... loading ...
پشتونخواٗ ملی عوامی پارٹی کے اندر کی نزاع صوبے میں مرکز نگاہ اور گہری تجسس کی حامل رہی، جو کسی قدر نقصان کی وجہ بنی ہے۔ کشمکش اور ہیجان کی فضا وقتی ہے۔ جس کے بعد یہ گرما گرمی نرم پڑتی جائے گی ،اس ذیل میں زیادہ تر توجہ نکالے گئے افراد کی جانب سے 24اور25نومبر 2022کو طلب کئے گئے دو روزہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس پر مرکوز رہی ۔یہ اجلاس کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاغ میں برطرف رہنما یوسف خان کاکڑ کی رہائش گاہ پر منعقد کیا گیا تھا ، یہاں پرموثر تنظیمی ابھار اور دستوری جواب کی سعی کی گئی ، ایک خاص تعداد میں افراد جمع کئے گئے تھے۔ برطرف مختار یوسف زئی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے جوابی موقف رکھا ۔جبکہ حقیقت نظر میں یہ نشست اور کلام جاتے جاتے اپنا وجود باقی رکھنے کی ایک کمزور کوشش دکھلائی دی ہے۔ یعنی جس سطح کی بھونچال کی توقع ان برطرف حضرات سے تھی ، پیدا نہ ہو سکی ۔ اب ان کے پاس پارٹی صفوں کے اندر رہتے ہوئے مزاحمت کا چارہ بھی نہیں رہا ۔ منحصر بہر حال ان پر ہے کہ آیا دوبارہ مراجیت کی راہ ڈھونڈتے ہیں یا الگ سیاسی میدان کا انتخاب کرتے ہیں ۔تیسرا کوئی روزن دکھائی نہیں دیتا ۔ مختار خان یوسف زئی کے لئے شاید مزید نرم گوشہ نہ ہو ۔ یادش بخیر ، محمود خان اچکزئی نے پارٹی نظم و ضبط کے بر خلاف فعالیتوں کے نتیجے میں پہلے پہل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات رضا محمد رضا اور مرکزی سیکرٹری عبیدا للہ بابت کو نکال دیا تھا ، بعد ازاں انیس نومبر کو صوبہ خیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مختار یوسفزئی اور خیبر پختونخواء کے صوبائی صدر خورشید علی خان ،سینئر نائب صدر حیدر خان مومند ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری عمر علی یوسف زئی ، ڈپٹی سیکرٹری اشرف علی ہوتی اور ڈپٹی سیکرٹری احمد شاہ خان کو خارج کر دیا ۔
چناں چہ کچلاغ اجتماع کے بعد مزید رہنما بھی دستور کی زد میں لائے گئے ، جن میں بلوچستان کے صوبائی نائب صدر یوسف خان کاکڑ،صوبائی نائب صدر عیسیٰ روشان ، صوبائی سیکریٹری لیبرقادر آغا ، صوبائی سیکریٹری فنانس خوشحال کاسی اور صوبائی سیکریٹری نصر اللہ زیرے شامل ہیں ۔ نصر اللہ زیرے اس وقت بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں ۔جولائی 2018کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حلقہ پی بی 31سے کامیاب ہوئے تھے ۔ محمود اچکزئی نے اسے اسمبلی رکنیت سے ڈی سیٹ کروانے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ اچکزئی نے 26 نومبر کو پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کے ذریعے صوبہ خیبر پشتونخواء کی آرگنائزنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے ۔کچلاغ اجتماع میں شریک کئی پارٹی وابستگان بھی فارغ کر د یے گئے ہیں ۔ البتہ عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کو استثنا دے چکے ہیں ۔ خوشحال خان کاکڑ بھی کچلاغ اجتماع والوں کے شریک کار ہیں ۔ یہ نوجوان ،والد عثمان کاکڑ کی وفات کے بعد پشتونخوامیپ کے اسٹیج سے معروف ہوئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے نرمی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس نوجوان کے والد عثمان کاکڑ ان کے دیرینہ ساتھی تھے ۔ مگر خوشحال کاکڑ مخالف حلقہ سے ہی جڑے رہیں گے۔ اس بنا ان کا اخراج بھی غالب دکھائی دیتاہے ۔ بہر حال محمود خان اچکزئی فی الواقع پارٹی ایک دیرینہ حساس اور ہیجانی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔سیاسی جماعتیں بیرونی مسابقوں سے نمو پاتی ہے جبکہ اندرونی نزاعات، دھڑا بندی تنظیمی ڈھانچہ دیمک کی طرح چاٹتی ہے ۔بر وقت پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں جماعت کا شیرازہ بکھر نے کا قوی امکان ہوتا ہے ۔ یقینابڑی سطح کے رہنمائوں کو دستور کی زد میں لینا کار گراہ تھا ۔ پارٹی کے مجموعی میلان اور کارکنوں کی والہانہ رجحان سے اچکزئی کی ڈھارس بندھی ہے ۔البتہ آنے والے عام انتخابات اس جماعت کے لیے کھڑا امتحان ہے۔پشتونخوامیپ کے بیانیہ میں افغانستان کا موضوع اہم نقطہ ہے۔
محمود اچکزئی پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔افغانستان میں مداخلت نہ کرنے بات کرتے ہیں ۔اب یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان ،افغانستان اور ایران ایک دوسرے کے دشمنوں کو جگہ نہ دے ۔مطالبہ پاکستان کے آئین اور جغرافیہ کے اندر الگ پشتون صوبہ اباسین تک کے قیام کا ہے ۔یہ موقف اول روز سے ہے ۔ یہ امر محمود خان اچکزئی سمیت تمام پشتون سیاسی زعما پر واضح ہونا چاہیے کہ افغانستان مصائب اور درماندگی کی ایک طویل مسافت طے کر چکا ہے ۔ موجودہ افغان حکومت امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ موجودہ حالات دنیا کی حسن ظن کی متقاضی ہے ۔اوریقینا افغانستان میں اولیت امن و امان کو ہی حاصل ہے ۔ یہ ملک نئی آزمائشوں اور مصائب میں مبتلا ہوگا تو ہمسائیہ ممالک لا محا لہ اثرات سے متاثر رہیں گے ۔موجودہ افغان حکومت ملک وسائل اور دولت کی لوٹ بازاری کا سدباب بھی کر چکی ہے۔جنگی ملیشائوں کا خاتمہ کیا ہے ۔جن کے سرکردہ جو امریکی قبضہ کے دوران بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہیں ،دوسرے ملکوں کو بھاگ چکے ہیں۔جہاں سے مسلسل تخریبی بندوبست کی تراکیب سوچ رہے ہیں۔افغانستان میں القائدہ کی موجودگی کے دعوے دراصل دنیا کی نیتوں کا فطور کے سوا کچھ نہیں۔ ۔داعشی گروہ اگرچہ موجود ہے ،جس کے خلاف کابل حکومت کامیاب ہے ۔اور پھریہ گروہ امریکی پراکسی سمجھا جاتا ہے ۔افغانستان پر امریکی اور نیٹو افواج کے حملہ اور قبضہ کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کی منطق ہر لحاظ سے گمرا ہ کن ہے۔جو بادی النظر میں ان ممالک کی افغانستان پر حملے اورقبضے کو جائز سمجھنے اور حمایت پر دلالت کرتا ہے۔قابض افواج افغان پشتون عوام کی بربادی اورکے قتل عام میں ملوث ہی۔جن سے جنگی تاوان کا مطالبہ ہو نا چاہیے ۔گویا افغانستان کا منظر نامہ گروہی عصبیتوں سے ہٹ کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پشتونخوا میپ روایت سے ہٹ کر کیا کروٹ لیتی ہے۔
َََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔