وجود

... loading ...

وجود

آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے!

هفته 31 مئی 2025 آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے!

آفتاب احمد خانزادہ

 

ڈاکٹر جول واس( Dr.Joel Voss)کہتا ہے ”آپ حقیقت سے بھاگ سکتے ہیں لیکن آپ حقیقت سے بھاگنے کے نتائج سے نہیں بھاگ سکتے ”۔اپنے باپ کے نام ایک خط میں فرانز کا فکالکھتاہے ”یہ بھی درست ہے کہ آپ نے شاید ہی کبھی مجھے پیٹا ہو لیکن آپ کا بلندآواز میں چلانا، غصے میںآپ کے چہرے کاسرخ ہونا اور تیزی سے گلیس کو کھولنااورانہیں کرسی کی پشت پر ٹانگ دینا، یہ سب میرے لیے بد ترین صورتحال تھی کہ جیسے کسی کو پھانسی کی سزا دی جانے والی ہو اگر اسے واقعی پھانسی پر لٹکادیا جائے تو وہ مر جائے گااور اس کا قصہ تمام ہوجائے گالیکن اگر اسے پھانسی پر لٹکانے جانے کے ابتدائی مراحل سے گذارا جائے پھر جب پھندا اس کے چہرے کے سامنے جھول رہاہوا سے بتایا جائے کہ اسکی سزا ملتوی کردی گئی ہے تو وہ اس سزا میں تمام عمر مبتلا رہے گا ” ۔
جرمن مورخ Karl Von Rottekکاکہنا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں تین اہم واقعات ہوئے (١)عیسائیت کافروغ (٢) چھاپہ خانہ کی ایجاد (٣)فرانسیسی انقلاب۔ ان تینوں میں سے عیائیت اور چھاپہ خانہ نے دنیاکوآہستہ آہستہ اور مرحلہ وار تبدیل کیاجبکہ انقلاب فرانس نے دنیاکواچانک تیزی سے بدل کر رکھ دیا۔ اس سے نہ صرف سیاسی تبدیلیاں آئیں بلکہ سماجی اورمعاشی طورپردنیابدل کررہ گئی۔ دنیابھر کے مورخین کی اکثریت اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ انقلاب فرانس اچانک نہیں آیا بلکہ اس کے پس منظر میں صدیوں کے جمع شدہ مسائل تھے جو حل نہ ہونے کی صور ت میں برابر جمع ہورہے تھے ،یہ وہ صورتحال تھی کہ جس سے صرف فرانس ہی نہیں بلکہ پورا یورپ دوچار تھا جب جمع ہوتے ہوتے مسائل کاانبار لگ جائے تو پھر ایسے سماج میں سانس لینا تک دشوار ہو جاتاہے پھرانسان کے ساتھ ساتھ مسائل بھی پھٹ پڑتے ہیں اور پھر اس میںسے تین نعرے آزادی، مساوات اور اخوت نکل کر سامنے ا جاتے ہیں ۔ یورپ میںسماج کو تبدیل کر نے اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے دو طریقہ کار سامنے آئے (١) اصلاحات کے ذریعے سے حالات کو بدلاجائے اور سماج کی ضروریات کو پورا کیاجائے (٢)یاانقلاب کے ذریعے سے کہ جس میں تشدد کاعنصر بھی شامل ہوتاہے ۔ تبدیلی لائی جائے ۔سوائے انگلستان کے یورپ کے دوسروں ملکوں نے فرانسیسی انقلاب اور اس کے نتائج کوقوت و طاقت اورجبرسے روکنے کی کوشش کی مگر 1830اور1844کے انقلابات نے انہیں اس پر مجبور کیا کہ وہ نہ صرف اپنے طوروطریقے اور اپنے دستوروں کوبدلیں بلکہ لوگوں کو بھی نمائندگی دیں ۔ روس جوان اصلاحات سے علیحدہ رہا بالاخر اسے 1917میں انقلاب کا سامنا کرنا پڑگیا ۔ تمام حکمران طبقوں نے اندازہ لگا لیا تھا اگر سماجوں کی اصلاح نہیں کی گئی تو انہیں بھی فرانس جیسی صورتحال سے دو چار ہونا پڑے گا ۔ جب 1874میںBenjamin Disraliانگلستان کاوزیراعظم بنا تو اس نے بھی اصلاحات کی اہمیت کوسمجھااس نے اپنے ایک ناول میں لکھا کہ برطانیہ میں دوقومیں آباد ہیں، ایک امیر اوردوسری غریب ۔1872میں اس نے پارلیمنٹ میںتقریر کرتے ہوئے کہا تھا
” خالص ہوا، خالص پانی ،غیر صحت مند رہائشی علاقوں کی دیکھ بھال اور ملاوٹ والی غذا، یہ وہ باتیں ہیں کہ جن پرغورکر نے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری لوگوں کی صحت ہوتی ہے ۔اس نے کہاتھا کہ محل غیرمحفوظ سے اگر کاٹیج کا رہنے والا ناخوش ہے۔ انگلستان کے مفکرجیمس مل نے1836 میں لکھا”امرا ء صرف اپنی زمینوں کی فکر کرتے ہیں اور بغیر کام کاج کئے روپیہ پیسہ حاصل کرتے ہیں وہ جس طریقے سے دولت حاصل کرتے ہیں اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے ”۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ کس طرح لوگوں کے خیالات بدل رہے تھےElite Classکے بارے میں1847 میں پیرس کے ایک اخبار نے لکھا کہ ” بورژوا کوئی طبقہ نہیں ہے یہ ایک حیثیت یا مرتبے کانام ہے اس لیے کوئی بھی اس مرتبہ اورحیثیت کوحاصل کرسکتاہے اور کھوبھی سکتاہے ۔ یہ مرتبہ کام، کفایت شعاری اور لیاقت سے حاصل ہوتا ہے جب بد عنوانی ، گناہ گاری اور سستی آجائے تو یہ ختم ہوجاتاہے”۔ فرانس کے ادیب بالزاک نے1850 میں ان کے لیے لکھاتھا ” یہ ایک دوسرے کو اس طرح مارتے ہیں جیسے کہ مرتبان میں بند مکڑیاں ایک دوسرے کو ختم کرتی ہیں ” اصل میں ان کوسب سے زیادہ خوف یہ ہوتاہے کہ انہوں نے جورتبہ اور مرتبہ سماج میں حاصل کرلیا ہے وہ ختم نہ ہونے پائے۔ یہ خوف ان کواندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی سماج یا طبقہ ایک جگہ جماہوا یاساکت نہیں رہتا ہے اس میں اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے تبدیلی کا عمل ہو تا رہتاہے ۔ کبھی یہ عمل بہت سست ہوتاہے اورکبھی تیز ۔ تبدیلی ماضی کی دشمن ہوتی ہے اور وہ ہر روایت، اداروں، طاقتورطبقوں کوختم کرتی جاتی ہے جسکا تعلق ماضی سے ہوتا ہے ۔ وہ سماج کی بنیاد نئی روایات پرقائم کرتی ہے ۔ عہد نامہ قدیم میں ہے کہ ”خدا نے دنیاکوپیدا کیا پھراسے اپنی طاقت سے علیحدہ کردیا۔ اب اس کا مالک انسان ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے وہ اس کے معاملات کودیکھے” ۔ انسانی مسائل کبھی بھی ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوجاتے ہیں اس لیے انہیںبغیر حل کے نہیںچھوڑ نا چاہئے۔ فکر و سوچ ، تحقیق و تفتش اورجستجوکے دروازے ہمیشہ کھلے رہنا چاہیںجوسماج وقت کیساتھ چلنے سے انکار کر دیتے ہیں اور تبدیلی کے سامنے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں تو ان سماجوں میں رہنے والوں کی حالت کافکا جیسی ہوجاتی ہے اور وہ مایوسی ، بدحالی ، جہالت اور بے بسی کی آگ میں ننگے بدن کے ساتھ جل رہے ہوتے ہیں۔ ہر قسم کی بربادی ،غربت و افلاس ، بیماریاں ، ذلت و خواری چڑیلوں کی طرح ان سے چمٹ جاتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر ان کی نجات انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ آج پاکستان تبدیلی یاانقلاب کے دہانے پر کھڑاہے۔ پاکستان کے عوام اپنے حالات زندگی سے تنگ آچکے ہیں ۔ ملک کی اشرافیہ نے ان کا جیناحرام کر چھوڑا ہے۔ وہ عوام کو بدحال،ذلیل و خوار کرتے کرتے خود بھی ذہنی وجسمانی طور پر بدحال ہوچکے ہیں ۔ دونوں جانب انتہا ہو چکی ہے۔ اب اس سے آگے جایا نہیں جاسکتا۔، اس لیے دونوں ہی کے حالات تبدیلی کے منتظر ہیں ، جگہیں تبدیل ہونے کا وقت آچکا ہے ۔ دیکھنایہ ہے کہ جگہوں کی تبدیلی پر امن طریقے سے ہوتی ہے یا پھر پر تشدد طریقے سے۔ یاد رہے اب ان تبدیلیوں کو روکے سے روکانہیں جاسکے گا۔ اگر اب بھی کوئی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے تو اسے انسانی تاریخ ایک بار ضرور پڑھ لینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ حریت جوان وجود اتوار 01 جون 2025
بھارتی مظالم کے باوجود کشمیریوں کا جذبۂ حریت جوان

پاکستانی سیاست وجود اتوار 01 جون 2025
پاکستانی سیاست

لگا ہے مصر کا بازار یکھو ! وجود هفته 31 مئی 2025
لگا ہے مصر کا بازار یکھو !

آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے! وجود هفته 31 مئی 2025
آپ حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے!

جوہری میدان میں بھارتی غفلت عالمی سلامتی کیلئے خطرہ وجود هفته 31 مئی 2025
جوہری میدان میں بھارتی غفلت عالمی سلامتی کیلئے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر