وجود

... loading ...

وجود

طے شدہ معاملات تبدیل کیے تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا،مولانا فضل الرحمن

منگل 17 دسمبر 2024 طے شدہ معاملات تبدیل کیے تو فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا،مولانا فضل الرحمن

جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے ، مدارس بل کے طے شدہ معاملات میں تبدیلی ہوئی تو پھر فیصلہ ایوان نہیں میدان میں ہوگا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں، لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمے داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا ہے ۔ ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26ویں آئینی ترمیم پاس کی اور یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا۔ اس میں تمام پارٹیاں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر آن بورڈ تھیں ، اگرچہ بڑی اپوزیشن پارٹی نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی اور اس حوالے سے مذاکرات کا عمل بھی ایک عرصے سے زائد رہا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس میں تمام پارٹیاں اپوزیشن اور حکومتی بینچز آن بورڈ تھیں۔ سیاست میں یہی ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوتے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں،دلائل سے سمجھاتے ہیں اور پھر مسئلہ ایک حل کی طرف پہنچ جاتا ہے ۔سربراہ جے یو آئی نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے ، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی ۔ کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے ۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔ وہاں ڈرانے دھمکانے اور پریشان کرنے کا سلسلہ چل رہا تھا، جس پر سنجیدہ شکایت اٹھی۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا کہ کسی بھی مدرسے کے حوالے سے کوئی شکایت براہ راست مدرسے میں جاکر نہیں کی جائے گی بلکہ اس تنظیم سے کی جائے گی جس کے ساتھ اس مدرسے کا الحاق ہے ۔ ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی ۔فضل الرحمن نے کہا کہ پھر حکومت نے کہا مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں ۔ پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی۔ وہ ایکٹ نہیں بنا لیکن محض معاہدہ تھا ، جو 3 باتوں پر مشتمل تھا۔ ایک یہ کہ دینی مدارس جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی۔ نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی۔ دوسری بات یہ کہ دینی مدارس مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھول دیے جائیں گے اور تیسری بات یہ کہ غیر ملکی طلبہ جن پر پابندی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم حاصل کریں، انہیں اجازت دے کر 9سال کا ویزا دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعدایجوکیشن بورڈ بنا، پھر 12 مراکز بنائے گئے ، یہ سب بعد کے ایگزیکٹو آرڈرز ہیں، ان کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آج اگر کوئی اس کی بات کرتا ہے تو یہ پس از مرگ واویلا کی بات ہے ۔ وہ معاہدہ حکومت کی طرف سے ٹوٹ چکا تھا۔ آج تک تنظیمات مدارس دینیہ سے وابستہ نہ کسی مدرسے کی رجسٹریشن ہو چکی ہے نہ ہی کس مدرسے کا اکاؤنٹ کھل سکا ہے نہ ہی کسی مدرسے کے ایک بھی طالب علم کو ویزا دیا گیا ہے ۔جے یو آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ بعد میں کسی کے فیض سے مدارس توڑ دیے گئے ۔ اب تک یہی 5 بورڈز تھے ، اس کے بعد 20، 25 بنا دیے گئے ۔ جس کا نہ 2004 کے حوالے سے کوئی کردار ہے نہ 2010ء کے معاہدے سے کوئی کردار ہے ۔ اور نہ ہی اس کا کوئی جو ہماری حالیہ قانون سازی ہو رہی تھی اس سے کوئی تعلق ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن سے پہلے جو پی ڈی ایم کی حکومت تھی، میں نے وزیراعظم شہباز شریف سے عرض کیا کہ ایک مسئلہ الجھا ہوا ہے اسے پورا کریں جس پر انہوں نے ہامی بھری اور بات چیت ہوئی۔ تنظیمات مدارس کے تمام قائدین کو بلایا اور ان کی مشاورت و مشارکت کے ساتھ اصول طے کیے گئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ کیا کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر ہم سے اجازت لیے بغیر آپ نے ہماری تنظیموں کو توڑا اور وہ تنظیمیں جن کو ہم نے تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس آزاد ہوں گے خواہ وہ وہاں رجسٹریشن کرائیں یا سوسائٹی ایکٹ کے تحت کرائیں، اس پر وزیر قانون کی طرف سے ڈرافٹ بنا اور جس طرح معاہدہ ہوا تھا، اسی کے مطابق ڈارفٹ آیا اور یہاں ایوان میں پیش ہوا۔ یہاں ایوان میں اس کی پہلی خواندگی ہوئی اور جب دوسری خواندگی شق وار ہو رہی تھی تو نہ جانے کہاں سے کیا ہدایات آتی رہیں کہ دوران قانون سازی اس میں تبدیلیاں لائی گئیں اور پھر ہم نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کا حصہ نہیں بنتے ۔ کیوں کہ یہ اس معاہدے جو ہمارے باہمی اتفاق رائے سے ہوا تھا، اس میں تبدیلی تھی۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اس ایوان کے اندر جب 26 ویں ترمیم پر بات ہو رہی تھی تو ہم نے اس میں کہا کہ ایک مرحوم بل، ایک معصوم بل سے پہلے جس پر اتفاق ہوا، جس کا یہاں قتل کیا گیا آئیے ، اسے بھی لے آئیں۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ آپ ان مدارس کو اس میں سے نکال دیں لیکن ڈرافٹ جو پاس ہوا ہے ، اس میں وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ ان مدارس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں بنایا یہ حکومت کی طرف سے آیا۔ ہم نے اسے بھی قبول کیا تھا کیوں کہ ہمارا کوئی اعتراض نہیں تھا اور بل پاس ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ اگر یہاں ایاز صادق موجود ہوتے تو میں ان کے روبرو عرض کرتا۔ یہاں 20 اکتوبر اور 21 اکتوبر رات 12 بجے کے بعد صبح تک یہ قانون قومی اسمبلی سے بھی پاس ہوگیا، سینیٹ سے پہلے پاس ہو چکا تھا۔اب سوال یہ ہے کہ 28 اکتوبر کو صدر مملکت اس بل پر ایک اعتراض بھیجتے ہیں ، ظاہر ہے دونوں ایوانوں میں جو بل آتا ہے ، تو جس ایوان میں
آخر میں پاس ہوتا ہے ، وہیں سے صدر کے پاس جاتا ہے اور وہاں سے کوئی اعتراض ہوا تو پھر اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس آیا، جس پر اسپیکر نے اسے ایک قلمی غلطی قرار دے کر اس کی تصحیح کردی۔اسپیکر صاحب نے آئین کے آرٹیکل 75 کا حوالہ دے کر صدر کے پاس جواب بھیجا۔ تاریخ 28 اکتوبر تھی تو اس کا مطلب ہے کہ صدر صاحب کو یہ بل موصول ہو چکا ہے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہماری قطعی رائے ہے اور تمام تنظیمات مدارس نے متفقہ طور پر طے کیا کہ یہ ایکٹ بن چکا ہے اور جناب اسپیکر سردار ایاز صادق صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ الفاظ استعمال کیے کہ ہماری کتابوں کے مطابق تو یہ ایکٹ بن چکا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں کرنا کہ وہ بھی تو مدارس ہیں تو تھوڑی سی تبدیلی اگر کردی جائے تو گنجائش جو پہلے نکالی گئی تھی اب بھی نکال دی جائے ، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ بحث اس بات پر ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا ہے ۔ یہ کیسی نظیر قائم کی جا رہی ہے ۔ اگر آج ہم نے اس میں ترمیم پر گفتگو کی، اسے ایکٹ تسلیم نہ کرتے ہوئے ، اس میں ترمیم شامل کرکے دوبارہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی یا مشترکہ اجلاس بلایا تو یہ آئین کی بھی خلاف ورزی تو یہ ایک غلط نظیر قائم ہوگی اور آئین کی بھی خلاف ورزی ہوگی، جس سے آنے والے وقتوں میں ہر پاکستانی کے لیے ، ہر پارلیمنٹ اور حکومت کے لیے مشکل پیش آتی رہے گی اور اس دستخط کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ایوان کا استحقاق، آئین کے استحقاق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایوان صدر سے ہماری شکایت ہے کہ آپ کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے ۔ اس پر اب کوئی تاویل نہیں چلے گی۔ میں نے بھی اسی مدرسے ، ہاؤس میں 40 سال گزارے ہیں۔ ہم آئین کو کھلواڑ نہیں ہونے دیں گے ۔ ہمارے اس مطالبے کو تسلیم کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم پر ایک ماہ سے زیادہ بحث ہوتی رہی اور بالآخر ہم ایک اتفاق رائے پر پہنچے ۔ 56 شقوں پر مشتمل پہلا ابتدائی ڈرافٹ جس پر مذاکرات کے نتیجے میں حکومت 34 شقوں سے دستبردار ہوئی اور 22 پر وہ آیا اور ہم نے اس میں 5 ترامیم پیش کی جو 27 شقوں کی شکل اختیار کرگیا۔ اس کے لیے میں کراچی گیا، بلاول ہاؤس گیا، گھنٹوں مذاکرات کیے ، دینی مدارس کا بل وہاں ڈسکس ہوا، اگلے روز ہم لاہور آئے اور نواز شریف کے گھر پر 5 گھنٹے ہم نے اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ایک اتفاق رائے پایا گیا اور پھر میں نے پی ٹی آئی کے دوستوں کو اعتماد میں لیا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کے ایک رکن کو بھی اس تمام پیش رفت سے غافل نہیں رکھا۔ اب مدارس کو کس چیز کی سزا دی جا رہی ہے ۔ ایک اتفاق رائے پارلیمنٹ کا ہوا ہے تو صاحب کہتے ہیں کہ آئیے کہ وہ فلاں فلاں پاکستان کے ساتھ تعاون چھوڑ دیں گے ، مدد نہیں کریں گے ، ناراض ہو جائیں گے ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ راز تو آج ہم پر کھلا ہے کہ کیا ہماری قانون سازی ان کی ہدایت کے مطابق اور ان کی رضامندی کے ساتھ ہوگی۔ کیا ہم آزادملک نہیں ہیں؟ اگر ہم آزاد نہیں تو کہہ دیا جائے کہ ہم واقعتاً غلام ہیں پھر ہم جانیں اور غلامی جانے ، کس طرح کوئی پاکستان پر غلامی مسلط کرتا ہے ۔ مگر یہ افسوس ناک باتیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا کے کانگریس میں یا وہاں کے کسی ایوان میں ایک رکن قرارداد پیش کرتا ہے اور وہ قرارداد عمران خان کی رہائی کے لیے ہے یا پی ٹی آئی کے حق میں جاتا ہے تو آپ یہاں قرارداد پاس کرتے ہیں کہ امریکا کو پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔ یہ پاکستان کے معاملات میں دخل دینا اس کا تعلق صرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ؟ کیا ہمارے آئین اور پارلیمنٹ کے ساتھ نہیں ہے ، کیا ہماری قانون سازی کے
ساتھ نہیں ہے ؟ایوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کیا یہ حوالہ دیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ناراض ہو جائے گایہ سب تاویلات ہم کیسے قبول کریں گے ؟ اور یہ کیسے ہمارے لیے دلیل بنیں گی۔ اس حوالے سے ملک بھر میں ایک شدید قسم کی ناراضی پائی جا رہی ہے اور ہم رفتہ رفتہ اس کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم کسی تلخی کی طرف نہ جائیں کیوں پاکستان کے حالات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ دینی جماعتیں آپ سے تعاون کررہی ہیں۔ یہ 2001 نہیں ہے ۔ یہ نائن الیون کا سال نہیں ہے ۔ دینی مدارس نے 23، 24 سال ثابت کر دکھایا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، پھر ان کا امتحان کس لیے لیا جا رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ صاف ظاہر ہے کہ تکلیف اس بات کی ہے کہ اس ملک میں مذہبی تعلیم کیوں ہے ؟ اس کے لیے مختلف ادارے کیوں ہیں؟ قرآن و حدیث اور فقہ پڑھانے کے لیے مدارس قائم کیوں کیے گئے ہیں؟ یہ بات تو پھر آج کی نہیں ہے ۔ جب علی گڑھ مدرسہ قائم ہوا اور اس کے نصاب کے لارڈ میکالے نے قرآن و حدیث، فقہ، عربی، فارسی نکال دی تو سب نکالنے کے بعد اس کے مقابلے میں مدرسہ بنا جس نے ان ہی علوم کو تحفظ دیا جس کو انگریز اپنے ساتھ لے گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہمیں جدید علوم سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی جو قائداعظم کے رفیق تھے جنہوں نے پاکستان کا پہلا جھنڈا لہرایا۔ اسی طرح مفتی محمد شفیع عثمانی 1951 تک اس حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے ، اب تو نہ ہندو ہے نہ انگریز ہے ، آئیے نئے ملک میں نیا نصاب تجویز کرتے ہیں تاکہ ہمارے بچے تقسیم نہ ہوں لیکن یہاں پر بھی انہیں پذیرائی نہیں ملی۔انہوں نے کہا کہ اب دینی مدرسے کے نصاب کو قبول نہ کرنا یہ پاکستان کی ابتدا سے آج تک ہماری بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ کی ذہنیت ہے ، وہی کارفرما ہے جسے آج نائن الیون کے بعد نئی سپورٹ عالمی سطح پر مل رہی ہے جو کسی بھی طریقے سے مدارس کے نظام کو تہس نہس کرنا چاہتی ہے ، جب کہ ہم نے تو جدید علوم سے انکار نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے ساتھ ایسا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم مدارس کی حریت و آزادی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن ملک میں قانون سے ماورا زندگی نہیں گزارنا چاہتے ۔ ہم قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوکر رہنا چاہتے ہیں۔آخر میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ دینی مدارس کے مسلمہ بورڈز کے نظام کو خراب کررہے ہیں، انہیں رجسٹرڈ نہیں ہونے دے رہے ، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ رجسٹریشن نہیں کریں گے تو مدرسہ ختم ہو جائے گا۔ آپ آج نہیں، 100 سال تک بھی رجسٹریشن نہ کریں، خداکی قسم دینی مدرسہ زندہ رہے گا، برقرار رہے گا۔ آپ بینک اکاؤنٹ نہ کھولیں، پیسے پھر بھی آئیں گے ، لیکن خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کو برباد نہ کیجیے ۔ ہم ایوان اور پارلیمنٹ سے اجازت لے چکے ہیں، ایکٹ بن چکا ہے ، اس پر نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا۔ حالات بگاڑ کی طرف نہ لے کے جایا جائے ۔ اگر طے شدہ بات میں کچھ تبدیلی ہوئی تو پھر ایوان نہیں میدان میں فیصلہ ہوگا۔


متعلقہ خبریں


عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم وجود - جمعه 02 مئی 2025

  صدراور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال، بھارت کے جارحانہ رویہ اور اشتعال انگیز بیانات پر گہری تشویش کا اظہار بھارتی رویے سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ ہے ، پاکستان اپنی علاقائ...

عالمی برادری پاکستان کے اندر بھارتی دہشت گردی کا نوٹس لے، صدر ، وزیراعظم

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف وجود - جمعه 02 مئی 2025

  پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے ، کوئی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے، بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ، پاکستان علاقائی امن کا عزم کیے ہوئے ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے منگلا اسٹرائیک کور کی جنگی مشقوں کا معائنہ اور یمر اسٹر...

بھارت کی کسی بھی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیں گے آرمی چیف

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب وجود - جمعه 02 مئی 2025

دستاویز پہلگام حملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ، رپورٹ دستاویز ثابت کرتی ہے پہلگام بھی پچھلے حملوں کی طرح فالس فلیگ آپریشن تھا، ماہرین پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کا کردار بے نقاب ہوگیا، اہم دستاویز سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹی...

پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں را ملوث نکلیں،خفیہ دستاویزات بے نقاب

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار وجود - جمعه 02 مئی 2025

نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق زیرِ التوا کیسز کو نمٹایا جائے گا اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گی، اس کے بعد اپیل اپنے نمبر پر لگائی جائے گی ، رپورٹ رجسٹرار آفس نے 190ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق تحریری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔تحریری رپورٹ...

190ملین پاؤنڈکیس ،سزا کیخلاف بانی کی اپیل اس سال لگنے کا امکان نہیں، رجسٹرار

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل وجود - جمعه 02 مئی 2025

تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو ا...

میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، جسٹس جمال مندوخیل

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

مضامین
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر