 05 جون 2025
تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

مودی کی ناکام پالیسیاں وجود جمعرات 05 جون 2025
مودی کی ناکام پالیسیاں

سیاست کے طلسماتی کردار وجود جمعرات 05 جون 2025
سیاست کے طلسماتی کردار

جیت کے بعدکامرحلہ وجود بدھ 04 جون 2025
جیت کے بعدکامرحلہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر