وجود

... loading ...

وجود

استبال کتب

اتوار 22 اپریل 2018 استبال کتب

نام کتاب:روشنی کے خدوخال(نعتیہ مسدس)
شاعر:رفیع الدین رازؔ
ضخامت:224 صفحات
قیمت: 500 روپے
ناشر:رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
مبصر:مجید فکری
پیش نظر مجموعۂ نعت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) روشنی کے خدوخال ممتاز شاعر رفیع الدین راز کا تخلیق کردہ ہے جو بہ شکل مسدس 23 ابواب پر مشتمل ہے جسے رنگِ ادب پبلی کیشنز نے خاص اہتمام سے شائع کیا ہے۔ کتاب کے اندرونی فلیپ پر ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفی کا مختصر مگر جامع تبصرہ بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے جس کتاب کا بھی دیباچہ ’’مقدمہ‘‘ تبصرہ یا تجزیہ پیش کیا ہو درحقیقت وہ یوں ہی بڑی اہمیت کا درجہ پا جاتا ہے۔ اسے آپ میرا حسنِ ظن کہیں یا اسے میری اور ان کی ذات تک محدود کرسکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے او رمیں بڑے دعوے اور یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بڑے سنجیدہ ادبی محقق تھے۔گو کہ آج ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں وگرنہ ہوسکتا تھا کہ آپ میری اس رائے کو محض ان کی خوشنودی یا مطلب براری سے منسوب کرتے۔ مگر میں یہ رائے دیتے ہوئے ادبی اُفق پر ایسی بے شمار شخصیات کو بھی دیکھ رہا ہوں جو ڈاکٹر صاحب سے متعلق میری رائے سے اتفاق کریں گی۔

حق گوئی و بے باکی اُن کا وطیرہ تھا وہ جب تک زندہ رہے مصلحت پسندی یا کسی بھی جانبداری سے کام نہیں لیا۔ حق اور سچ کا پرچار کیا اور انہی لوگوں کے نام و کلام کو سراہا جس کے وہ مستحق تھے۔

یہی وجہ ہے کہ پیش نظر مجموعہ شعری جسے نعتیہ مسدس کا نام دیا گیا ہے جناب رفیع الدین راز کا ہمیشہ زندہ رہنے والا کام ہے۔رفیع الدین راز شعر و ادب کے حوالے سے ایک اہم ادیب، شاعر اور ناقد کی حیثیت سے بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ان کی متعدد کتابیں جو نثری ادب اور شعری ادب پرمشتمل ہیں ادب عالیہ کا حصہ ہیں اور میں اُن کی ایک اور خوبی یا کمال کا ذکر کروں تو آپ کو حیرت و اچنبھا نہیں ہونا چاہئے کہ موصوف نے ابھی حال میں رُباعی کی 24 بحروں میں 24 غزلیں تحریر کی ہیں جو ایک بے مثال کارنامہ ہے جسے ادبی حلقوں میں سراہنا چاہئے وہ اس لئے کہ رباعی کہنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی مگر رازؔ صاحب نے رباعی کو سمجھااور رباعی کی مشکل اور اوق بحروں میں غزل کے پیرائے میں ڈھالا یہ اہلِ دانش کے لئے بھی چونکا دینے والا کام ہے۔

مزید برآں رفیع الدین رازؔ نے مسدس جیس اہم صنف جو ادب میں تعریف و توصیفِ رسولؐ کے لئے اختیار کی ہے ایک قابل قدر کارنامہ ہے۔ اور اس مسدس میں یہ اہتمام و احتیاط بھی ملحوظِ خاطر رکھا ہے کہ سب سے زیادہ توجہ سیرتِ رسولؐ پر دی گئی ہے۔

ڈاکٹر موصوف لکھتے ہیں ’’مرحبا صل علیٰ آئینہ اے روشنی‘‘ اس مصرع میں دو دعائیہ یا تہنیتی کلمات ہیں چاہیں تو آپ انہیں درودو سلام کا صیغہ کہہ لیں اور اس کے بعد دو خطابیہ کلمات ہیں۔‘‘اے آئینہ اے روشنی‘‘ اس مصرع میں شاعر کا مفہوم ہم پر مدعائے خداوندی کی طرح روشن ہوجاتا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’اے آئینہ اے روشنی‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔حضور اکرم ؐ نور مجسم کی تخلیق تو مٹی سے ہوئی لیکن آپ کا وجود سراپا روشنی تھا۔ آپ کی صفات کا دائرہ اسمائے الٰہی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ مسدس اپنی ایک فضا رکھتی ہے جو ہمارے شعر و ادب کی مانوس فضا ہے اور فارسی عناصر کے باوجود ازدوکا مخصوص مزاج ہر جگہ برقرار رہتا ہے۔‘‘ وہ ماہنامے بھی جو نعتیہ ادب کے سلسلہ سے کام سرانجام دے رہے ہیں مثلاً ماہنامہ ارمغان نعت ماہنامہ کاروان نعت اور کتابی سلسلے ایوان نعت، دنیائے نعت، راہِ نجات سہ ماہی عقیدت، نعت نیوز، شہر نعت وغیرہ۔آخر میں اس مسدس کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:

خواہشوں کی دھوپ نے جھلسا رکھے تھے خال و خد
کیسا چہرہ، کون سا دل، روح کیسی، کیسا قد
کر چکا تھا آدمی ایک ایک سچائی کو رَد
روشنی سے بے خبر تھا آئینے سے نابلد
آپ نے انساں کو بخشی روح کی بالیدگی
مرحبا صلِ علیٰ، اے آئینہ اے روشنی
۰۰۰
نام کتاب:تقلید (شعری مجموعہ)
موضوع:احمد فراز کی زمینوں میں غزلیں
شاعر:شاعر علی شاعر
ناشر:ظفر اکیڈمی، کراچی
ضخامت:128 صفحات
قیمت: 200 روپے
مبصر: مجید فکری

شاعر علی شاعرؔ میرے نزدیک ایک خوش قسمت شخص ہی نہیں، خوش قسمت شاعر بھی ہیں، میں اپنے اس بیان کی توضیح خود ان کے بیان کردہ الفاظ سے کرنا چاہتا ہوں ’’کوشش کرتا ہوں کہ اپنی بساط کے مطابق میدانِ سخن میں کوئی منفرد کام سرانجام دے سکوں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تروینی پر کام شروع کیا تو عالمی سطح پر اردو تروینی کا اولین مجموعہ بہ عنوان ’’تروینیاں‘‘ میرا ہی قرار پایا۔‘‘

طویل غزلیں کہنا شروع کیں تو ’’غزل پہلی محبت ہے‘‘ کے نام سے طویل غزلوں کا مجموعہ ترتیب پاگیا۔ اس سے پہلے غزل کے پانچ مجموعہ ہائے کلام بالترتیب’’بہارو! اب تو آجائو‘‘، ’’وہ چاند جیسا شخص‘‘، ’’تِرے پہلو میں‘‘، ’’اعلانِ محبت‘‘ اور ’’ہم کلامی‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ پھر ایک اور منفرد کام کی طرف توجہ مبذول کی، ایک ہی بحر میں 100 غزلیں لکھنے پر کمر بستہ ہوگیا، بہت جلد ان تجرباتی غزلوں کا کام پایۂ تکمیل تک پہنچا تو ’’ایک بحر 100 غزلیں‘‘ کے نام سے مجموعہ نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا بلکہ قارئینِ شعر و سخن اور ناقدینِ فن و ہنر سے داد وتحسین بھی وصول پائی۔‘‘

’’مزید اپنے پسندیدہ شاعر احمد فرازؔ کی شاعری سے متاثر ہو کر ان کی زمینوں میں غزلیں کہنا شروع کیں تو پورا مجموعہ بہ نام ’’تقلید‘‘ ترتیب پاگیا‘‘

’’خداکی پناہ! ان کی تخلیقات، تالیفات، تصنیفات، طباعت اور ترتیب وغیرہ کی تعداد اتنی ہے کہ صرف ان کی تعداد لکھتے ہوئے ایک کتابچہ تو یقیناً ترتیب دیا جائے گا۔‘‘

میں نے اپنے ایک تجزیہ میں انہیں ’’رواں لہجے کا شاعر‘‘ کہا تھا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ انہیں شعرو ادب کے خزینہ میں غزل، نظم، قصیدے، تروینی اور جانے کیا کیا…! جمع کرنے کا شوق ہے او ریہ خزانہ ان کے بقول ابھی بھرا نہیں ہے۔ جس کے لئے یہ شب و روز سرگرم عمل ہیں۔ کبھی ایک ہی بحر میں 100 غزلیں کہتے ہیں تو کبھی افسانوں پر افسانے لکھنا شروع کردیتے ہیں۔ بچوں سے پیار جتاتے ہیں تو انہیں نظموں اور گیتوں کے تحفے بخش دیتے ہیں اور جب محبوب کی حسن و دلنوازی ستاتی ہے تو اس کے حسن و ادا کی وہ داستان لکھنا شروع کردیتے ہیں کہ روایتی غزل کی وادی بھی تنگ ہوجاتی ہے۔ مگر یہ غالبؔ کے بقول’’کچھ اور چاہئے وسعت مِرے بیاں کے لئے‘‘ کہتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن میں نے ان کے خزانے میں جس چیز کی کمی دیکھی ہے وہ ہے نظم مخمس، نظم مسدس، سلام و قصائد اور رثاعی شاعری اور میرا مشورہ ہے کہ آپ ان اصناف پر بھی توجہ دیں تاکہ آپ کے عملی ذخائر کی پوٹلی لبالب بھرسکے ۔چاہیں تو یہ خواتین کے ادب اور اُن کی شاعری پر بھی لکھ سکتے ہیں اور ان کے لکھے ہوئے مجموعہ ہائے شاعری کو شرفِ اشاعت بھی بخش سکتے ہیں۔

میں شاید موضوع سے ہٹتا جارہا ہوں۔ بات ہو رہی تھی شاعر علی شاعرؔ کے پیش نظر مجموعۂ شاعری ’’تقلید‘‘ کی تو اس وقت ان کا یہ مجموعہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ شاعر موصوف نے احمد فراز کی زمینوں میں لاتعداد غزلیں لکھ کر بھی ایک انوکھا ، منفرد اور چونکا دینے والا کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ اسی صورت میں کامیاب اور تحسین و ستائش کا حقدار ہوسکتا ہے کہ جب شاعر صاحب نے احمد فراز سے اچھی شاعری نہ سہی ان کے مقابل کی شاعری ضرور کی ہو وگرنہ احمد فراز عرصہ دراز سے چوٹی کے ایک شاعر تصور کئے جاتے رہے ہیں ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد بھی موجود ہے ان کا اندازِ شاعری دوسروں کو بھی بھاتا اور لُبھاتا ہے اور وہ کامیاب شعراء کی فہرست میں اپنا نام ثبت کرچکے ہیں یہ وہ شاعر ہیں جس نے غزل پر اپنا سکہ جمارکھا ہے اور آج تک لوگ اس کی شاعری کے دلدادہ ہیں یہ الگ بات ہے کہ لوگ انہیں فیض کا مقلد اور ان جیسا رویہ رکھنے والا شاعر سمجھتے ہیں۔مگر اس کے باوجود فراز کے سر سے فیض کا (Follower) ہونے کا اثر بھی زائل ہوچلا اور وہ مقبولیت کے اس معیار تک پہنچ گیا کہ جہاں شعرو ادب سے دلچسپی رکھنے والا ایک شخص بھی موجود ہے وہاں فراز موجود ہے۔

میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ شاعر علی شاعرؔ نے ان کے رنگ میں شاعری لکھ کر خود کو کس مقام پر رکھا ہے اور یہ کارنامہ سرانجام دے کر وہ کہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کی پیش نظر شاعری بہ اندازِ فراز کئی مقامات پر ایسی ضرورمحسوس ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ’’خاکم بدہن‘‘ وہ خود کو فراز جیسے کلام والا شاعر کہنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے اپنے مجموعۂ کلام کا نام ’’تقلید‘‘ رکھ کر خود کو بچالیا ہے تاہم ان کی یہ کوشش فراز کے انداز میں شعری کوشش ضرور ہے میں اپنے کلام گسترانہ کے ساتھ شہزاد نیر کو شامل کرلوں تو غیر مناسب نہ ہوگا لکھتے ہیں۔ ان کا مضمون جو پیش نظر کتاب میں’’ غزل در تقلید احمد فراز‘‘ کے عنوان سے شامل ہے ذرا ان کی درج ذیل سطور پڑھئے:

’’شاعر کے ہاں روایتی اندازِ سخن سے وابستگی و پیوستگی زیادہ ہے اور جدت شعری سے رغبت کم… یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ اس کتاب کی غزلیں فراز کی زمینوں میں ضرور ہیں مگر شاعری شاعر کی اپنی ہے…شاعر علی شاعرؔ نے اپنے رنگ ڈھنگ میں، اپنے اندازاور اپنے مضامین کی شاعری کی ہے یا یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعر نے فراز کی زمینوں میں اپنا ’’ہل‘‘ چلایا ہے۔‘‘

مجھے شہزاد نیرصاحب کا یہ اندازِ تخاطب قطعاً پسند نہیں آیا کیونکہ یہ تبصرہ شاعرؔ موصوف کی بھی ہمت شکنی اور ان کی اس کوشش کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہوگا جو انہوں نے زمینِ فراز میں کی ہے۔بہر حال، یہ شاعر علی شاعرؔ اور شہزاد نیر کا معاملہ ہے میں تو شاعر کی اس کوشش کو ایک کامیاب، سراہے جانے کے قابل، علمی لیاقت کا اعلیٰ استعمال اور شعری بصیرت کا اعلیٰ نمونہ گردانتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ شاعر علی شاعرؔ بقول ذوق یہ کہہ سکتے ہیں کہ:

نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
یا پھر:
شعر اپنے بھی ہیں پُر درد لیکن حسرتؔ
میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں سے لائوں

مگر پھر بھی شاعر علی شاعرؔ نے فرازؔ کی تقلید کا کامیابی سے دفاع کیا ہے لیکن اس سے قطعاً یہ اندازہ نہیں لگانا چاہئے کہ انہوں نے فرازؔ کی زمینوں میں شعر کہہ کر خود کو فرازؔ جیسا شاعر سمجھنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی ان کی شاعری سے فرازؔ کی شاعری پر کوئی حرفِ غلط آیا ہے نہ خود شاعر علی شاعرؔ کی شاعرانہ عظمت میں کوئی فرق آیا ہے انہیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے اور جس قدر ہو وہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھانے سے گریز کریں جس سے باہمی چپقلش کا شائبہ ہو۔فرازؔ کی زمین میں شاعر علی شاعرؔ کے اشعار دیکھئے:

ہونے والا ہے تِرا ہجرت بھی رخصت مجھ سے
شاید اب جاں سے گزرجانے کا موسم آیا
شہرِ آشوب ہے ہر نظم و غزل شاعرؔ کی
ان میں ذکرِ لب و رخسار تو کم ہونا تھا
ہرے بھرے ہیں کھیت یہاں ہریالی ہے
اُڑتے پرندے آپ اُتر جاتے ہیں
ہر کوئی مجھ کو ستانے آئے
اُس کی تصویر دکھانے آئے
اپنے دامن کی طرف کیوں نہیں کرتے یہ نظر
چاک دامن ہے مِرا لوگ پریشاں کیوں ہیں


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی! وجود بدھ 30 اپریل 2025
ایٹمی جنگ دنیا کوجھنجھوڑ کے رکھ دے گی!

خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے! وجود منگل 29 اپریل 2025
خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے!

بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر وجود منگل 29 اپریل 2025
بھارت کا جھوٹی خبریں پھیلانے میں اول نمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر