وجود

... loading ...

وجود

لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

هفته 31 مئی 2025 لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

ایم سرور صدیقی

تاریخ بتاتی ہے قدیم ادوارمیں غلاموں کی منڈی لگا کرتی تھی۔ خریدار برہنہ،نیم برہنہ سودادیکھ کرمال کی قدرو قیمت کا اندازہ لگاتے، ان کی جانب فحش جملے اچھالتے ۔ خوبصورت لونڈے ،متناسب بدن لڑکیاں،جفا کش مرد اور خواجہ سراکی قیمت اچھی مل جایا کرتی تھی۔ یونانی تہذیب سے لیکر مصرکے بازار اوردور ِ حاضر تک یہ منڈیاں کسی نہ کسی صورت آباد ہیں۔ خوبصورت لونڈوں اورمتناسب بدن لڑکیوں کی خریداری لوگ اپنی جنسی تسکین،جفا کش مرد مزدوری کیلئے اور خواجہ سرا گھریلو کام کاج کیلئے کرتے تھے ۔
مذہب اسلام نے انسانوں کی خرید و فروخت کوممنوع قرار دینے ہوئے اسے انتہائی مکروہ فعل گرداناہے۔ خود نبی اکرم ۖ اورمتعدد صحابہ کرام نے درجنوں غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرکے انہیں اپنی مرضی سے جینے کا حق عطا فرمایا۔ خلیفة المسلین حضرت عمر فاروق کا قول ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیا،انہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں۔تاریخ یہ بھی بتاتی ہے انسانوں کی خرید وفروخت کا شمار دنیا کے اولین کاروبار میں کیا جا سکتاہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ کاروباربڑھتا،پھلتا اور پھولتا گیا۔ یہ سب کچھ اس لئے یاد آیا کہ چندسال پہلے دنوں ایک چونکا دینے والی خبر پڑھی تھی۔ سندھ میں عورتوں کی منڈی لگتی ہے یعنی پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں بھی مصر کا بازار سجایا جاتا ہے۔ خبرکے مطابق پنجاب میں گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیاں 3سے 5لاکھ میں فروخت کردی جاتی ہیں۔ اس وقت داتا دربار لاہور میں 3بڑے گینگ سر گرم ِ عمل ہیں جن میں کچھ پولیس اہلکار اور متعدد عورتیں بھی شامل ہیں ۔درجنوں لڑکیاں باقاعدہ منڈی لگا کر بیچ دی گئیں ۔یہ سنسی خیز انکشافات رحیم یار خان سے برآمدہونے والی 2سگی بہنوں نے کئے تھے ۔
ماضی کو چھوڑیں آج بھی یہ قبیح کاروبار کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے بلکہ یہاں تک کہا جاتاہے بردہ فروشوں کو بااثر شخصیات اور بعض پولیس اہلکاروں کی سر پرستی حاصل ہوتی ہے۔ یہ لوگ گھروں سے بھاگ کر آنے والی لڑکیوںاور درباروں پر سلام کیلئے آنے والی بھولی بھالی نو عمر بچیوں کو اپنی ساتھی عورتوں کی مدد سے ورغلا کرانہیں بیٹی بنالیتے ہیں اور قریبی کرائے کے مکانوں میں لے جاتے ہیں پھر لڑکیوں کو بے ہوش کردیا جاتاہے اور موقع پاکر بیچ دیا جاتا ہے۔ آئے روز اخبارات میں ایسی ا سٹوریاں چھپتی رہتی ہیں دنیا کے کسی نہ کسی علاقہ میں کہیں نہ کہیں ضرور مغوی لڑکیوں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ یہ بات وہاں کی شنید ہے بڑے بڑے جاگیردار اور وڈیرے چھوٹی عمرکی لڑکیوں کو 3سے 5لاکھ میں خرید کر اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور ان کو عیاشی کیلئے استعمال کیا جاتاہے ۔ بھاگنے کی کوشش میں اکثر لڑکیاں قتل ہوجاتی ہیں۔عورتوں کی خریدو فروخت اور جسم فروشی دنیا کے قدیم ترین کاروبار اور پیشے ہیں ۔پوری دنیا میں ایسے بہت سے گیسٹ ہاؤس،ہوٹل اور گلی محلوں میں یہ کام ہوتاہے ۔آئے روز چھاپے بھی پڑتے ہیں لیکن یہ دھندا ختم نہیں ہونے میں آتا ۔دراصل جن ممالک میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہو، لوگوں کیلئے غربت جرم بن جائے ،جہالت اوربیروزگاری ہو، وہاں اس مکروہ کاروبارکو پنپنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یقیناایسے واقعات ہمارے معاشرہ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہیں لیکن اس کے باوجودآئے روزایسے انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔
دراصل یہ معاملات لاقانونیت کے باعث رونما ہوتے ہیں جس ملک میں قانون کو موم کی ناک بنا دیا جائے ۔ بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، افریقہ اور نہ جانے کون کون سے ممالک ایسے ہیں، جہاں ایسی منڈیاں لگتی ہونگیںاور عورتیں غلاموں کی طرح بیچ دی جاتی ہیں۔ دراصل عورتوں کی خرید و فروخت دنیا کا قدیم ترین کاروبار ہے جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوان ہوتا چلاجارہاہے۔ شنید ہے خلیجی ممالک میں بے آسرا،غریب اور لاوارث خواتین کی خاصی مانگ ہے دراصل اس مکروہ کاروبار جس کے پیچھے ایک طاقتور مافیا سرگرم ِ عمل ہوتا ہے جس میں ہرشعبہ سے تعلق رکھنے والے پیسے کے پجاری شامل ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بنگلہ دیشی عورتیں کم قیمت پرمل جاتی ہیں لیکن اس میں بردہ فروشوں کو بھاری منافع ہوتاہے جبکہ غریب،لاوارث بھارتی، افغانی، پاکستانی خواتین کو نوکری دلانے یا پھرماڈلنگ اور فلموں میں کام دلانے کا جھانسہ دیکر آگے بیچ دیاجاتاہے پھر ان سے جسم فروشی کروائی جاتی ہے اور زیادہ خوبصورت خواتین کو کلبوں میں ڈانس کیلئے منتخب کرلیا جاتاہے ،جن ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے برابر ہو، وہاں قانون اپنے فیصلے کر کے سکون سے خراٹے مارتارہتاہے ۔ اور جب خریداروں کا دل کسی کھلونے سے بھر جاتاہے تو وہ اپنے کسی دوست کو تحفے میں دیدیتا ہے اور ایسے حسین تحفوں کا تبادلہ ہوتا رہتاہے ۔جب ہم یہ پڑھتے اور سنتے ہیں کہ مسلم تاریخ میں ایک عورت کی فریاد پر سندھ پر چڑھائی کا حکم دے دیا جاتاہے ۔توآج کے حالات،،اداروں کی بے بسی اور بے حسی دیکھ کر دل کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ہماری روایات ہیں۔یہ جذبہ اتنی غیرت۔اتنی جرأت کہاں گئی؟
اسلام نے تو عورت کو جتنی عزت سے نوازا اس سے پہلے کسی مذہب نے اتنی توقیر نہیں دی لیکن پیسے کی ہوس میں دن بہ دن اخلاقی اقدار ختم ہو تی جارہی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے ایسا کیوں ہے ؟ اس میں پورا معاشرہ ذمہ دارہے ہر شخص،ہر مکتبہ ء فکر ہر ادارے کواس کیلئے اپنا کردار فعال طریقے سے ادا کرناہوگا۔خاص طور پر حکومت کو چاہیے کہ قانون پر سختی سے عمل کروائے جب تک قانون سب سے ایک جیسا سلوک نہیں کرے گا، قانون کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہو گا۔ قانون کا خوف اور سزا کا ڈرہی معاشرے میں اطمینان کا سبب بن سکتاہے۔ ورنہ یہ سلسلہ دراز رہاتو معصوم،بھولی بھالی لڑکیاں اغواء ہوتی رہیں گی ۔دور دراز علاقوں میں انسانوں کی خرید و فروخت کیلئے منڈیاں لگتی رہیں گی اورایک وقت ایسا بھی آسکتاہے ہم کچھ کرنا بھی چاہیں تو کچھ نہیں ہوسکے گا۔وقت ہاتھ سے نکلتا جارہاہے ،اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کیلئے کچھ توہاتھ پاؤں مارنے چاہئیں۔ برصغیرمیں اولیاء کرام کے مزارات، شاپنگ مال،ریلوے اسٹیشنوں، لاری اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پرگاہے بگاہے کمانڈو طرزکا ایکشن لیا جائے ۔ سماج دشمن عناصر اور انسانیت کے دشمنوں کی سرکوبی کیلئے آخری حد تک جانا پڑے تو دریغ نہ کیا جائے بلکہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے تو ان مقامات کو واچ کرتا رہے ۔اس کے ساتھ ساتھ تمام پبلک مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے جائیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کوآزاد پیدا کیاانہیں کسی کو بیچنے کا کوئی حق نہیں، کا فلسفہ حکمرانوں کی سمجھ میں آگیا تو انسانوں کی منڈیاں لگنا بندہو جائیں گی۔
۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ حریت جوان وجود اتوار 01 جون 2025
بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ حریت جوان

پاکستانی سیاست وجود اتوار 01 جون 2025
پاکستانی سیاست

لگا ہے مصر کا بازار یکھو ! وجود هفته 31 مئی 2025
لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے! وجود هفته 31 مئی 2025
آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے!

جوہری میدان میں بھارتی غفلت عالمی سلامتی کیلئے خطرہ وجود هفته 31 مئی 2025
جوہری میدان میں بھارتی غفلت عالمی سلامتی کیلئے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر