... loading ...
آواز
ایم سرور صدیقی
درویش کے چہرے پر بلا کا نور تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُتر آیا ہو۔ اس کی گفتگو دل میں اترتی محسوس ہونے لگی ۔وہ بڑی متانت سے بولے جارہاتھا ،اگرمانگنے کا سلیقہ آتا ہو تودعا کے لئے ہاتھ اٹھنے سے پہلے ہی قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے۔ دراصل آج تک ہمیں مانگنے کا سہی سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم نے آنسو بہانا سیکھ لیاہے، وظائف سیکھ لئے ، ہم نے لمبی چوڑی دعائیں سیکھ لیں، ہم نے نسبت کا سہارا بھی لے لیا، الٹی سیدھی خواہشات کے حصول کے لئے شعبدہ بازوںکے پاس جانا وطیرہ بنالیا ۔اکثرلالچ یا دکھاوے کے لئے اللہ کی راہ میں بھی بانٹتے ہیں چلو اس سے کسی کی ضرورت تو پوری ہوجاتی ہوگی لیکن اللہ کی راہ میں دینے کے لئے خلوص انتہائی ضروری ہے ۔
درویش نے دور کہیں خلائوںمیں گھورتے ہوئے کہا چلو یہ بھی سب اچھا ہے، درست ہے بلکہ بہت عمدہ ہے۔میں بالکل بھی اِن سب ادائوں کی نفی نہیں کر رہا ہوں ۔تمام اچھی باتوں پرسر تسلیم خم کرتا ہوں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تیرے دل میں کہیں کہیں بیتابی اور خیالوں میں الجھے ہوئے خیال باقی رہ جاتے ہیں تو میاں پھر اپنی ادائوںپر غور کی ضرورت ہے کیونکہ بات نہیں بن رہی۔ دل کو سو فیصد راحت اور سکون نہیں توثابت ہوا ہمیں اب تلک حقیقی معنوں میں مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا۔ ہم نے بظاہرخودکو پاک صاف کر لیا، کپڑا اچھا پہن لیا، چہرہ خوبصورت بنا لیا، خوشبو عمدہ لگا لی، حتی کہ سجدے بھی لمبے لمبے کر لئے ، نمازیں بھی پوری ادا کر لیں اور بالآخر حج بھی کرلیا اب حاجی صاحب کے القاب سے پھولے نہیں سماتے ۔ درویش نے ایک گہری سانس لے کر سامعین پر نظر دوڑائی پھرگویا ہوئے میاں پھر کہتا ہوں سب قبول ہے اور اچھا دستورِ زندگی کے یہی تقاضے ہیں مگر ذرا غورکیا ہے کبھی تو نے اپنے اندر بھی جھانکا ہے ۔یقینا دل گواہی دے گا۔ اپنے لئے اتنا سب کچھ کرنے کی ضرورت بھی تھی یا اِس سے کم میں بھی بات بن سکتی تھی پھر جو تو نے کیا اس میں خالص اللہ کی رضا کے لیے کتنا تھا؟ کبھی مڑ کر پیچھے بھی تو دیکھ لے، مگر تو کیوں دیکھے گا پیچھے ، تیرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے تجھے کسی کے پیٹ پر بندھے پتھر بھلا کیسے نظر آنے والا ہے۔پیٹ پر پتھر تو آقا ۖ نے بھی باندھے تھے اور جو جو کام اللہ کے حبیب ۖ نے ایک بار کر دیا ہے، خدا کی قسم وہ مٹنے والا نہیں ، اللہ کے حبیب ۖ کی ہرہر ادا مسلمانوںکو مجبوب ہونی چاہیے ۔پیٹ پر پتھرباندھنا بھی تو سنت ہے اور اب آپ کہیں گے ہر سنت پر آج کے دور میں کیونکر عمل ہو سکتاہے ۔ یہ کہتے ہوئے درویش زارو قطار رونے لگا۔ سامعین حیران پریشان اسے تک رہے تھے ،پھر درویش نے اپنا دامن اٹھایا اس کے پیٹ پردو پتھر بندھے ہوئے تھے ۔اس نے آنسوئوں سے بھیگی داڑھی پر دونوںہاتھ پھیرے، حدِ نظر پھیلے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا با خدا آج رزق کی فراوانی ہے ۔اللہ ہمیں دنیاجہاںکی ہر نعمت عطافرماتاہے مگرپھربھی ناشکری ہماری نس نس میں زہرکی طرح پھیل گئی ہے ۔سوچتاہوں وہ کیا عالم ہوگا جب اللہ کے حبیب ۖ نے اپنے جسم ِ اطہر پر دو دو پتھر باندھے تھے میں ان کی سنت زندہ کرنے کے لئے کبھی کبھار پیٹ پر پتھرباندھتا ہوں دو دن کا فاقہ تو دو پتھر۔۔ رکھنے کو تو روزے بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر کیسے احساس ہوتا کہ رحمت ِ عالم ۖ فاقے سے تھے مگر آج اس فلسفہ کو کون دیکھے، کون سمجھے ؟ حالانکہ آج کے دور میں فاقوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے بدہضمی سے مرجاتے ہیں ، وہ نظر کوئی کہاں سے لائے ، چونکہ بھرے پیٹ ایسا ماجرا تو نظر آنے والا نہیں ہے، جب وہ نظر ہوگی جب وہ مانگنے کا سلیقہ ہوگا ، مانگنے کے سلیقے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس جس کا جو جو حق چاہتے نا چاہتے آپ کے پاس کیسے بھی آ گیا ہے تو واپس لوٹا دو، قرضوں کو فی الفور ادا کیاکرو، پڑوسی کو عزت دو ، اس کا اکرام کرو، بھائی کو بھائی مان لو، بہن کو اور بیٹی کو اس کا حق فوراً دے دو۔ یہی تمہارے حق میں بہترہے ، اللہ کی مقرر کردہ حدود کے قریب بھی مت بھٹکو ورنہ تمہاراشمارحد سے تجاوزکرنے والوں میں ہو گا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زنا، قتل، شراب، چوری،حق تلفی،بدزبانی اور دیگر جتنے بھی بے حیائی والے کام ہیں ان سے توبہ کرلو کیا تمہیں یادنہیں اِن سب باطل کاموں کی ابتدا جھوٹ ہے بلکہ مذاق میں بولا گیا جھوٹ بھی گناہ ہے، خیر باتوں سے بات نکلتی نکلتی کبھی کس رخ کو جاتی ہے کبھی کس رخ کو مجھے خود بھی نہیں پتہ، مگر بات شروع کرنے سے پہلے یہی نیت کی تھی کہ اللہ مجھے وہ بات کہنے کی توفیق دے جو اس کے بندوں کے حق میں بہتر ہو، میں آج تمہیں ایک راز کی بات بتائوں اللہ تبارک تعالیٰ سے مانگنے کا صحیح اور سو فیصد طریقہ یہ ہے کہ اپنے والدین کو راضی کر لو پھر ان کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو۔ یقینا یہ دعا ردنہیں ہوسکتی ۔والدین جیسے راضی ہوتے ہیں ان کو راضی کر لو ۔وہ تمہاری تھوڑی سی توجہ سے خوش ہوجائیں گے ۔ان کے پاس تو بیٹھا کرو جیسے بچپن میں وہ تمہیں خوش کیا کرتے تھے ،آج ان کو خوش کرنے کیلئے کبھی کبھار ان کی پسندکی کوئی چیز لے آیا کرو ۔ اس کے بدلے میں تیرے والدین اتنی دعائیں دیں گے کہ اللہ پاک تمہاری ہر دعا شرف ِ قبولیت بخشے گا۔ کبھی غورکرو آج ہم دنیا کے مشغلوں میں اس قدرگم ہو گئے ہیں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے ہیں کبھی خود کو بھی تلاش کر اسی میں عافیت ہے۔ تیرا با پ جنت کا دروازہ ہے اور جنت تیری ماں کے قدموں میں پڑی ہے اور تو مورکھ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اور لوگوں سے جنت کا پتہ پو چھتا پھرے یہ انصاف تو نہیں ہے ۔والدین راضی ہونگے تو اللہ راضی ہوگا ، اللہ راضی ہوگا تو جگ راضی ہوگا،اور سنو اللہ کی مخلوق کو معاف کرنا زندگی کا شعاربنالو ۔معاف کرنا اللہ کی شان ہے ۔اس عادت کے طفیل اللہ تمہاری غلطیوں،کوتاہیوں اور گناہوںکو معاف کرے گا۔ یقین جانو دعائوںکی قبولیت کا یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔ دعاہے ا للہ ہمیں اپنے والدین کو ہمیشہ راضی رکھنے کی توفیق عطاکرے اور اپنی اور اپنے حبیب ۖ کی محبت عطا فرما ئے ۔آمین