وجود

... loading ...

وجود
وجود

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

پیر 05 دسمبر 2022 بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

اختلاف رائے جمہوریت کا سب سے بڑا حسن ہے۔ جمہوریت ان ہی ملکوں میں پروان چڑھی ہے جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا گیا ہے، جبکہ ان ملکوں میں جمہوریت نے دم توڑدیا ہے جہاں مخالف آوازوں کو دبانے یا کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اوریہاں جمہوری قدریں پروان چڑھنے کا بڑا سبب یہی ہے کہ مخالف آوازوں کواہمیت دی گئی‘ لیکن ادھر کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ یہاں اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکمراں طبقے کی یہی کوشش ہے کہ صرف اس کی ہی آوازسنی جائے اور وہ تمام آوازیں خاموش کردی جائیں جواس سے اختلاف رکھتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے دوایسے واقعات رونماہوئے ہیں جوجمہوری قدروں اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ پہلا واقعے کا تعلق فلم انڈسٹری سے ہے اور دوسرے کاالیکٹرانک میڈیا سے۔ فلم اور میڈیا دونوں کاہی تعلق چونکہ اظہاررائے کی آزادی سے ہے، اس لیے ہمیں اس موضوع پر قلم اٹھانے پرمجبور ہونا پڑا۔
پہلا واقعہ گوا میں جاری بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے تعلق رکھتا ہے جہاں اس کی جیوری کے سربراہ کی حق گوئی کے جرم میں ان کی زبا ن کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔دوسرا واقعہ نیوزچینل این ڈی ٹی وی سے تعلق رکھتا ہے۔ آئیے پہلے گوا فلم فیسٹیول کا رخ کرتے ہیں جہاں سچ بیان کرنے کی پاداش میں اسرائیلی فلم سازاور جیوری کے سربراہ کا منہ نوچنے کی کوشش کی کی گئی ہے۔ان کا قصور محضاتنا تھا کہ انھوں نے ونود اگنی ہوتری کی متنازعہ فلم ’’دی کشمیرفائلز‘‘ کو فلم فیسٹیول میں شامل کئے جانے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اسرائیلی فلم ساز ندولپڈ نے ’دی کشمیرفائلز‘ کو ایک پروپیگنڈہ اور فحش فلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلم سیاسی دباؤ کے تحت فیسٹیول میں شامل کی گئی۔ان کے اس بیان پر اتنا واویلا مچا کہ کہ خود اسرائیلی سفیر کو معذرت کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ لپڈ کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوگئی اور انھیں ہندوستان بدر کرنے کے مطالبے ہونے لگے، لیکن لپڈ نے ہار نہیں مانی۔انھوں نے اپنا بیان واپس لینے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’دی کشمیرفائلز‘‘فسطائی خوبیوں کی حامل فلم ہے، اس پر کسی کو تو بولنا ہی پڑے گا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا ’’کشمیرفائلز‘‘ ایک پروپیگنڈہ اور بے ہودہ فلم کی طرح محسوس ہوئی جو اس طرح کے باوقار فلمی میلے کے فنی مقابلے کے لیے نامناسب ہے۔بعدازاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’یہ ایک ایسی فلم ہے جو حکومت ہند نے بھلے ہی نہ بنائی ہو، لیکن کم ازکم اسے غیرمعمولی انداز میں فروغ دیا۔یہ بنیادی طورپر کشمیر میں ہندوستان کی پالیسی کا جواز پیش کرتی ہے اور اس میں فسطائی خصوصیات ہیں۔‘‘سبھی جانتے ہیں کہ ’’دی کشمیرفائلز‘‘ پوری طرح ایک پروپیگنڈہ فلم ہے جوسیاسی مقاصد کے تحت سیاسی سرپرستی میں بنائی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹیکس فری کیا گیا۔ یہ فلم تصویرکا ایک رخ پیش کرتی ہے اور صرف کشمیری پنڈتوں کے درد وکرب کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتی ہے جب کہ کشمیری مسلمانوں کے المیہ کواس فلم میں نظراندازکردیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا شکار جہاں کشمیری پنڈت ہوئے ہیں، وہیں اس کی کاری ضرب ان کشمیری مسلمانوں پر بھی پڑی ہے جو چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پستے رہے ہیں۔اس فلم کے اسی عیب کی وجہ سے جیوری کے سربراہ نے اسے ایک پروپیگنڈہ اور فحش فلم قراردیا ہے۔
اب آئیے این ڈی ٹی وی کے قضیہ پرروشنی ڈالتے ہیں،جس کے اڈانی گروپ کی ملکیت میں چلے جانے کے بعد اس کے بانی پرنو رائے اور مقبول اینکر رویش کمار مستعفی ہوگئے ہیں۔ صنعت کار اڈانی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ حکمراں طبقے کے خاص آدمی ہیں۔اسی لیے این ڈی ٹی وی کے ان کی ملکیت میں آجانے کے بعد اس کی وہ آزادی ختم ہوگئی ہے جو ایک آزاد اور بے باک چینل ہونے کی وجہ سے تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا پر کہرام مچا ہوا ہے۔ لوگوں کا ردعمل دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں آزادانہ صحافت کا جنازہ نکل گیا ہے اور جرات اظہار کے محاذپر ہر طرف تاریکی چھاگئی ہے۔حالانکہ نہ تو ابھی این ڈی ٹی وی کے سب سے مقبول اینکر رویش کمار نے صحافت سے کنارہ کشی کی ہے اور نہ ہی اس چینل سے وابستہ دیگربے باک صحافیوں کا خاتمہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ردعمل میں مایوسی اور نامرادی صاف نظر آتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نیوزچینلوں کے ہجوم میں این ڈی ٹی وی ہی اکلوتا چینل تھا جوسچائی کو پوری طاقت کے ساتھ بیان کرتا تھا اورحکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتاتھا جبکہ دوسرے چینل چاپلوسی اور حاشیہ برداری ہی کو صحافت کا عنوان سمجھتے ہیں۔اس ملک میں کم وبیش پانچ سو ٹی وی چینل ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر گھٹنوں کے بل چلتے ہیں اور صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرنے کی بجائے اپنے ساہوکار مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ وہ اپنے ناظرین کو تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں، جبکہ صحافت کے تقاضے اس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک کہ تصویرکا دوسرا رخ بھی عوام کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔
یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس نے ایک حکمت عملی کے تحت میڈیا کو کنٹرول کرنے کا کام کیا ہے۔سب سے زیادہ ہاتھ نیوزچینلوں پر صاف کیا گیا۔ آہستہ آہستہ تمام ہی نیوزچینل ان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے کنٹرول میں آگئے ہیں، جن کے کاروباری مفادات حکومت سے وابستہ ہیں۔ یہ چینل آزادانہ صحافت کا ترجمان ہونے کی بجائے جانبدارانہ صحافت کا شاہکار بن گئے ہیں اور انھوں نے صحافتی اصولوں کوپامال کرکے رکھ دیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے بڑے حصے کا بھی طرزعمل ان ہی جیسا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا غالب حصہ گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان چینلوں کی بھیڑ میں این ڈی ٹی وی واحد چینل تھا جس کی خبروں اور تبصروں پر عوام یقین کرتے تھے اور اس کے اینکر رویش کمار کا ’پرائم ٹائم‘ صحافت کی آبرو بچائے ہوئے تھا۔لوگ بڑے اعتماد سے اس پروگرام کو دیکھتے تھے۔ این ڈی ٹی وی نے اپنی غیرجانبدارانہ صحافت کی بدولت عوام کے دلوں میں جو جگہ پیدا کی تھی وہ کوئی دوسراچینل پیدا نہیں کرسکا۔ عالمی سطح پرٹی وی صحافیوں میں جو اعتبار اور اعزاز رویش کمار کو حاصل ہوا وہ الیکٹرانک میڈیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوسکا۔لوگ این ڈی ٹی وی کو صحافت کی آبرو سمجھتے تھے اور اس کی حیثیت اندھیرے میں روشن چراغ جیسی تھی۔یہی وجہ ہے کہ این ڈی ٹی وی کے اڈانی کی ملکیت میں چلے جانے اور اس سے رویش کمار کے مستعفی ہونے سے ٹی وی کے ناظرین میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔رویش کمار نے این ڈی ٹی وی سے اپنے الوداعی پروگرام میں کہا ہے کہ ’’میرا استعفیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ میں نے گودی میڈیا کی بالادستی قبول نہیں کی اور میری آپ سب سے بھی یہ اپیل ہے کہ آپ بھی قبول نہ کریں۔ میڈیا کو اس ملک میں جس طرح استعمال کرکے اپوزیشن کی آواز اور اختلاف رائے کو ختم کیا جارہا ہے، وہ ملک کی جمہوریت کے لیے سم قاتل ثابت ہوگا۔‘‘رویش کمار نے ابھی میدان نہیں چھوڑا ہے۔ وہ ی اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعہ آپ سے روبرو ہوں گے۔جو لوگ رویش کمار کی این ڈی ٹی وی سے علیحدگی پردم بخود ہیں ہم ان کی خدمت میں فیض احمدفیض کی شہرہ آفاق نظم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ملاحظہ ہو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہراک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر