... loading ...
دنیا میںپانی کی کمی کے شکارممالک کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتاجارہا ہے ہمارے وطن پاکستان کا شمار بھی پانی کی کمی کے شکار پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے یہ صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتی جارہی ہے خوراک میں خود کفالت کی منزل تو ایک دہائی قبل کھو چکے بے موسمی بارشوں سے زرعی پیدوارمزید متاثر ہورہی ہے اِس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ وقت ضائع کیے بغیر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کیا جائے لیکن ہماری لاپرواہی اور غیر سنجیدگی میں کوئی کمی نہیں آئی جس سے ماہرین تشویش کا شکار ہیں کیونکہ ایک زرعی ملک خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر مجبورہے کئی برسوں سے گندم ،چینی ،سبزیاں اور خوردنی تیل تک درآمد کیے جا رہے ہیں یہ حالات اِس امر کے متقاضی ہیں کہ زرعی پیدواربڑھانے کی طرف توجہ دیں وگرنہ بھوک و افلاس توزوردار دستک دینے لگی ہے یہ دستک نہیں سُنتے تو قحط جیسے حالات بنتے جارہے ہیں آبی ترقی کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی سمپوزیم میں چوہدری مونس الٰہی نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اقتصادی اور عوامی ضروریات کے لیے ناگزیر قرار دیا اور یہ بتا کر حیران کر دیا کہ زیرِ تعمیر ڈیم جب تک تعمیر ہو کر فعال ہوں گے تب تک سلٹنگ کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کا لیول اُتنا ہی رہ جائے گا یہ پانی کی کمی کالاباغ ڈیم ہی پورا کر سکتا ہے انھوں نے وزیرِ اعظم کی موجودگی میں سب کو ساتھ لیکرچلنے اور کالاباغ ڈیم تعمیر کی تجویز جلد ہی کابینہ کے سامنے پیش کرنے کا اعلان بھی کیاآبی کمی کے حوالے سے یہ ایک بڑی پیش رفت ہے اگر عملدرآمدبھی ہوجاتا ہے تو غذائی ضروریات خریدنے پر اُٹھنے والے اخراجات میں کمی آئے گی جس سے معیشت پر بوجھ کم ہوگا۔
پانی کے مقدمے کی بات کی جائے تو پاکستان90 19میں ہی پانی کے دبائو کا شکار ملک بن گیاتھااگلے پندرہ برسوںمیں صورتحال مزید خراب ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے2005 میںپانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہو گیا صورتحال کا تقاضا تھا کہ سیاسی قیادت ملک کو درپیش آبی بحران کے مسلہ کو حل کرنے کی طرف توجہ دیتی لیکن کوتاہی کی روش نہ چھوڑی گئی حالانکہ پرویز مشرف دور میں کالاباغ ڈیم بنانے پر کام ہوتا توناموافق سیاسی حالات موافق بنائے جا سکتے تھے کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم کی افادیت پر قائل کیا جائے تو موقف پر نظر ثانی کو تیار ہیں لیکن توجہ نہ دی گئی اب اگر موجودہ صورتحال میں بھی جلد تبدیلی نہیں لائی جاتی تو2025 میںمکمل پانی کی قلت ہو جائے گی جو زراعت واقتصادیات کی مکمل تباہی پر منتج ہوگی ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ زرعی اور صنعتی شعبوں میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب رویے بدلیں ماہرین کی ہدایات کے مطابق حکومت ،عوامی نمائندے اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں باہمی اشتراک سے کام کریں تاکہ پانی کااستعمال کم ہو اور ساتھ ہی نئے ذخائر کی تعمیر پر توجہ دی جائے۔
ملک میں آبی ذخائرضروریات سے بہت کم ہیں مستزاد یہ کہ بے ترتیب بارشوں کا ہونا زرعی پیداوار کے لیے الگ چیلنج ہے اگر 2020 میں مون سون کے دوران مجموعی طور پر 41 فیصد بارشیں ز یادہ ہوئیں تو گزشتہ برس 2021میںاوسط سے بھی 9فیصد سے کم بارشیں ہوئیں اگر ہمارے پاس سٹوریج کا مناسب بندوبست ہوتا توزیادہ بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرتے اور زراعت کو ترقی دیتے لیکن کوئٹہ کے ناصرف باغ سوکھ رہے ہیں بلکہ ملک کے زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل گرتی جارہی ہے لیکن آبی ذخائر بنانے کی بجائے اسمبلیوں میں ڈیم مخالف قراردادیں پاس کی جارہی ہیں یہ سنجیدگی نہیں لاپرواہی ہے چوہدری مونس الٰہی نے آنے والی نسلوں کے لیے زندگی ازیت ناک بنانے کے عمل کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اگر سیاسی ماحول حق میں ہوتاہے تو موجودہ اور آنے والی نسلوں کی زندگی عذابناک ہونے سے بچ جائے گی۔
کالاباغ ڈیم کاسروے اور تخمینہ مکمل ہے عالمی مالیاتی اِدارے فنڈز فراہم کرنے پر آمادہ ہیں اِس لیے اِس منصوبے پر فوری کام شروع ہو سکتا ہے دریائے سندھ کا بغیر استعمال کیے سالانہ جو اسی فیصد پانی سمندر کی نظر کیا جاتا ہے اُس میں سے کچھ حصہ ذخیرہ کرنے سے فوری طور پر پن بجلی کی پیدوار میں 3600 میگاواٹ کا اضافہ کرنے کے ساتھ زرعی پیدوار کے لیے 1.6 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کر سکتے ہیں اِس طرح نہ صرف بجلی سستی ہوگی بلکہ یہ زریعہ توانائی آلودگی سے بھی مکمل پاک ہوگاجبکہ کوئلے اور فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی نہ صرف مہنگی ہوتی ہے بلکہ بجلی بنانے کا یہ عمل آلودگی کا باعث بنتا ہے اسی لیے دنیا بھر میں کوئلے کے استعمال سے پیداہونے والی بجلی کا طریقہ ختم کیا جارہا ہے یہ موسم میں حدت بڑھانے کی بھی اہم وجہ ہے۔
کسی منصوبے کو علاقائی حوالے سے دیکھنا غلط ہے کالاباغ ڈیم سے بھی پورا ملک یکساں طور پر مستفیدہوگا یہ ڈیم بننے کی صورت میں صوبہ سندھ کو حاصل ہونے والے موجودہ پانی کی فراہمی میں چالیس لاکھ ایکڑ فٹ کا اضافہ ہو جائے گا جبکہ پنجاب کو بائیس ،کے پی کے کو بیس اور بلوچستان کو دستیاب پانی میں فوری طورپر پندرہ لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملنے لگے گا پانی ایک ایسی قدرتی نعمت ہے جس کے بغیر کرہ ارض پر زندگی ناممکن ہے لیکن ہم ایسے ناقدرے ہیں کہ میٹھا پانی استعمال کیے بغیر سمندرمیں پھینک رہے ہیں یہ ہر گز زہانت نہیں ہماری انھی کوتاہیوں سے بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا موقع مل رہا ہے اور ہم سوائے اعتراض کرنے کے کچھ کرنے سے قاصر ہیں دنیا بھی ہماری شکایتوں کو اہمیت نہیں دیتی کیونکہ جوپانی ہم استعمال ہی نہیں کرتے اُسے استعمال کرنے سے بھارت کوکیسے روک سکتے ہیں؟۔
بھارت ہمارے حصے کے دریائوں پر بھی ڈیم بنا کر نہ صرف اپنی زراعت کوترقی دے رہا ہے بلکہ ملک کے لیے سستی بجلی بھی حاصل کررہا ہے اوراُسے یہ موقع ہم نے اپنی نااہلی اور کوتاہی سے فراہم کیا ہے 28فروری کوبھارت کا دس رکنی وفد پاکستان آرہا ہے جو ہزار میگا واٹ کے پاکل ڈل،624میگا واٹ کے کیرواور 48میگا واٹ کے لوئر کلنائی اور لداخ میں دریائے سندھ پر تعمیر کیے جانے والے دیگر منصوبوں پر بات چیت کرے گا یہ مزاکرات یکم مارچ سے تین مارچ تک اسلام آباد میں ہونے ہیں جن کے نتائج بارے کوئی دو آرا نہیں کہ یہ سب وقت گزاری کے بہانے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے مزکورہ منصوبوں پر بنیادی کام کے ساتھ کیروہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے ٹنل بھی تعمیر کر لی ہے یہ نئی سرنگ دریائے چناب پر تعمیر کی جارہی ہے مگر پاکستان کمیشن آف انڈس واٹر نے منصوبے کی جگہ کا دورہ تک نہیں کیا ماہرین کا کہنا ہے کہ اِس منصوبے کی تکمیل سے چناب بھی راوی کی طرح محض ریتیلا علاقہ یا پھر گندے پانی کی نکاسی تک محدود ہو کر رہ جائے گا اگر پاکستان دستیاب پانی کو ضائع کرنے کی بجائے ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنالے تو بھارت کومزید آبی جارحیت سے روکا جا سکتا ہے جس کے لیے چوہدری مونس الٰہی نے عملی طور پر کام شروع کر دیا ہے لیکن جب تک ملک کی سیاسی قیادت قومی مفاد پر ایک زبان نہیں ہو گی تب تک پانی کے مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا اورنہ ہی چوہدری مونس الٰہی کی کا وشیں بارآور ہو سکتی ہیںیاد رکھیے پانی کے مقدمے کاسیاسی قیادت اب بھی فیصلہ نہیں کرتی تو موجودہ اور آنے والی نسلیں بھوک و پیاس کا شکار ہوکررہ جائیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔