وجود

... loading ...

وجود

وطن عزیز کی خاطر صبر و تحمل اور افہما و تفہیم سے کام لیں

بدھ 17 مئی 2023 وطن عزیز کی خاطر صبر و تحمل اور افہما و تفہیم سے کام لیں

ریاض احمدچودھری

 

وطن عزیز کی آج جو صورتحال ہے وہ کسی بھی طرح قابل ستائش نہیں بلکہ ہم نے خود اس ملک کا وقار مٹی میں روندا ہے۔ حکومتی جماعتیں اور اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف طنزکے تیر برسار ہی ہیں۔ کسی کو ملک کی پرواہ نہیں۔ جمہوری قوتوں نے دانستہ، نادانستہ طور پر اپنی اپنی انا اور اقتدار کی جنگ کے لئے ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اقتدار کیلئے جاری رسہ کشی نے ملک کو خانہ جنگی جیسی کیفیت سے دوچار کر دیا ہے۔پی ٹی آئی ہر طریقے سے اقتدار پر قبضے کیلئے بے تاب ہے تو دوسری طرف پی ڈی ایم ملک کو پی ٹی آئی کی دستبرد سے بچانے کیلئے اپنی دانست کے مطابق تمام آئینی و انتظامی اقدامات بروئے کار لا رہی ہے۔ اس افسوسناک رسہ کشی سے ملک کو جو خطرات لاحق ہو چکے ہیں وہ قوم کیلئے لمحہ فکریہ اور باعث تشویش ہیں۔ سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں سیاسی کشمکش ختم کرانے کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان اور سردار عبدالقیوم خان بیچ بچائو کراتے رہے ہیں اور متحارب فریق ان کی باتوں کو وزن بھی دیتے رہے، آج ان جیسی کوئی شخصیت ملک میں نہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی افہام و تفہیم اور صبر و تحمل سے کام لیں ۔صاف اور کھلے دل سے ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ ملک ہم سب کا ہے اور جس طرح ہمارے بزرگوں نے اس کی تعمیر و ترقی کیلئے کام کیا ہمیں بھی اسی طرز کو اپناتے ہوئے ملکی بقاء اور سلامتی کیلئے اسی جوش و جذبے کے ساتھ کام کرنا ہوگا ،تاکہ ملکی استحکام ،ترقی اور تعمیری کام ٹھوس اور مثبت انداز میں ہوسکے اور ہر شہری خوشحال زندگی گزارنے کے قابل ہو۔ سب جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی حکومت سے ڈلیور نہیں ہو پا رہا۔ مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہ ہو پانے کی وجہ سے ملک کے ڈیفالٹ کر جانے کے خدشات کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملکی اقتصادی ماہرین اور بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیاں بار بار کہہ رہی ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کی ڈیل نہ ہوئی تو ملک ڈیفالٹ کر جائے گا۔ ان حالات میں عمران خان اگر چند ماہ انتظار کر لیتے اور پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے پر عام انتخابات میں حصہ لیتے تو بھی ان کی جیت اور کامیابی یقینی تھی اور کوئی بعید نہیں کہ وہ دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے کامیاب ہو کر ایک بار پھر وزیر اعظم بن جاتے مگر ان کے ایک فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک پورے تیرہ ماہ سے سیاسی بے یقینی کا شکار ہے اور کچھ بھی نہیں ہو پا رہا۔
انتخابات آج ہوں یا تھوڑے عرصہ بعد،وہ ہونے ہی ہیں اس سے حکومت کتنا عرصہ اور بھاگے گی۔ عمران خان صاحب کو الیکشن کی اتنی جلدی تھی تو دو صوبوں کی حکومتیں اپنے ہاتھوں سے کیوں ختم کیں؟ جہاں تک آج انہیں لاحق خدشات اور خطرات کا تعلق ہے تو وہ اچھے خاصے مضبوط تھے دو صوبوں میں ان کی حکومت چل رہی تھی،پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں کیلئے عمران خان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں مگر یہ سوال آج تک اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا بغیر کسی سیاسی وجہ کے محض اسمبلیاں توڑنا مناسب عمل تھا؟پی ٹی آئی کا بیانیہ آج بھی سب جماعتوں کے بیانیوں سے زیادہ طاقتور ہے مگر وہ ایک لمحے کے لئے سوچیں تو سہی کہ اگر آج پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں ہوتیں تو خان صاحب کو یہ دن دیکھنا پڑتے؟
9مئی سے اب تک ملک بھر میں جو کچھ ہوا اس کا خمیازہ حکومت نہیں عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اربوں روپے کے نقصان کا ملبہ بالواسطہ ملک کے عوام پر ہی گرنا ہے۔ حالات کو یقینی پرامن بنا کر اور سیاسی استحکام پیدا کر کے ملک کو کتنی ترقی دی جا سکتی ہے؟حکمرانوں سے یہ کہنا ہے کہ جب ان سے حکومت نہیں چل رہی، عوام پر ٹیکس اور ٹیکس لگا کر گزارہ کیا جا رہا ہے تو ایسی حکومت کرنے کاکیا فائدہ؟ وہ کیوں نئے انتخابات نہیں کرا دیتے تاکہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو اور پتا چلے کہ یہاں کس کی حکومت قائم ہے اور اس نے ملک کو کس سمت میں لے کر جانا ہے۔ اگر حکمران اس امید پر اگلا بجٹ پیش کرنے پر مصر ہیں کہ لوگوں کے لئے اس میں مراعات کا اعلان کر کے وہ عوام میں مقبولیت حاصل کر لیں گے تو اسے انکی خام خیالی ہی قرار دیا جا سکتا ہے، اگلے تین چار ماہ میں تو ملک کے مالی حالات ٹھیک ہونے والے نہیں اور اگر کوئی سوچتا ہے کہ مہنگائی کی تیس فیصد شرح کے ساتھ لوگ حکمران اتحاد کو ووٹ ڈالیں گے تو یہ خوش فہمی ہے۔
حالات بتاتے ہیں کہ سب اپنی اپنی انا کے غلام بنے ہوئے ہیں اور کسی کو درپیش چیلنجز یا عوام کو درپیش مسائل سے کوئی غرض نہیں، ضدوں، اناؤں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے عمل نے ماضی میں سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں کو کچھ دیا نہ ہی اس سے اب انہیں کچھ ملنے والا ہے لہٰذا ملک، قوم، اداروں اور سیاست دانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ افہام و تفہیم سے کام لیں اور ملک میں جو سیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اس کا کوئی حل نکالیں۔
تیسری دنیا کے کارزار سیاست میں اکثر قائدین ایکشن سے زیادہ الفاظ کی گھن گرج پر بھروسا کرتے ہیں جب کہ ترقی یافتہ ملکوں کی لیڈرشپ کا اصولی موقف ہمیشہ یہی رہا کہ حقیقی اور محب وطن لیڈر عوام اور خود اپنی حکومت کے لیے مسائل پیدا نہیں کرتے بلکہ انھیں حل کرتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی آبی جارحیت۔۔ خطرے کی گھنٹی وجود بدھ 07 مئی 2025
بھارتی آبی جارحیت۔۔ خطرے کی گھنٹی

مودی اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں! وجود بدھ 07 مئی 2025
مودی اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں!

مودی مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنارہا ہے! وجود بدھ 07 مئی 2025
مودی مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنارہا ہے!

سیاحوں کی ہلاکت:پولرائزیشن کے ہتھیار اور کشمیریوں کی بے بسی وجود منگل 06 مئی 2025
سیاحوں کی ہلاکت:پولرائزیشن کے ہتھیار اور کشمیریوں کی بے بسی

پہلگام فالس فلیگ، حقائق چھپانے کی بھارتی کوشش ناکام وجود منگل 06 مئی 2025
پہلگام فالس فلیگ، حقائق چھپانے کی بھارتی کوشش ناکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر