وجود

... loading ...

وجود

غزہ میں موت کا راج

پیر 02 جون 2025 غزہ میں موت کا راج

جاوید محمود

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہے جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ غزہ پر ڈھائی جانے والی قیامت کسی سے پوشیدہ نہیں ۔اب تو یہ حال ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک نے بھی ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانی شروع کر دی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بدنصیب غزہ کے باسی نہیں ہیں ،بلکہ وہ مسلمان ہیں جو تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ان کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہے۔ جنگ کی بربریت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہلاک ہونے والے، ہلاک ہونے والوں کے ٹکڑے، مرنے والے ،فاقہ کرنے والے۔ یہ وہ مناظر ہیں جو غزہ کی پٹی میں دن بدن بڑی تعداد میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ مسلسل بمباری منصوبہ بند بھوک ،بڑے پیمانے پر بے دخلی اور ناقابل بیان غم اور نام نہاد مہذب دنیا نے نہ صرف خاموشی سے دیکھا بلکہ ہر دن اس کو ممکن بنایا ۔
آپ اسے کیا کہیں گے کہ جب 55000 سے زیادہ فلسطینی جن میں 16000سے زیادہ بچے شامل ہیں، قتل کر دیے جائیں اور اسرائیل کو کوئی جواب دہی کا سامنا نہ ہو۔ جب بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے پانی ایندھن دوا اور انسانی امداد کو ایک ایسی آبادی تک پہنچنے سے روکا جائے جو زیادہ تر پناہ گزینوں پر مشتمل ہو اسے نسل کشی کہا جاتا ہے، یہ وہ لفظ ہے جو معروف نسل کشی کے ماہرین بڑے انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ کے ماہرین استعمال کرتے ہیں۔ درحقیقت اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقے فرانس جسکا البائزنے اعلان کیا کہ معقول بنیادیں موجود ہیں کہ غزہ میں نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے 20ماہرین کے ایک مشترکہ بیان میں جاری نسل کشی کے بارے میں خبردار کیا اور دیگر اقوام متحدہ کے اداروں نے بھی ان نتائج پر بات کی ہے۔ حتی کہ اقوام متحدہ کے سینئر انسانی ہمدردی کے عہدے داروں جیسے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بھی کھلے عام اس اصطلاح کو غزہ میں ہونے والے واقعات کی وضاحت کے لیے استعمال کیا اور جب قانونی ادارے آہستہ آہستہ ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو فلسطینی تقریباً دو سال سے چیخ رہے ہیں ۔بمباری جاری ہے۔ بچے مرتے جا رہے ہیں اور مغربی حکومتیں اس ریاست کو ہتھیار فراہم کرتی رہتی ہیں۔ اس کی حفاظت کرتی ہیں اور اس کے قتل عام کو جواز فراہم کرتی ہیں۔ ایک سیاسی شو میں برطانیہ کی نائب وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کا موقف نہیں ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ یہ اس وقت ہوا جب 800 سے زیادہ برطانوی وکلا اورججوں نے وزیراعظم کیئر سٹارمرکو ایک کھلا خط لکھا جس میں حکومت سے اسرائیل کے اس بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی گئی پھر اسی پروگرام میں کینی بیڈ وچ جو اب کنزرویٹو پارٹی کی رہنما ہیں اور ممکنہ طور پر برطانیہ کی اگلی وزیراعظم نے قومی ٹیلی ویژن پر کھڑے ہو کر کیئر سٹار مر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا ۔ کیونکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ ہو سکتا ہے 600 دن کا قتل عام اور پھر بھی حکام کے لیے واحد سوال یہ ہے لیکن حماس کا کیا کردار ہے۔ گویا یہ بچوں کو زندہ جلانے کا جواز فراہم کرتا ہے گویا یہ شہریوں کے قتل عام اور پوری آبادی کو آہستہ آہستہ بھوکا رکھنے کو معاف کرتا ہے۔ ان 600 دنوں میں اسرائیل نے اسپتالوں، اسکولوں، مساجد، گرجا گھروں، بیکریوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کی ہے۔ اس نے پورے خاندانوں کو قتل کیا ۔خاندانی نام مٹا دیے۔ اس نے صحافیوں اقوام متحدہ کے پناہ گاہوں امدادی کارکنوں اور ایمبولنسوں کو نشانہ بنایا۔ اس نے لوگوں کو زندہ جلایا۔ اس نے خیموں کو تابوتوں میں بدل دیا اور اس سب کے دوران مغربی رہنماؤں نے صرف خالی بیانات مبہم تشویش اور بے معنی انتباہات کے ساتھ جواب دیا ۔گویا اسرائیل کو مزید انتباہات کی ضرورت ہے ۔گویا روزانہ قتل عام کافی انتباہ نہیں ہے ۔آپ بچوں کی بھوک کو کیسے جواز فراہم کریں گے۔ رفع پر بمباری کو کیسے جواز دیں گے ۔جہاں خاندانوں کو محفوظ مقام کے لیے بھاگنے کو کہا گیا تھا۔ ہسپتالوں کے ارد گرد دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کو کیسے جواز دیں گے جہاں لاشوں پر تشدد اور پھانسی کے نشانات تھے۔ آپ نہیں کر سکتے جب تک کہ آپ یہ نہ مانیں کہ فلسطینی زندگیاں کم اہم ہیں ۔یہ ہر مبہم مذمت پر بزلانہ گہری تشویش کے بیان کے پیچھے غیرکہی گئی منطق ہے ۔کیونکہ جب دو اسرائیلی واشنگٹن ڈی سی میں قتل کیے گئے تو یہ بین الاقوامی سرخیوں میں آیا لیکن جب ہزاروں فلسطینی بچے قتل کیے گئے۔ دنیا نسل کشی کی تاریخ پر بحث کرتی رہی۔ جبکہ اس ریاست کو ہتھیار فراہم کرتی رہی جو قتل کر رہی تھی۔
یہ برابر کی جنگ نہیں ہے ۔یہ کبھی نہیں تھی۔ یہ خطے کی سب سے طاقتور فوج ہے۔ دنیا کی سب سے طاقتور قوموں کی حمایت یافتہ جو پناہ گزینوں کی ایک محصور آبادی پر حملہ کر رہی ہے۔ ان میں سے نصف بچے ہیں اوردنیا نے نہ صرف اسے اجازت دی بلکہ اس میں مدد کی ہے۔ نہ صرف کچھ نہ کر کے بلکہ غلط سمت میں بہت زیادہ کر کے، اختلاف کو خاموش کر کے صحافیوں کو برطرف کر کے احتجاج پر پابندی لگا کر یکجہتی کو جرم قرار دے کر برطانیہ میں لوگوں نے فلسطین کہنے پر اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ برطانوی میڈیا کو نسل کشی کہنے سے انکار کرتے دیکھا گیا۔ جبکہ اسرائیلی ترجمانوں کو پلیٹ فارم فراہم کرتے ہوئے جو فلسطینی بچوں کے وجود سے بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ کبھی اتنا طویل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہر دن جو جاری رہتا ہے، وہ صرف ایک سانحہ نہیں۔ یہ ایک انتخاب ہے اور تاریخ یاد رکھے گی کہ یہ نسل کشی خفیہ طور پر نہیں ہوئی۔ یہ براہ راست ہوئی ہر اسکرین پر ہر زبان میں جبکہ اس کے برعکس عربوں کی ذہنی حالت پر رحم آتا ہے۔ لگتا ہے ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ سعودی عرب نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے حرم کے دروازے کھول دیے۔ خوبصورت لڑکیوں نے اپنے بال کھول کے ڈانس کرتے ہوئے اپنے حسن کی نمائش کی ۔جبکہ قطر نے انہیں 747طیارہ گفٹ کر کے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ رپورٹ کے مطابق یہ طیارہ بادشاہ کے استعمال میں تھا ۔اس لگژری طیارے کی قیمت 400 ملین ڈالرزہے۔ تصور کریں اگر یہ رقم فلسطینیوں کی امداد میں دی جاتی تو کتنی زندگیاں بچ سکتی تھی۔ یہ المیہ نہیں تو کیا ہے کہ غزہ میں موت کا راج ہے اور عربوں کو اپنی مستیوں سے فرصت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جیت کے بعدکامرحلہ وجود بدھ 04 جون 2025
جیت کے بعدکامرحلہ

قیام پاکستان کی طرف اہم قدم وجود بدھ 04 جون 2025
قیام پاکستان کی طرف اہم قدم

تشدد بڑھنے کے واقعات میں کیوںاضافہ ہورہا ہے ؟ وجود بدھ 04 جون 2025
تشدد بڑھنے کے واقعات میں کیوںاضافہ ہورہا ہے ؟

غزہ میں موت کا راج وجود پیر 02 جون 2025
غزہ میں موت کا راج

'گؤرکشا'کے نام پر درندگی اور بربریت وجود پیر 02 جون 2025
'گؤرکشا'کے نام پر درندگی اور بربریت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر