وجود

... loading ...

وجود

چائلڈ لیبر۔معاشرے کی بدنما تصویر

پیر 30 اپریل 2018 چائلڈ لیبر۔معاشرے کی بدنما تصویر

کبھی اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی سے اور اپنی ذات سے نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد اطراف میں کتنے ہی ایسے پھول سے معصوم چہرے نظر آئیں گے جو حسرت و یاس کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ ان کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں تو ان میں آپ کو کتنے ہی خواب مرتے نظر آئیں گے۔ کبھی ان کے اداس لپوں کا تصور کیجے ،کیا آپ کو ایسا لگا ہوگا کہ یہ کبھی مسکرائے بھی ہوں گے؟

ان کی زندگی روزمرہ مشقت کی ایسی تصویر ہے جس میں صرف انہیں کام ہی کرنا ہے اور پھر بھی وہ اپنی محنت کے حساب سے معاوضہ نہیں پاتے۔ان کا معاشی، جسمانی، روحانی استحصال کیا جاتا ہے۔ معاشی اس لحاظ سے کہ ان کی عمر کے مطابق اور وقت کا حساب کیے بغیر بے حساب کام لیا جاتا ہے اور انہیں ان کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔جسمانی اس لحاظ سے کہ اس قدر نوعمری میں استطاعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ان کے کام کے اوقات مخصوص نہیں ہیں۔ ان کے جسم درد سے بکھر رہے ہوں مگر انہیں دن کی دیہاڑی پوری کرنی ہے۔ روحانی استحصال اس انداز میں کہ کبھی انہیں جھڑکیاں ملتی ہیں اور کبھی مختلف سزائیں انہیں ذلت کا احساس دلانے کے لیے ملتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ان کے ساتھ جو یہ سلوک کیا جاتا ہے، تو ان کے دل پر کیا گذرتی ہے۔وہ کس کرب سے گزرتے ہیں۔ کیا معاشرے میں بسنے والے افراد کے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا احساس بیدار نہیں ہوتا ؟

یہاں بات کی جارہی ہے ان معصوم پھول جیسے بچوں کی جن کی عمریں بمشکل 5 سے 10 سال کی ہیں اور وہ پورے کنبے کا بوجھ اٹھانے کے لیے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ ان سبھی بچوں کے گھروں کی یہی کہانی ہے۔ گھر کے افراد زیادہ ہیں اور باپ نشے میں دھت اپنی ذمہ داریوں سے دور۔ ہر احساس سے عاری، اولاد تو پیدا کرلیتے ہیں مگر ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں تبھی ان ننھے محنت کش کاریگر بچوں کو اپنے بچپن کی معصومیت اور شرارتوں کو بھول کر زندگی کی مشقت زدہ شاہراہ پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں قدم قدم پر ان کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔

آپ صبح اپنے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں راستے میں آپ کو کسی دکان پر ، کسی ڈھابے پر، چوراہوں پر ، ٹریفک سگنلز پر، بے شمار ایسے بچے نظر آئیں گے جو اپنی عمر سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔کہیں ان کے ہاتھ سخت اوزار پکڑے گاڑی کے نٹ بولٹ ٹھیک کرتے ، ٹائر مرمت کرتے نظر آئیں گے ، تو کہیں ڈھابے پر چائے کی ٹرے پکڑے گاہکوں کے آگے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے اور اگر کہیں ٹرے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر گر جائے اور کپ ٹوٹ جائیں تو ان کے ننھے گالوں پر پڑنے والے طمانچوں کی تکلیف کوایک لمحے کے لیے محسوس کر کے دیکھئے گااگر آپ حساس دل کے مالک ہیں تو آنکھوں میں نمی آئے بغیر نہیں رہے گی۔مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ روز کا معمول ہے۔

چائلڈ لیبر کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں چائلڈ لیبر کا تناسب 37فیصد ہے اور اس میں 49 لڑکے اور 51 لڑکیاں ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اس تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کم عمر بچیاں کوٹھیوں میں صبح سے شام تک کام کرکے اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں ہے۔ ان کی الگ درد بھری کہانی ہے۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کہیں ان پہ چوری کا الزام لگا کر تشدد کیا جاتا ہے تو کہیں ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ معصوم عزت جانے پر بھی خاموش رہتی ہیں جس کے باعث اس نوع کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کوئی اس جرم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتا۔ اخبارات میں کتنے ہی ایسے واقعات آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرے ہوں گے اور آپ نے سرسری نظر سے پڑھا بھی ہوگامعصوم بچیوں پر تشدد کیا گیا۔ اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا۔ اس سلسلے میں انہیں انصاف بھی نہیں ملا۔ نہ جانے کتنے ایسے کیس ہوں گے جو منظر عام پر بھی نہیں آسکے۔

سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام بچے جن کی عمریں بمشکل 13 سے 15 سال ہیں زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ تعلیم ، خوراک اور لباس جیسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ بعض اوقات زندگی سختیوں سے گھبرا کر یہ مختلف جرائم کی راہ اختیارکرلیتے ہیں۔ کسی گروہ کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ پھر ساری زندگی اسی دلدل میں گزار دیتے ہیں جبکہ صرف ذرا سی کوشش سے انہیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی۔ ایل۔ او) کے تحت ہر سال 12 جون کو بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2002 ء میں ہوا تھا۔ آئی ایل او کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ سترہ لاکھ تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ SPARC نامی ایک این جی او کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان 2 کروڑ4 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 5لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنے عالمی قوانین کی بات کی جائے تو اس کے مطابق ان کی یومیہ اجرت، کام کے اوقات اور اس میں وقفہ اور ساتھ ان سے غیر انسانی سلوک کرنے پر سخت اصول بنائے گئے ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ممالک ایسے ہوں گے جو ان پر عمل کرتے ہوں گے۔ممکن ہے کسی حد تک انسانیت ان میں زندہ ہو۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں متعدد واقعات ایسے سامنے آتے ہیں جن میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوتیں ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی سے لے کر دفتری اوقات کی پابندی تک ، ہم اپنے اخلاقی رویوں میں ہر قسم کے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔

اس میں سب سے زیادہ استحصال لیبر قوانین کا کیا جاتا ہے جس کا شکار یہ معصوم بچے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کی شب وروز کی زندگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ قوم کے ان نونہالوں کے مستقبل کی یہ ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کم از کم کبھی زندگی میں اس مقام پر بھی ہوں گے کہ وہ مشقت بھری اس زندگی سے نجات پاسکیں۔کیا ان کا صرف یہی ایک خواب پورا نہیں کیا جاسکتا؟پاکستان میں متعدد این جی او اور فلاحی ادارے اپنے طور پر کام ک رہے ہیں مگر ان کی مالی استطاعت میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تاکہ یہ کام مؤثر اور وسیع پیمانے پر ہوسکے اور مزدور بچوں کی زندگی سنور سکے۔اس سلسلے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ 2014 ء میں پنجاب نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس بلا کر چائلڈ لیبر خاتمے کے لیے پہلے میگا پروجیکٹ مربوط منصوبہ برائے بچگانہ وجبری مشقت کا خاتمہ کا آغاز کیا۔اس پروجیکٹ کا مقصد چائلڈ لیبر کی بدترین صورتوں کا خاتمہ، قرج کی ادائیگی کے نام پر جبری مشقت کا خاتمہ، متاثرہ خاندانوں کی بحالی، جبری مشقت کے خلاف قوانین کی مضبوطی اور افسران کی استعداد کار میں اضافہ کرنا تھا۔کچھ وقت کے لیے یہ پروگرام تعطل کا شکار رہا۔ شاید اس پر مکمل طور سے عمل درامد نہیں ہوسکا۔مگر اس سلسلے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے محنت کش بچوں کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے ایوننگ اسکولز بنانے کا اعادہ کیا ہے جنہیں سرکاری اسکولوں اور ٹیکنیکل کالجوں کی عمارتوں میں محنت کش بچوں کے لیے بنایا جائے گا۔

ایک کثیر الاشاعت اخبار کی 7 مارچ 2018ء کی خبر کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ٹیوٹا اور لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ مل کر منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر عائشہ غوث نے کہا کہ ان بچوں کی استحصالی مشقت ختم کرنے کے لیے ان بچوں کے ماہانہ وظائف اور ان کے والدین کی مالی مدد کی جائے گی۔ ان میں آٹوورکشاپس،پیٹرول پمپس،قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کو اسکول میں داخلہ دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا دائرہ کار چائلڈ لیبر کے تمام ممکنہ شعبوں تک پھیلایا جائے گا۔ان بچوں کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جائے گی۔

اس خبر کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید نے متعلقہ محکموں کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے اجلاس میں موجودہ صورتحال کے مطابق درپیش مسائل اور وقت و اخراجات کا تخمینے کے ساتھ شرکت کریں تاکہ پروگرام پہ جلد عمل کیا جاسکے۔ یہ ایوننگ اسکول پروگرام نوعمری میں مجبوری کے تحت کام کرنے والے بچوں کو ا سکول تک لے آئے گا اور ان کے بہتر مستقبل کا ضامن ہوگا۔یہ ایک مثالی اور روشن قدم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انقلابی اقدامات کو نہ صرف نیک نیتی اور خلوص سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے بلکہ اسے مثال بناکر ایسے اقدامات دیگر صوبوں میں بھی کیے جائیں تاکہ مستقبل کے یہ معمار پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے ضامن بن سکیں۔ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ سوچنا کہ ہم کیا کرسکتے ؟ کافی نہیں۔ ہر فرد اگر اپنی جگہ پر صرف ایک چھوٹی سی نیکی کے طور پر احساس کرتے ہوئے کسی حد تک مالی مدد یا ذرہ بھر ضرورت بھی پوری کر دیں ،آپ یقین مانیے یہ نیکی قظرے سے سمندر بن سکتی ہے۔ ہر ایک قدم پر حکومت کی طرف نظر کرنا بھی غلط ہے۔ یہ کام کسی حد تک معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ کر سکتا ہے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکت ہے۔ان میں ہی کہیں پاکستان کا روشن مستقبل بھی چھپا ہوا ہے۔کسے معلوم ان بچوں کی صلاحیتیں ابھارنے پر ان میں کہیں ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبد القدیر خان موجود ہوں، کہیں عبد الستار ایدھی ہوں جو انسانیت کی فلاح کے روشن چراغ تھے۔ ان میں ہی کہیں ملک کا کوئی ایسا لیڈر موجود ہو جو اس ملک کے لیے نجات دہندہ بن سکے کسے معلوم؟


متعلقہ خبریں


( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...

( صیہونی درندگی)22 گھنٹوں میں غزہ کے118مسلم شہید

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...

(غلامی نا منظور )پارٹی 10 محرم کے بعد تحریک کی تیاری کرے(عمران خان)

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم) وجود - بدھ 02 جولائی 2025

عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...

اشرافیہ کو نوازو، عوام کی کمر توڑو، یہ ہے حکومت کی پالیسی(حافظ نعیم)

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ وجود - منگل 01 جولائی 2025

وفاقی وزیر توانائی نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھ دیا، محصولات کی وصولی کے متبادل طریقوں کی نشاندہی ،عملدرآمد کے لیے تعاون طلب بجلی کے مہنگے نرخ اہم چیلنج ہیں، صارفین دیگر چارجز کے بجائے صرف بجلی کی قیمت کی ادائیگی کر رہے ہیں، اویس لغاری کے خط کا متن حکومت نے بجلی کے بلوں میں ...

حکومت کابجلی بلوں سے صوبائی الیکٹریسٹی ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم ) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پاکستان، ایران اور ترکی اگراسٹریٹجک اتحاد بنالیں تو کوئی طاقت حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتی گیس پائپ لائن منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے، ایران کے سفیر سے ملاقات ،ظہرانہ میں اظہار خیال پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے خلاف ایران کی حم...

اسرائیل، امریکا کے عزائم کو متحد ہو کر ہی ناکام بنانا ہوگا( حافظ نعیم )

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو) وجود - منگل 01 جولائی 2025

پارلیمان میں گونجتی ہر منتخب آواز قوم کی قربانیوں کی عکاس ، امن، انصاف اور پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کسی کو بھی پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے،عالمی یوم پارلیمان پر پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خودمختار پا...

خودمختارپارلیمان ہماری جمہوریت کا دھڑکتا ہوا دل ہے(بلاول بھٹو)

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی وجود - منگل 01 جولائی 2025

ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پانے کے بعد لیگ سے باہر آئرلینڈ کی جگہ نیوزی لینڈ یا پاکستان کی ٹیم کو اگلے سیزن کیلیے شامل کیا جائے گا،رپورٹ ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پ...

ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کی رسوائی

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید) وجود - منگل 01 جولائی 2025

درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحش...

غزہ میں صہیونی مظالم کی انتہا(140نہتے مسلم شہید)

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند وجود - پیر 30 جون 2025

  حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...

پیپلزپارٹی کا حکومت میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ، وفاق میں وزارتیںلینے پر رضامند

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

  جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...

اسلام آباد میں ایک ہفتے کی کال پر قبضہ کرسکتے ہیں،مولانافضل الرحمان

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان وجود - پیر 30 جون 2025

پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...

کراچی کی مئیرشپ پر ڈاکا ڈالا گیا،حافظ نعیم الرحمان

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان وجود - پیر 30 جون 2025

پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...

وزیراعظم کا بجلی بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان

مضامین
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد! وجود جمعه 04 جولائی 2025
افریقہ میں خاموش انقلاب کی بنیاد!

بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش وجود جمعرات 03 جولائی 2025
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت وجود جمعرات 03 جولائی 2025
ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر