... loading ...
ریاض احمدچودھری
فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے بعد اسرائیل کا مودی سرکار کے ساتھ مذموم گٹھ جوڑ منظر عام پر آ گیا۔20 اسرائیلی اہلکار مقبوضہ کشمیر پہنچ گئے ہیں جو تکنیکی ساز و سامان سے لیس ہیں۔ پہلگام حملے کے پسِ پردہ ایجنڈا واضح طور پر بھارتی جنگی جنون کو مزید بڑھانا تھا۔ اسرائیلی اہلکاروں کی سری نگر میں آمد انتہائی تشویش ناک ہے، اسرائیلی اہلکاروں کی مقبوضہ کشمیر میں آمد، پاکستان کے خلاف مذموم مہم جوئی کی سہولت کاری ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی سرکار پہلے ہی اسرائیلی طرز کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں کا قتل عام کررہی ہے، اسرائیل اور مودی کا گٹھ جوڑ عالمی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
بھارت نے ایک بار پھر اسرائیلی اسلحے پر انحصار ظاہر کرتے ہوئے اسرائیلی ساختہ باراک 8 فضائی دفاعی نظام کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے۔ اس تجربے کے بعد اس جدید دفاعی سسٹم کو جلد آپریشنل قرار دیے جانے کا امکان ہے۔یہ سسٹم 2017 میں بھارت کو فروخت کیا گیا تھا اور تب سے اس کے مختلف مراحل کے تجربات جاری ہیں۔ یہ سسٹم پہلے ہی بھارتی فضائیہ اور بحریہ میں استعمال ہو رہا ہے، جب کہ حالیہ تجربہ بری فوج کے لیے منظوری کے مقصد سے کیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ سسٹم اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) اور بھارت کی ڈی آر ڈی او (DRDO) نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ تجربے کے دوران باراک 8 سسٹم نے مختلف فضائی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون اور اسلحہ ساز گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔باراک 8 کو زمین اور بحری پلیٹ فارمز پر نصب کیا جا سکتا ہے اور یہ 70 کلومیٹر تک کے فضائی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت اور اسرائیل کے درمیان دفاعی تعاون جنوبی ایشیا میں اسلحے کی نئی دوڑ کو ہوا دے سکتا ہے، جس سے خطے میں عدم توازن اور کشیدگی بڑھنے کا خدشہ ہے۔حال ہی میں پہلگام واقعے کے بعد سامنے آنے والی اطلاعات نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق اسرائیلی اہلکاروں کی سری نگر آمد نے ایک ایسے اتحاد کو بے نقاب کیا ہے جس کا ہدف محض مقبوضہ کشمیر یا فلسطین نہیں بلکہ پورے خطے کا امن ہے۔ یہ اتحاد صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ انسانی اقدار، آزادی، اور انصاف کے اصولوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اسرائیل جو اس وقت غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے اور بھارت جو کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی میں مصروف ہے، اب دونوں ایک خفیہ اشتراک میں نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی اور خفیہ مہارتیں بھارت کی جنگی پالیسیوں کا حصہ بنتی جا رہی ہیں، اور سری نگر میں ان اہلکاروں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب کشمیر کو بھی فلسطین بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال صرف پاکستان کے لیے نہیں، بلکہ پوری امت ِ مسلمہ اور دنیا بھر کے امن پسند لوگوں کے لیے لمحہ فکر ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا یہ اتحاد دراصل ظلم، جارحیت، نسل پرستی اور ریاستی دہشت گردی کی علامت بنتا جا رہا ہے۔ یہ وہی مودی ہے جسے دنیا ”گجرات کا قصائی” کہتی ہے، اور وہی اسرائیل ہے جو آج بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں اْڑا کر غزہ میں عورتوں، بچوں، اور بزرگوں پر بمباری کر رہا ہے۔ سری نگر میں اسرائیلی اہلکاروں کی موجودگی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مودی سرکار کشمیر میں مزید خونیں منصوبے شروع کرنے جا رہی ہے، اور ان منصوبوں کو ”ٹیکنیکل سپورٹ” اسرائیل فراہم کرے گا۔ یہ اشتراک پاکستان کے خلاف ممکنہ خفیہ مہمات، جاسوسی نیٹ ورکس، اور پراکسی وار کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔
عالم اسلام کو اب آنکھیں کھولنی ہوں گی۔ مسئلہ صرف کشمیر یا فلسطین کا نہیں، بلکہ ہر اس مسلمان کا ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ او آئی سی، اقوام متحدہ، اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بھارت و اسرائیل کے اس ناپاک گٹھ جوڑ کا نوٹس لینا چاہیے اور سفارتی، سیاسی اور اطلاعاتی محاذ پر پوری قوت سے بھارت و اسرائیل کے اس گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا ہوگا۔خطے میں حکمرانی کا خواب دیکھنے والا بھارت اسرائیل کے ساتھ قریبی گٹھ جوڑ کئے ہوئے اور اب اس تعلق کے دفاعی پہلو کو بھی مزید مضبوط کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا” کے مطابق بھارت اسرائیلی ہتھیاروں کی خریداری پر ایک ارب ڈالر (تقریباً 100 ارب پاکستانی روپے) خرچ کررہا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے فوجی تعلقات کی نوعیت بڑی سنگین ہے اور اسے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوجی پالیسیوں میں ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں اسرائیلی عنصر خفیہ طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ان ابتدائی ممالک میں شامل ہے جو سوویت یونین کے خاتمے اور آزاد وسط ایشیائی ممالک کے وجود میں آنے کے بعد ان ملکوں کے انرجی سیکٹر میں داخل ہوئے۔
بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کا ایک تاریک پہلو خفیہ کارروائیوں کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعاون پر مبنی ہے اسرائیل اپنی خفیہ سرگرمیاں اپنی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے انجام دیتا ہے اسکی سرگرمیاں ساری عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں پھیلی ہوئی ہیں اور اب بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” کے ذریعے موساد کی رسائی جنوبی ایشیائی خطے میں ہونے لگی ہے اسکے جواب میں بھارت کو مغربی ایشیائی خطے میں زیادہ رسائی حاصل ہو جائیگی ”را” اور ”موساد” کے رابطے 1968ء سے قائم ہیں جب اندرا گاندھی نے را کے عہدیدار رامیشور ناتھ کائو کو موساد سے رابطہ قائم کرنے کی خصوصی طور پر ہدایت کی تھی لیکن نئی دہلی اور موساد کے تعلقات عملی طور پر 1950ء سے استوار تھے’ جب اسرائیل کو ممبئی میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دی گئی۔