... loading ...
لِقا (شعری مجموعہ)
نام کتاب:لِقا(شعری مجموعہ)
نامِ شاعر:حسنین بخاری
موضوع:شاعری
ضخامت:186 صفحات
قیمت: 300 روپے
ناشر:الحمد پبلی کیشنز، لاہور
مبصر: مجید فکری
حسنین بخاری کی شاعری کے باب میں محترم گلزار بخاری نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ شاعری شعور کے ساتھ ساتھ لاشعوری جذبات پر مشتمل ہوتی ہے اور کسی معاشرے کی ترجمان بھی، اور اب تک جو شاعری ہوچکی ہے اس میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ مزید کچھ لکھا جائے لیکن امکانات کا شعور کبھی نہیں رکتا۔اسی لئے شاعری کا سفر ہنوز جاری ہے۔ انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب نے اپنے پیچھے وہ نام چھوڑے ہیں کہ جن کے بغیر شاعری پر کچھ لکھتے ہوئے ان شعراء کا تذکرہ لازمی ہوجاتا ہے۔
پیش نظر کتاب ’’لِقا‘‘ کے نام سے ہماری نظروں کے سامنے ہے اور ہم اسے پڑھنے اور اس سے محظوظ ہونے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔ اس سے قبل حسنین بخاری یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ان کے نو شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ ظاہر ہے ان مجموعہ ہائے کلام میں انہوں نے اپنی فکر کی جولانیاں بھی دکھائی ہوں گی اور اب اس مجموعہ شعری کا نام ’’لِقا‘‘ رکھ کر بھی ایک عام قاری کو چونکا سادیا ہے۔
’’لِقا‘‘ یہ لفظ قرآن کی سورۃ القدر میں جو شب قدر کو ہزار راتوں سے بہتر اور افضل بتانے کے لئے اللہ نے ’’لیلۃ القدر خیر من الف شھر‘‘ کہا ہے اس لفظ سے یعنی ’’اَلف‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے جس کے معنی ہزار کے ہیں اور چونکہ ان کی یہ غزل ہزار اشعار پر مشتمل ہے لہٰذا انہوں نے اس مجموعہ کا نام بھی ’’لِقا‘‘ تجویز کرلیا۔
آپ نے ہزار اشعار کا مجموعہ شعری عشقِ الٰہی میں رقم کیا ہے یہ آپ کی دنیا و آخرت کے لئے ایک تحفۂ خاص اور توشۂ آخرت بھی ہے۔ بقول گلزار بخاری کے وہ اس شعری سفر میں ناصر کاظمی کی پہلی بارش میں بھی بھیگے ہیں اور صابر ظفر کی طویل غزل ’’سرِ بازار می رقصم ‘‘ سے بھی فیضیاب ہوئے ہیں اور خود گلزار بخاری نے ہر ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا ہے جبکہ جس خانوادۂ علم و تصوف سے ان کا تعلق ہے وہ بھی ان کی معاون و مددگار رہی ہے دعا ہے کہ ان کا شاہکار نامہ مقبول ہو۔
۰۰۰
ہمارے دُکھ کتنے مشترک ہیں
نام کتاب:ہمارے دکھ کتنے مشترک ہیں
موضوع:شاعری
شاعر:سرورارمان
سرورق:عمران شناور
ضخامت:160 صفحات
قیمت:400 روپے
ناشر:زربفت پبلی کیشنز، لاہور
مبصر: مجید فکری
میں سرور ارمان کو نہیں جانتا مگر شاعری حوالہ بن جاتی ہے کسی بھی شاعر کے تعارف کا …! سو ان کی شاعری کا مجموعہ میری نظروں کے سامنے ہے۔ کسی بھی کتاب کو کھولنے سے پہلے جو چیزنظر نواز ہوتی ہے وہ کتاب کا سرورق ہوتا ہے جسے دیکھ کر لا محالہ اسی محاورہ کے مصداق کہ ’’خط کا مضمون بھانپ جاتے ہیں لفافہ دیکھ کر‘‘ میں نے جو کچھ سمجھا، یہی کچھ میرے پیش نظر بھی ہے اور میں نے بخوبی یہ اندازہ لگالیا ہے کہ سرور امان ایک ترقی پسندانہ ذہن کے مالک ہیں اور وہ مارکس کے نظریے سے بھی متاثر ہیں۔ چونکہ وہ اشتراکی ذہن رکھتے ہیں اس لئے ان کے اشعار میں وہی فکر کارفرماہوگی جو اشتراکیت کے پیروکار حضرات کے پیش نظر ہوتی ہے۔
میں نے سرورق دیکھنے کے بعد کتاب کھولی تو کتاب کے اندرونی دونوں فلیپ پر ان کی ایک ایک غزل نمایاںنظر آئی اور میں لازماً ان کی غزل کے آخری شعر پر رک گیا جو میرے بیان کردہ اوپر والے اظہار کے عین مطابق نکلا۔ وہ شعر یہ تھا:
اس ملک سے غربت کبھی مِٹ ہی نہیں سکتی
اس ملک کا دستور وڈیروں کی طرف ہے
یہ شعر خالصتاً ان کے انقلابی منشور اور موجودہ ظلم و ستم کے خلاف جو تحریک آج سے کئی صدیوں پہلے پَلی بڑھی اور پھر عوام کے ذہن و خیال کا حصہ بن گئی وہ تھی مارکسیت یا مارکس کے نظریات پر مشتمل تحریک ، مارکس نے اپنے گردو پیش جو ظلم و ستم دیکھا، حکمرانوں ، بادشاہوں اور ملوکیت کا جو بازار گرم دیکھا تو اس سے وہ اتنا بدظن اور مخالف ہوگیا کہ وہ اس دور میں ایک معروف نظریاتی مفکر بن کر اُبھر اور اس نے ان حالات کے خلاف بغاوت کردی بالآخر ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے بے شمار پیروکار (Followers) پیدا ہوگئے۔ یہی نہیں آج بھی دنیا میں اس کے نظریے کے پرچار کرنے والے موجود ہیں۔
انہوںنے غزل کے پیرائے میں گفتگو ضرور کی ہے اور وہ غزل کے مفہوم و مطلب سے پیچھے بھی نہیں ہٹے چونکہ وہ جانتے ہیں کہ حسن و عشق کے معاملات ہمیشہ سے چلتے چلے آئے ہیں اس لئے اس کے اشارے بھی ان کے کلام میں موجود ہیں کیونکہ یہی تو غزل کا مرکز بنے رہے ہیں یہی حسن ہے جس کا ہر عاشق مزاج شاعر متوالا رہا ہے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ غزل میںیہی کچھ دیکھا جاتا رہا ہے مگر قطع نظر اس کے جدید طرز شاعری میں صرف لب و رخسار کی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ غزل اپنی اصطلاحی معنوں میں دیکھی جانے لگی ہے۔ قدیم و جدید غزل میں یہی ایک امتیاز تو ہے کہ جو کسی شاعر کو جدید شاعراور قدیم شاعر کے ناموں سے پہچان کراتا ہے وگرنہ غزل کے لغوی معنوں کے بطور ہمیشہ سے اس کا موضوع صرف عورت سے باتیں کرنا رہ گیا ہے۔
آئیے سرورارمان کے کچھ اشعار سے استفادہ کریں مگر اس سے پہلے شاعری سے متعلق خود ان کا اپنا مطمح نظر سن لیں جو انہوں نے اپنے پیش لفظ میں کہا ہے:
’’جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے اس کے حوالے سے خامہ فرسائی کی مجھے قطعی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے معیار کی بلندی اور پیمائش کے لئے وقت اور تاریخ سے بڑھ کر کوئی پیمانہ نہیں۔ میرا کام تو اپنے حصے کا چراغ جلانا ے سو میں تادم آخر جلاتا رہوں گا۔‘‘
کتاب کے اندرونی فلیپ پر پیش کردہ اک اور غزل کا آخری شعر جو آج کل ہماری بے بسی کا منہ بولتا ثبوت بھی بن سکتا ہے کہ گرمی کی شدت حبس کا عالم اس پر بجلی کا چلے جانا اک عذاب میں مبتلا کردیتا ہے او رناچار لوگ اپنے گھروں کی چھت پر چلے جاتے ہیں کہ کم سے کم وہاں قدرتی ہوا کا گزر تو ہوسکے گا۔ مگر جس کا پکا گھر ہی نہ ہو یا اسے چھت ہی میسر نہ ہو تو وہ بھلا کہاں بسیرا کرے گا۔ہوسکتا ہے یہ مضمون بھی ان کی شاعری میںکہیں نہ کہیں موجود ہو یا اس مجموعہ ہائے کلام میں نہیں تو دیگر کسی مجموعے میں شامل ہو۔ المختصر وہ شعر کچھ یوں ہے:
کھلی چھتوں پہ رہے لوگ رات بھر بے چین
بلا کا حبس مِرے شہر کی فضا میں رہا
آئیے ان کے کچھ اوراشعار سے بھی استفادہ کرتے ہیں:
تری تلاش میں جب بھی اٹھے قدم میرے
کبھی خرد کبھی دیوانگی نے روک لیا
زندگی بن کے کبھی دل میں اُترتا ہوا شخص
زندگی بھر کے لئے دل سے اُتر جاتا ہے
یہ دوستی بھی عجب ہے کہ ایک بار ملے
پھر اس کے بعد کہیںعمر بھر دکھائی نہ دے
یہ اشعار خالصتاً غزل کے اشعار ہیں اس میں وفا،بے وفائی، قربت او رپھرجدائی کے شکوے نمایاں ہیں مگر یہاں موضوع پھر بھی شاعر کی اس خصوصی شاعری کا ہے جو جا بجا ان کے اشعار میں موجود ہے۔ خاص کر یہ شعر دیکھیں:
مل جائے نجات ان کو کہیں ظلمتِ شب سے
لوگوں کی نظر سُرخ سویروں کی طر ف ہے
کچھ اور انقلابی شعر:
چند اشیائے ضرورت کو ترستے ہیں لوگ
آخری جنگ کا اعلان تو کرسکتے تھے
ہم اہلِ زر کے جشن شب و روز کے لئے
مصروف کارِزارِ مشقت ہیں اور بس
انہیں تو قتل پر بھی شہرتیں انعام ملتی ہیں
مؤثر ضابطے قانون کے کب ہیں وڈیروںپر
ان اشعار کے علاوہ متعدد کلام عنوانات کے تحت پیش کیا گیا ہے مثلاً ’’خواب پہروں ہمیں جگاتے ہیں‘‘، ’’غبارے بیچنے والا‘‘،’’ قید بامشقت‘‘ اور ’’ہم اپنے دُکھ کہاں رکھیں‘‘ وہ پڑھنے والی نظمیں ہیں جن سے لہو گرمایا جاسکتا ہے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سرور امان عوام کے دکھ درد ان کے مصائب و آلام ان پر روزوشب بیتنے والے مظالم اور اس سے نبرد آزما عوام ان کے موضوعاتِ شاعری کا حصہ ہیں تو انہوں نے خود کو ’’ہمارے دکھ درد کتنے مشترک ہیں‘‘ کہہ کر یہ دیوان مرتب کیا ہے۔
ڈاکٹر خیال امروہوی
(شخصیت اور شاعر)
نام کتاب:ڈاکٹر خیال امروہوی …شخصیت اور شاعری
موضوع:شخصیت اور شاعری
مصنف:ریاض راہی
ضخامت:168 صفحات
قیمت:500 روپے
ناشر:مثال پبلشرز، فیصل آباد
مبصر: مجید فکری
پیش نظر کتاب ڈاکٹر خیال ؔ امروہوی کی شخصیت اور شاعری پر ایک مکمل اور مستند دستاویز کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اتنی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ایسی اعلیٰ کتاب مرتب کرنا یقینا ایک خوش آئند اقدام ہے۔ وگرنہ ڈاکٹر صاحب کی پُر وقار شخصیت کا احاطہ کرنا بڑا امرِ مشکل نظر آتا تھا کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا ہم جیسے رائٹرز پر ایسا رُعب طاری ہے کہ ان کی شخصیت نگاری پر کچھ لکھتے ہوئے بڑی احتیاط لازم ہے۔
ڈاکٹر صاحب کئی دہائیوں سے شعر و ادب پر چھائے رہے اگر انہیں اردو ادب و شاعری کا بابا آدم کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہوگا۔آپ کے لاتعدا د شاگرد اب بھی مطلع ٔ ادب پر اپنی جولانیاں دکھاتے نظر آتے ہیں۔
پیش نظر کتاب ایک طرح سے پروفیسر ریاض راہی کے ناقدانہ شعور کی غماز ہے اور انہوں نے بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت، افکار و نظریات اور ان کا اسلوب نگارش بڑی خوبی اور اس کے زمانۂ عصرپر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب ایک ترقی پسند مارکسٹ تھے ان کے لہجہ میں گداز کم اور احتجاج و کرختگی زیادہ ہے۔ یہ ضرورہے کہ ان کی تخلیقات پڑھنے والے کو اپنا گرویدہ ضرور بنالیتی ہیں۔اسی لئے ریاض راہی کی کوشش رہی ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے بنیادی تصورات اور افکار کو سمجھانے کے لئے مؤثر ذریعۂ نگارش اختیار کریں جو خود ڈاکٹر صاحب کا اپنا طرزِ خاص تھا چونکہ وہ فارسی اور عربی سے بھی واقف کار تھے اس لئے ڈاکٹر صاحب کے الفاظ کبھی مانوس اور کبھی غیر مانوس بھی تھے۔ پروفیسر ریاض نے یہ تمام خصوصیات بیان کرتے ہوئے اپنا اندازِ نگارش بڑا سادہ اور عام فہم رکھا۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر خیال ایسے انقلابی شاعر، ادیب ، محقق، مترجم، سماجی مصلح اور دانشور تھے جنہوں نے سینکڑوں افراد کی ذہنی اور فکری آبیاری کی۔ انہیں سماجی اور طبقاتی شعور سے آشنا کیا اور فکری محاذ پر سماجی ہی نہیںرجعت پسندانہ قوتوں سے محاذ آرائی کا حوصلہ بھی بخشا۔‘‘
یہ بات میں نے یوں محسوس کی ہے کہ ان کا ذوقِ شاعری غزل اور نظم دونوں میں یکساں تھا۔
اسی لیے ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے متنوع پہلو اور عصری آشوب کا برملا اظہار کیا ہے اور طبقاتی معاشرہ اور اس سے جنم لینے والی نفسیاتی الجھنوں کو بھی اپنی نظم کے اندر توجہ طلب مسائل کے طو رپر خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنے انقلابی پروگرام کا پرچار بھی کردیا ہے۔چونکہ وہ جوش ؔسے بہت متاثر ہیں اسی لئے ان کا ذہن بھی انقلابی آواز اٹھانے والی شخصیت کے طور پر کیا جاتا ہے۔
گویا ڈاکٹر صاحب کی شاعری اپنے عصری آشوب کی ترجمان ہے اور سماج کے انقلاب و ارتقاء کی نمائندہ بھی…!
یہی نہیں بلکہ وہ حبِ رسولؐ سے بھی سرشار نظر آتے ہیں او ران کی بیشتر نعتیں، منقتب وغیرہ بھی منظر عا م پر آچکی ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا بھی آسان ہے کہ ان کے نزدیک جذبہ و وجدان، تفہیمِ رسالت میں کامیابی سے ہمکنار نہیں کرسکتا کیونکہ یہ حضور پاکؐ کی ذاتِ والا صفات ہی ہے جس نے تمام انسانوں کو وہم و گمان کی شبِ یلدا سے نکال کر ایمان و عقل کی اس سرحد ِ ادراک میں شامل کیا جو خدائی جلووں سے متغیر ہے۔
صرف جذبے سے تِرے وصف کا امکان نہیں
محورِ عقل ہے تو مرکزِ وجدان نہیں
ڈاکٹر خیال کی نظم نگاری بھی منفرد اور اچھوتے اندازِ دلکشی کے مناظر پیش کرتی ہے او راپنے پڑھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی بھی ہے وگرنہ پھر ایک مارکسیت پرست شاعر عوام کے دلوں میں کیسے گھر کرسکتا ہے۔
اب ذرا ان کی نظم و غزل میں جو انوکھا اندازِ بیان تھا ا س کا ہلکاسا عکس ان اشعار کے ذریعے ملاحظہ فرمائیے:
غزل کا شعر
بہت ہی خاص ہیں اوقات اس کے ملنے کے
وہ خوش جمال جو اکثر دکھائی دیتا ہے
نظم کے اشعار
گھر میں بہنوں کی وہ غم آلود آنکھیں الاماں
باپ بوڑھا ، چھوٹے بھائی مدرسوں کے درمیاں
سب کی امیدوں کا سورج اک جواں بے روزگار
آہ اے مجبور انساں آہ اے پروردگار
عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...
حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...
دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...
پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...
وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...
قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...
شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...
1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار تھی اور آج بھی آہنی فصیل ہے 8 جدید ہنگور کلاس آبدوزیں جلد فلیٹ میں آرہی ہیں،نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف کا پیغام چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ ...
دینی درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ اسلام کے جامع تصور کو عام کریں، امت کو جوڑیں امیر جماعت اسلامی کا جامعہ اشرفیہ میں خطاب، مولانا فضل الرحیم کی عیادت کی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ وسائل پر قابض مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی ملک کو اب تک نوآبادیاتی ...
تمام یہ جان لیں پاکستان کا تصور ناقابل تسخیر ہے،کسی کو بھی پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ اور ہمارے عزم کو آزمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چیف آف ڈیفنس فورسز بھارت کسی خود فریبی کا شکار نہ رہے، نئے قائم ہونے والے ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز میں بنیادی تبدیلی تاریخی ...
سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، کچھ فارم 47 والے چاہتے ہیں ملک کے حالات اچھے نہ ہوں، دو سال بعد بھی ہم اگر نو مئی پر کھڑے ہیں تو یہ ملک کیلئے بد قسمتی کی بات ہے پی ٹی آئی بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کیلئے اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ،بانی پی ٹ...
بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس...