... loading ...
کبھی اپنی روزمرہ کی مصروف زندگی سے اور اپنی ذات سے نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو اپنے اردگرد اطراف میں کتنے ہی ایسے پھول سے معصوم چہرے نظر آئیں گے جو حسرت و یاس کی چلتی پھرتی تصویریں ہیں۔ ان کی آنکھوں کو قریب سے دیکھیں تو ان میں آپ کو کتنے ہی خواب مرتے نظر آئیں گے۔ کبھی ان کے اداس لپوں کا تصور کیجے ،کیا آپ کو ایسا لگا ہوگا کہ یہ کبھی مسکرائے بھی ہوں گے؟
ان کی زندگی روزمرہ مشقت کی ایسی تصویر ہے جس میں صرف انہیں کام ہی کرنا ہے اور پھر بھی وہ اپنی محنت کے حساب سے معاوضہ نہیں پاتے۔ان کا معاشی، جسمانی، روحانی استحصال کیا جاتا ہے۔ معاشی اس لحاظ سے کہ ان کی عمر کے مطابق اور وقت کا حساب کیے بغیر بے حساب کام لیا جاتا ہے اور انہیں ان کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔جسمانی اس لحاظ سے کہ اس قدر نوعمری میں استطاعت سے زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ ان کے کام کے اوقات مخصوص نہیں ہیں۔ ان کے جسم درد سے بکھر رہے ہوں مگر انہیں دن کی دیہاڑی پوری کرنی ہے۔ روحانی استحصال اس انداز میں کہ کبھی انہیں جھڑکیاں ملتی ہیں اور کبھی مختلف سزائیں انہیں ذلت کا احساس دلانے کے لیے ملتی ہیں۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے ان کے ساتھ جو یہ سلوک کیا جاتا ہے، تو ان کے دل پر کیا گذرتی ہے۔وہ کس کرب سے گزرتے ہیں۔ کیا معاشرے میں بسنے والے افراد کے دل میں ان کے لیے کسی قسم کا احساس بیدار نہیں ہوتا ؟
یہاں بات کی جارہی ہے ان معصوم پھول جیسے بچوں کی جن کی عمریں بمشکل 5 سے 10 سال کی ہیں اور وہ پورے کنبے کا بوجھ اٹھانے کے لیے صبح منہ اندھیرے گھر سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ ان سبھی بچوں کے گھروں کی یہی کہانی ہے۔ گھر کے افراد زیادہ ہیں اور باپ نشے میں دھت اپنی ذمہ داریوں سے دور۔ ہر احساس سے عاری، اولاد تو پیدا کرلیتے ہیں مگر ان کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں تبھی ان ننھے محنت کش کاریگر بچوں کو اپنے بچپن کی معصومیت اور شرارتوں کو بھول کر زندگی کی مشقت زدہ شاہراہ پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں قدم قدم پر ان کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
آپ صبح اپنے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں راستے میں آپ کو کسی دکان پر ، کسی ڈھابے پر، چوراہوں پر ، ٹریفک سگنلز پر، بے شمار ایسے بچے نظر آئیں گے جو اپنی عمر سے بڑھ کر بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔کہیں ان کے ہاتھ سخت اوزار پکڑے گاڑی کے نٹ بولٹ ٹھیک کرتے ، ٹائر مرمت کرتے نظر آئیں گے ، تو کہیں ڈھابے پر چائے کی ٹرے پکڑے گاہکوں کے آگے پیچھے بھاگتے نظر آئیں گے اور اگر کہیں ٹرے ان کے ہاتھوں سے پھسل کر گر جائے اور کپ ٹوٹ جائیں تو ان کے ننھے گالوں پر پڑنے والے طمانچوں کی تکلیف کوایک لمحے کے لیے محسوس کر کے دیکھئے گااگر آپ حساس دل کے مالک ہیں تو آنکھوں میں نمی آئے بغیر نہیں رہے گی۔مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ روز کا معمول ہے۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے بات کی جائے تو پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں چائلڈ لیبر کا تناسب 37فیصد ہے اور اس میں 49 لڑکے اور 51 لڑکیاں ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اس تناسب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کم عمر بچیاں کوٹھیوں میں صبح سے شام تک کام کرکے اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔ ان کی زندگی بھی آسان نہیں ہے۔ ان کی الگ درد بھری کہانی ہے۔ ان گھروں میں ان کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے۔وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کہیں ان پہ چوری کا الزام لگا کر تشدد کیا جاتا ہے تو کہیں ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ ان کی زندگی برباد کردی جاتی ہے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ یہ معصوم عزت جانے پر بھی خاموش رہتی ہیں جس کے باعث اس نوع کے جرائم میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کوئی اس جرم کے خلاف آواز بھی بلند نہیں کرتا۔ اخبارات میں کتنے ہی ایسے واقعات آپ کی نظروں کے سامنے سے گزرے ہوں گے اور آپ نے سرسری نظر سے پڑھا بھی ہوگامعصوم بچیوں پر تشدد کیا گیا۔ اور ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا گیا۔ اس سلسلے میں انہیں انصاف بھی نہیں ملا۔ نہ جانے کتنے ایسے کیس ہوں گے جو منظر عام پر بھی نہیں آسکے۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام بچے جن کی عمریں بمشکل 13 سے 15 سال ہیں زندگی کے مشکل دور سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو نہ تعلیم ، خوراک اور لباس جیسے مسائل کا سامنا ہے بلکہ بعض اوقات زندگی سختیوں سے گھبرا کر یہ مختلف جرائم کی راہ اختیارکرلیتے ہیں۔ کسی گروہ کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ پھر ساری زندگی اسی دلدل میں گزار دیتے ہیں جبکہ صرف ذرا سی کوشش سے انہیں معاشرے کا مفید فرد بنایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی۔ ایل۔ او) کے تحت ہر سال 12 جون کو بچوں سے جبری مشقت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کا آغاز 2002 ء میں ہوا تھا۔ آئی ایل او کے تحت کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر کی تعداد ایک کروڑ سترہ لاکھ تھی اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ SPARC نامی ایک این جی او کیے گئے سروے کے مطابق پاکستان 2 کروڑ4 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ 1کروڑ 5لاکھ بچے کسی نہ کسی معاشی سرگرمی میں شامل ہیں۔چائلڈ لیبر کے حوالے سے بنے عالمی قوانین کی بات کی جائے تو اس کے مطابق ان کی یومیہ اجرت، کام کے اوقات اور اس میں وقفہ اور ساتھ ان سے غیر انسانی سلوک کرنے پر سخت اصول بنائے گئے ہیں۔ دنیا کے کتنے ہی ممالک ایسے ہوں گے جو ان پر عمل کرتے ہوں گے۔ممکن ہے کسی حد تک انسانیت ان میں زندہ ہو۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ ہمارے ملک میں ہر طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں متعدد واقعات ایسے سامنے آتے ہیں جن میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہوتیں ہیں۔ ٹریفک قوانین کی پابندی سے لے کر دفتری اوقات کی پابندی تک ، ہم اپنے اخلاقی رویوں میں ہر قسم کے قانون سے آزاد ہوچکے ہیں۔
اس میں سب سے زیادہ استحصال لیبر قوانین کا کیا جاتا ہے جس کا شکار یہ معصوم بچے ہوتے ہیں اس کا اندازہ ان کی شب وروز کی زندگی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں وہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ قوم کے ان نونہالوں کے مستقبل کی یہ ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی کہ وہ کم از کم کبھی زندگی میں اس مقام پر بھی ہوں گے کہ وہ مشقت بھری اس زندگی سے نجات پاسکیں۔کیا ان کا صرف یہی ایک خواب پورا نہیں کیا جاسکتا؟پاکستان میں متعدد این جی او اور فلاحی ادارے اپنے طور پر کام ک رہے ہیں مگر ان کی مالی استطاعت میں اضافہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو تاکہ یہ کام مؤثر اور وسیع پیمانے پر ہوسکے اور مزدور بچوں کی زندگی سنور سکے۔اس سلسلے میں خوش آئند بات یہ ہے کہ 2014 ء میں پنجاب نے پہلی بار ساؤتھ ایشیا لیبر کانفرنس بلا کر چائلڈ لیبر خاتمے کے لیے پہلے میگا پروجیکٹ مربوط منصوبہ برائے بچگانہ وجبری مشقت کا خاتمہ کا آغاز کیا۔اس پروجیکٹ کا مقصد چائلڈ لیبر کی بدترین صورتوں کا خاتمہ، قرج کی ادائیگی کے نام پر جبری مشقت کا خاتمہ، متاثرہ خاندانوں کی بحالی، جبری مشقت کے خلاف قوانین کی مضبوطی اور افسران کی استعداد کار میں اضافہ کرنا تھا۔کچھ وقت کے لیے یہ پروگرام تعطل کا شکار رہا۔ شاید اس پر مکمل طور سے عمل درامد نہیں ہوسکا۔مگر اس سلسلے کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے محنت کش بچوں کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ان کے لیے ایوننگ اسکولز بنانے کا اعادہ کیا ہے جنہیں سرکاری اسکولوں اور ٹیکنیکل کالجوں کی عمارتوں میں محنت کش بچوں کے لیے بنایا جائے گا۔
ایک کثیر الاشاعت اخبار کی 7 مارچ 2018ء کی خبر کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن، پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، ٹیوٹا اور لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ مل کر منصوبے کو حتمی شکل دیں گے۔ اجلاس میں صوبائی وزیر عائشہ غوث نے کہا کہ ان بچوں کی استحصالی مشقت ختم کرنے کے لیے ان بچوں کے ماہانہ وظائف اور ان کے والدین کی مالی مدد کی جائے گی۔ ان میں آٹوورکشاپس،پیٹرول پمپس،قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں کام کرنے والے بچوں کو اسکول میں داخلہ دیا جائے گا اور جلد ہی اس کا دائرہ کار چائلڈ لیبر کے تمام ممکنہ شعبوں تک پھیلایا جائے گا۔ان بچوں کو رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت بھی دی جائے گی۔
اس خبر کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہد سعید نے متعلقہ محکموں کے افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے اجلاس میں موجودہ صورتحال کے مطابق درپیش مسائل اور وقت و اخراجات کا تخمینے کے ساتھ شرکت کریں تاکہ پروگرام پہ جلد عمل کیا جاسکے۔ یہ ایوننگ اسکول پروگرام نوعمری میں مجبوری کے تحت کام کرنے والے بچوں کو ا سکول تک لے آئے گا اور ان کے بہتر مستقبل کا ضامن ہوگا۔یہ ایک مثالی اور روشن قدم ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انقلابی اقدامات کو نہ صرف نیک نیتی اور خلوص سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے بلکہ اسے مثال بناکر ایسے اقدامات دیگر صوبوں میں بھی کیے جائیں تاکہ مستقبل کے یہ معمار پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے ضامن بن سکیں۔ایک عام آدمی کی حیثیت سے یہ سوچنا کہ ہم کیا کرسکتے ؟ کافی نہیں۔ ہر فرد اگر اپنی جگہ پر صرف ایک چھوٹی سی نیکی کے طور پر احساس کرتے ہوئے کسی حد تک مالی مدد یا ذرہ بھر ضرورت بھی پوری کر دیں ،آپ یقین مانیے یہ نیکی قظرے سے سمندر بن سکتی ہے۔ ہر ایک قدم پر حکومت کی طرف نظر کرنا بھی غلط ہے۔ یہ کام کسی حد تک معاشرے کا ہر فرد اپنی جگہ کر سکتا ہے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکت ہے۔ان میں ہی کہیں پاکستان کا روشن مستقبل بھی چھپا ہوا ہے۔کسے معلوم ان بچوں کی صلاحیتیں ابھارنے پر ان میں کہیں ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبد القدیر خان موجود ہوں، کہیں عبد الستار ایدھی ہوں جو انسانیت کی فلاح کے روشن چراغ تھے۔ ان میں ہی کہیں ملک کا کوئی ایسا لیڈر موجود ہو جو اس ملک کے لیے نجات دہندہ بن سکے کسے معلوم؟
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...
طوفانی بارشوں کے باعث المواصی کیمپ میں پوری کی پوری خیمہ بستیاں پانی میں ڈوب گئیں مرنے والوں میں بچے شامل،27 ہزار خیمے ڈوب گئے، 13 گھر منہدم ہو چکے ہیں، ذرائع اسرائیلی بمباریوں کے بعد اب طوفانی بارشوں اور سخت سردی نے غزہ کی پٹی کو لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے 12 افراد جاں بحق او...
اس بار ڈی چوک سے کفن میں آئیں گے یا کامیاب ہوں گے،محمود اچکزئی کے پاس مذاکرات یا احتجاج کا اختیار ہے، وہ جب اور جیسے بھی کال دیں تو ہم ساتھ دیں گے ،سہیل آفریدی کا جلسہ سے خطاب میڈیٹ چور جو 'کا کے اور کی' کو نہیں سمجھ سکتی مجھے مشورے دے رہی ہے، پنجاب پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ بن...
مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے، البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا وزیراعظم کا یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی، تحفظ کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں...
زخمی حالت میں گرفتار ملزم 4 سال تک بھتا کیس میں جیل میں رہا، آزاد امیدوار کی حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لیا 17 افراد زیر حراست،سیاسی جماعت کے لوگ مجرمان کو پناہ دینے میں دانستہ ملوث پائے گئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوگی ایس آئی یو پولیس نے ناظم آباد میں سیاسی جماعت کے سر...
ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...
دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...