... loading ...
ریاض احمدچودھری
بھارت میں یورینیم کی چوری کے واقعات نے جوہری تحفظ کے پروٹوکولز کے بارے میں بڑھتے خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔بھارت میں جوہری مواد کی چوری، اسمگلنگ اور تابکار حادثات کے تسلسل نے عالمی برادری کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کی جوہری تنصیبات اور مواد کی تیاری سے متعلق حفاظتی اقدامات میں مسلسل کوتاہیاں سامنے آ رہی ہیں، جو نہ صرف خود بھارت بلکہ پورے خطے اور دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
سکیورٹی ماہرین اور بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ بھارت میں ایٹمی مواد کی تیاری، تجربات اور ان کی نگرانی میں سنگین خامیاں موجود ہیں۔ساؤتھ ایشیا اسٹریٹجک اسٹیبیلٹی انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 1994 سے 2021 کے دوران بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے 18 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں چوری ہونے والے مواد کی مقدار 200 کلوگرام سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان واقعات میں شامل متعدد کیسز میں ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے یورینیم یا کیلیفورنیم جیسے خطرناک تابکار مادے برآمد ہوئے۔ نیوکلئیر تھریٹ انیشی ایٹو (NTI) کی 2024 کی رپورٹ بھی بھارت کی جوہری سلامتی کے نظام پر شدید سوالات اٹھاتی ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت کو 22 ممالک کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، جب کہ ایٹمی تنصیبات کے تحفظ کے عالمی انڈیکس میں بھارت 47 ممالک میں سے 40 ویں نمبر پر ہے۔صرف یہی نہیںNTI نے متعدد بار بھارت میں ممکنہ جوہری حادثات سے قبل خبردار بھی کیا، مگر حکومتی عدم توجہ نے ان خطرات کو حقیقت بنا دیا۔
نومبر 1994 میں بھارت کے علاقے دومیاسیات سے 2.5 کلوگرام یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی گئی۔ 1998 میں 100 کلوگرام سے زائد یورینیم اسمگل کرنے کی کوشش بھی ریکارڈ پر ہے۔اسی برس جولائی میں تامل ناڈو سے 8 کلوگرام، مئی 2000 میں ممبئی سے 8.3 کلوگرام اور اگست 2001 میں مغربی بنگال سے 200 گرام نیم تیار شدہ یورینیم برآمد ہوا۔حالیہ برسوں میں بھی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ 2018 میں کولکتہ میں پانچ افراد کے قبضے سے 1 کلوگرام یورینیم برآمد ہوا۔ مئی 2021 میں مہاراشٹرا سے 7 کلوگرام یورینیم اور جون 2021 میں جھارکھنڈ سے 6.4 کلوگرام یورینیم قبضے میں لیا گیا۔ اسی سال کولکتہ ایئرپورٹ پر 250 گرام کیلیفورنیم بھی برآمد کیا گیا جو کہ شدید تابکار اور مہنگا مواد ہے۔
جولائی 2024 میں بھارت کے حساس ترین ادارے، بھابھا ایٹمی تحقیقاتی مرکز سے تابکار آلہ چوری ہو جانا بھارتی جوہری تحفظ کے لیے ایک کھلا طمانچہ تھا۔ اگست 2024 میں ایک اور تابکار مادہ، جو کیلیفورنیم سے مشابہہ تھا، قبضے میں لیا گیا۔ ان تمام واقعات نے عالمی اداروں اور ماہرین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بھارت کی جوہری سلامتی پر نظر ثانی کریں۔بھارتی پارلیمانی رپورٹس بھی اس غفلت کی تصدیق کرتی ہیں۔ 1995 سے 1998 کے درمیان 147 حفاظتی حادثات رپورٹ کیے گئے، جو حکومتی اور انتظامی سطح پر بدترین لاپروائی کی عکاسی کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ کمزوریاں نہ صرف خود اس کے لیے خطرناک ہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں جوہری تحفظ کے عالمی پروٹوکولز کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تابکار مواد کی بار بار چوری اور اس کی اسمگلنگ کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت جوہری ہتھیار رکھنے کے باوجود بین الاقوامی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے۔عالمی برادری کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا بھارت جیسے ملک کو ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت برقرار رکھنے دی جائے جب کہ اس کے اندرونی حفاظتی نظام اتنے غیر محفوظ اور ناقابلِ اعتماد ثابت ہو چکے ہیں۔
بھارتی میڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ریاست بہار کے ضلع گوپال گنج میں تین سمگلرز کو نایاب کیلیفورنیم سٹون کے ساتھ گرفتار کیا ہے جو انتہائی تابکار ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ سلامتی کونسل کو ہمارے پڑوسی ملک میں جوہری اور دیگر تابکار مواد کی چوری اور غیر قانونی فروخت کے بار بار ہونے والے واقعات پر گہری تشویش ہونی چاہیے اور اپنی قرارداد 1540 کے مطابق اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے مطالبہ کرتی ہیکہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی ) کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مخصوص اقدامات کریں۔ قرارداد 1540 کی شرائط کے تحت سلامتی کونسل مطالبہ کرتی ہے کہ تمام ریاستیں جوہری، کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کو تیار کرنے، حاصل کرنے، رکھنے، نقل و حمل،منتقلی یا استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے غیر ریاستی عناصر کو ان کی ترسیل کے ذرائع، خاص طور پر دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے سے روکیں۔ قرارداد میں تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب قوانین کو اپنائیں اور ان پر عمل درآمد کریں اور ساتھ ہی ان ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو غیر ریاستی عناصر، خاص طور پر دہشت گردی کے مقاصد کے لیے روکنے کے لیے دیگر موثر اقدامات کریں۔
جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی کی جانچ پڑتال کرنے والے امریکی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت کی نیوکلیئر تنصیبات کی سکیورٹی پاکستان کی نسبت انتہائی کمزور ہے۔ بھارتی جوہری پروگرام کو ناقص سکیورٹی کے علاوہ کرپشن کا بھی سامنا ہے۔ بھارت کی نیوکلیئر تنصیبات کو بیرونی دہشت گردوں اور داخلی طور پر خطرات لاحق ہیں۔رپورٹ کے مطابق یہ واضح نہیں کہ بھارت اپنی جوہری تنصیبات کو درپیش خطرات کا مقابلہ کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے 2008ء میں بھارتی اٹامک ریسرچ سنٹر کا دورہ کرنے والے امریکی ماہرین نے بھی کہا تھا کہ جوہری تنصیبات کی سکیورٹی کے انتظامات انتہائی کم درجے کے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں گزشتہ دو دہائیوں میں جوہری مواد کی چوری کے پانچ واقعات رونما ہوئے۔