... loading ...
کئی روز کی کھینچ تان کے بعد آخرکار ملک ارجن کھڑگے کانگریس پارٹی کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔حالانکہ انھوں نے نامزدگی کے آخری دن پرچہ بھراہے، لیکن ایک غیرمتنازعہ لیڈر کے طورپر پارٹی میں ان کی اچھی پہچان ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے میدان میں اترنے کے بعد سینئر کانگریسی لیڈر دگوجے سنگھ نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔اشوک گہلوت کی مقابلہ سے دستبرداری کے بعدعام خیال یہ تھا کہ عہدہ صدارت کے لیے اصل مقابلہ دگوجے سنگھ اور ششی تھرور کے درمیان ہوگا،لیکن جیسے ہی ملک ارجن کھڑگے میدان میں آئے تو دگوجے سنگھ نے اپنی امیدواری سے کنارہ کرلیا۔ نامزدگی کے آخری دن کھڑگے کے علاوہ جھارکھنڈ کے کانگریسی لیڈر کے این ترپاٹھی نے بھی پرچہ بھرا، لیکن اصل مقابلہ ششی تھرور اور کھڑگے کے ہی درمیان ہوگا اور یہ مقابلہ بھی دوستانہ ہوگا۔
ملک ارجن کھڑگے اس وقت راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ انھیں کانگریس ہائی کمان کا سب سے زیادہ اعتماد حاصل ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ آنجہانی جگجیون رام کے بعد کھڑگے پارٹی کے دوسرے دلت صدر ہوں گے۔ بہار سے تعلق رکھنے والے آنجہانی جگجیون رام 1971میں کانگریس کے صدر بنے تھے،لیکن ایمرجنسی کے بعد وہ کانگریس سے علیحدہ ہوکر جے پی تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔ کھڑگے کا تعلق جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک سے ہے اور وہ دوبار گلبرگہ سے کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا اوردس بار کرناٹک اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔80 سالہ کھڑگے ایک ایماندار شبیہ کے سیکولر لیڈر ہیں اور انھیں کانگریسی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس وقت کانگریس پارٹی جس آزمائشی دور سے گزر رہی ہے، اس میں کھڑگے کس حد تک کامیاب ثابت ہوں گے اور وہ بطورپارٹی صدرانھیں کام کرنے کی کس حدتک آزادی ملے گی۔ عرصہ بعد کسی’غیرگاندھی‘صدر کو پارٹی کے دیگر لیڈران کس حد تک قبول کریں گے، یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی۔ ویسے اطمینان بخش بات یہ ہے کہ کھڑگے کی امیدواری پر کانگریس کے ناراض گروپ نے بھی اپنی مہر لگائی ہے۔
کھڑگے کے میدان میں اترنے سے قبل عام خیال یہ تھا کہ راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کانگریس کی صدارت سنبھالیں گے۔ ان کا نام خود کانگریس کی عبوری صدر سونیا گاندھی نے پیش کیا تھا، لیکن وہ وزیراعلیٰ کی کرسی اور کانگریس کی صدارت ایک ساتھ سنبھالنا چاہتے تھے، جبکہ ہائی کمان نے ان کی جگہ سچن پائلٹ کو وزیراعلیٰ بنانے کی ٹھانی تھی۔ ایک شخص ایک عہدے کے اصول کے تحت ان سے وزیراعلیٰ کی کرسی چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن گہلوت نے وزیراعلیٰ بنے رہنے کے لیے اپنے حامی ممبران اسمبلی سے جوکچھکرایا اور ہائی کمان کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے، اس کے نتیجے میں کانگریس کی پوزیشن خاصی مضحکہ خیز ہوگئی اور آخرکار اشوک گہلوت کو دہلی آکر سونیا گاندھی سے معافی مانگنی پڑی، مگر ساتھ ہی انھوں نے پارٹی کی صدارت کا الیکشن لڑنے سے انکار کرکے وزیراعلیٰ کی کرسی سے چپکے رہنا ہی منظور کیا۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ جس کانگریس پارٹی نے تحریک آزادی کی قیادت کی تھی وہ آج خود قیادت کے بحران سے دوچار نظر آتی ہے۔یہ بحران صرف قیادت کی حدتک نہیں ہے بلکہ آج پارٹی کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنے وجود کو بچانے کا ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ آج کانگریس پارٹی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے تو بے جا نہیں ہوگا۔حکمراں بی جے پی نے پہلے ہی ’کانگریس مکت‘ ہندوستان کا نعرہ اچھال رکھا ہے اور وہ ہر اس صوبے میں جہاں کانگریس کا وجود باقی ہے، اسے ختم کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اقتدار اور دولت کا لالچ دے کر کانگریسی ارکان اسمبلی کو توڑکر بی جے پی میں شامل کئے جانے کی خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں۔ حال ہی میں گوا میں کانگریس کے آٹھ ممبران اسمبلی بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔ بی جے پی کا سب سے بڑا الزام یہی ہے کہ کانگریس ایک خاندان کی پارٹی ہے اور اس میں کوئی داخلی جمہوریت نہیں ہے۔کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کی پارٹی سے علیحدگی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے اپنے طویل استعفیٰ نامے میں پارٹی قیادت اور خود راہل گاندھی پر جو الزامات عائد کیے ہیں، ان میں بعض باتیں ایسی ضرور ہیں جو کانگریس کے داخلی بحران کو اجاگر کرتی ہیں۔
آزادی کے بعد نہرو۔گاندھی خاندان کا ہی کوئی فرد کانگریس کی قیادت کرتا رہا ہے اور وہی کانگریس کے ساہ سفید کا مالک بھی رہا ہے۔ بیشتر وقت نہرو۔گاندھی خاندان کے کسی فرد کے ہاتھوں میں ہی پارٹی کی کمان رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پارٹی کا ستارہ عروج پر تھا اور پورے ملک میں اس کا طوطی بولتا تھا۔لیکن جب سے پارٹی کے ستارے گردش میں ہیں اور اس کے ہاتھوں سے ملک کی باگ ڈورچھوٹی ہے تب سے کانگریس صدر کا عہدہ کانٹوں کا تاج بن کررہ گیا ہے اور اس کی کمان سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں ہے۔ سونیا گاندھی اپنی بگڑتی ہوئی صحت اور سیاسی ماحول کی وجہ سے اس عہدے سے سبکدوش ہوناچاہتی ہیں۔ایسے میں سب کی نظریں ان کے بیٹے راہل گاندھی پر لگی ہوئی تھیں، جو 2017میں پارٹی کے صدر بنے تھے، لیکن 2019 کے عام انتخابات میں شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی کی صدارت چھوڑدی۔ تب سے سونیا گاندھی ہی پارٹی کی عبوری صدر ہیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ کانگریس میں باقاعدہ صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ اس میں کتنی شفافیت اور غیرجانبداری برتی جاتی ہے، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ پارٹی کیڈر کو ہی اپنے صدر کے انتخاب کا حق حاصلہے جبکہ حکمراں بی جے پی میں ایسی کوئی روایت نہیں ہے اور اس کا صدرآرایس ایس کی دیگر بغلی تنظیموں کی طرح ناگپور میں طے ہوتا ہے۔ کانگریس کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے آئندہ 17اکتوبر کی تاریخ طے کردی گئی ہے۔ راہل گاندھی آج کل ’بھارت جوڑویاترا‘ پر ہیں، جو کنیا کماری سے کشمیر تک کا سفر طے کررہی ہے۔ اس یاترا کو کیرل میں جو مقبولیت حاصل ہورہی ہے، اس سے راہل کا سیاسی قد یقینابلند ہوا ہے اور اب یہ یاترا کرناٹک میں داخل ہوچکی ہے، جہاں بی جے پی سرکار ہونے کی وجہ سے اسے مزاحمت کا سامنا ہے۔
راہل اپنی یاترا کے دوران عوام کے بنیادی مسائل اٹھارہے ہیں اور لوگ جوق درجوق ان کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ ان کی اس یاترا سے بھارت کس حد تک جڑے گا، یہ کہنا ابھی مشکل ہے،کیونکہ نفرت کی آبیاری اس حدتک کردی گئی ہے کہ لوگ صحیح خطوط پر سوچنے کو تیار نہیں ہیں۔ آج ملک کے اندرسیکولرجمہوری سوچ کو پروان چڑھانے کی جتنی زیادہ ضرورت ہے، اتنی اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ماضی میں کانگریس نے قدم قدم پر سیکولراصولوں سے جوسمجھوتے کئے ہیں اس کے نتیجے میں وہ آج حاشیہ پر پہنچ چکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ 2024کے عام انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک ایسا محاذ بنایا جائے جس کے تحت بی جے پی کے مقابل اپوزیشن کا ایک ہی مشترکہ امیدوار میدان میں ہو۔ اپوزیشن کے انتشار اور اختلاف کا فائدہ اٹھاکر ہی بی جے پی اتنی سیاسی طاقت حاصل کی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایک ہی پلیٹ فارم لانا ہوگا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے کانگریس کی نئی قیادت کو بڑی قربانیاں دینی ہوں گی۔ امیدہے ملک ارجن کھڑگے اس امتحان میں کھرے اتریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔