وجود

... loading ...

وجود

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

جمعرات 01 مئی 2025 انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

جاوید محمود

موجودہ صورتحال میں دنیا دیکھ رہی ہے کہ انڈیا کھلے عام معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے جس کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان آنے والے ہر لمحے میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اہم دو طرفہ معاہدہ شملہ معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ 1971کی جنگ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ دو جولائی 1972کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اورانڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ ایک امن معاہدہ تھا جو انڈین ریاست ہما چل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں ہوا تھا ۔اسی وجہ سے اسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے ۔اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا پرامن تصفیہ اور کسی فریق ثالث کی مداخلت کے بغیر دو طرفہ اور پرامن طریقے سے تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنے پر اتفاق کرنا علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام سیاسی آزادی اور داخلی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام کرنا شامل تھا۔ اس معاہدے میں جموں اور کشمیر میں سرحدی لائن کو ایل او سی کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ دونوں فریقوں نے یکطرفہ طور پر اسے تبدیل نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔اسی معاہدے کے تحت انڈیا نے بنگلہ دیش جنگ کے دوران 93000پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پائیدار امن کے قیام کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا تھا جوہری تنصیبات کے حوالے سے ایک اور معاہدے پر31 دسمبر 1988کو دستخط کیے گئے تھے اور 27جنوری 1991کو یہ نافذ العمل ہوا۔ اس کے کلیدی نکات میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جوہری تنصیبات اورسہولیات پر حملہ یا تباہ نہ کرنے پر اتفاق کرنا ہر سال یکم جنوری کو اپنی جوہری تنصیبات اور سہولیات کی فہرستوں کا تبادلہ کرنے جوہری ری ایکٹر فیول فریکشن ریپروسیسنگ اور تحقیقات تحقیقی سہولیات کے ساتھ ساتھ دیگر تنصیبات کا احاطہ کیا گیا جہاں جوہری مواد موجود ہے۔ اس معاہدے کا مقصد جوہری تصادم کے خطرے کو کم کرنا اور جوہری تنصیبات کے حوالے سے یقین دہانی اور شفافیت فراہم کر کے خطے میں استحکام کو فروغ دینا ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان فوجی مشقوں اور عسکری نقل و حرکت پر پیشگی اطلاعات پر معاہدے کا مقصد شفافیت کو بڑھانا اور فوجی سرگرمیاں کی غلط تشریح کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ یہ معاہدہ چھ اپریل 1991میں کیا گیا تھا اور اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک سرحد کے قریب یا حساس علاقوں میں فوجی مشقوں اور عسکری ساز و سامان کی نقل و حرکت کے بارے میں پیشگی اطلاع فراہم کرنے پر متفق ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی مشقوں یا مخصوص حد سے تجاوز کرنے والے عسکری دستوں کی نقل و حرکت کی دوسرے ملک کو پیش کی اطلاعات دینے کے پابند ہیں ۔انڈیا اور پاکستان کے درمیان فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور عسکری طیاروں کو اوور فلائٹس اور لینڈنگ کی اجازت دینے کے معاہدے کا مقصد حادثاتی یا غیر مجاز اورز فلائٹس کو روکنا اور محفوظ ہوا بازی کے طریقوں کو فروغ دینا ہے ۔یہ معاہدہ بھی چھ اپریل 1991کو ہوا تھا ۔بیلسٹک میزائل کے حوالے سے تین اکتوبر 2005 میں معاہدہ ہوا اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کا بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاعات فراہم کرنے پر اتفاق میزائل کی قسم لانچ کی جگہ اور متوقع متاثر علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا شامل ہے ۔یہ اہم معاہدہ 21فروری 2007کو طے پایا تھا اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کسی بھی جوہری حادثے یا غیر ارادی ایٹمی دھماکے کی صورت میں فوری طور پر ایک دوسرے کو مطلع کرنے پر متفق ہیں ۔اس معاہدے کے تحت معلومات اوراطلاعات کے تبادلے کے لیے خصوصی رابطہ چیلنجز قائم کرنا دونوں ممالک جوہری حادثات کو روکنے اور غیر مجاز جوہری استعمال کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔اس معاہدے کے تحت کسی بھی ایسے حادثے کی صورت میں تابکاری کے اثرات کو محدود رکھنے سے متعلق اقدامات کے متعلق معلومات کا دو طرفہ تبادلہ کرنا شامل ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے دو طرفہ تعلقات میں ایک اہم پیش رفت لاہور اعلامیہ یا لاہور معاہدہ بھی ہے ۔یہ دو طرفہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے مابین 21فروری 1999کو طے پایا۔ لاہور اعلامیہ تاریخی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک میں ایٹمی تجربات کے بعد ہونے والا معاہدہ تھا جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں بڑی پیشرفت قرار دیا گیا۔ اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو پر امن بات چیت اور دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذہبی مقامات پر زائرین کے دورے کے معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان مذہبی مقاصد کے لیے سفر کو آسان بنانا تھا۔ یہ دو طرفہ معاہدہ 14ستمبر 1974میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹریزکی سطح پر کیا گیا تھا ۔اس معاہدے کے اہم نکات میں زائرین کوویزا کے بغیر یا مخصوص مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے خصوصی ویزا جاری کرنے کے انتظامات کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت دینا دونوں ممالک میں نامزد مذہبی مقامات تک زائرین کو رسائی فراہم کرنا ثقافتی اور مذہبی تبادلے کو فروغ دینا شامل ہے۔
اس کے علاوہ 8اپریل 1950کو انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا جس میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اتفاق کیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کی جانب سے اقلیتوں کی جان و مال اور عزت کے تحفظ پر اتفاق کرنا مذہب یا نسل سے قطع نظر تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور روزگار سمیت دیگرمواقع فراہم کرنے پر زور دینا مذہب نسل ذات یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کو ختم کرنا اور انہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ طور پر عبادت کرنے کی اجازت دینے کا عہد شامل تھا۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے عالمی بینک کی ثالثی میں نو برس کے مذاکرات کے بعد ستمبر 1960میں سندھ طاس معاہدہ کیا گیا تھا۔ اس وقت انڈیا کے وزیراعظم جو اہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے اور یہ امید ظاہر کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔ دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 72 برس سے اپنی جگہ قائم رہا۔ اس معاہدے کے تحت انڈیا کو بیاس ،راوی اور دریائے ستلج کے پانی پر مکمل جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر اختیار دیا گیا تھا تاہم ان دریاؤں کے 80فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ انڈیا کو مغربی دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن وہ پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کے منصوبے نہیں بنا سکتا ۔اس کے برعکس اسے مشرقی دریاؤں یعنی راوی بیاس اور ستلج پر کسی بھی قسم کی منصوبے بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا ۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان سندھ طاس کے حتمی معاہدے تک پہنچنے سے قبل 1959، 1957 ،1955 میں بھی دریاؤں کے پانی کو تقسیم سے متعلق ایڈہاک بنیادوں پر مختلف معاہدات ہوئے اور انہیں معاہدات نے سندھ طاس معاہدے کو جنم دیا تھا۔ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے جواب میں پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کرے گا ۔اور یہ کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ شملہ معاہدے سمیت دیگر تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مودی اپنی انتہا پسند طبیعت کا سہارا لیتے ہوئے معاہدوں کو توڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر