... loading ...
یہ دسمبر 2008ء کی بات ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت دو روزہ قومی اہل قلم کانفرنس کے اختتام پر ایک مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرہ قومی سطح کا ہو تو شاعروں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اسی سے زیادہ تھے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں کے شعرا طے شدہ پروگرام کے مطابق اپنے اپنے ’’ حلقہ داد رساں‘‘ کے ساتھ شریک بزم تھے۔ ایسے میں کراچی کی ایک منحنی سی نوجوان خاتون کو کسی فیاضانہ تعارف کے بغیر حمیرا راحت کے نام سے اسٹیج پر بلایا گیا۔ خاتون نے بڑی سادگی کے ساتھ دھیمی آواز میں (جوان کی جسامت سے میل کھارہی تھی) تحت اللفظ اپنا مصرع آواز کی لہروں پر بکھیر دیا۔ اسے اٹھانے والا کوئی نہ تھا لیکن اس کی ضرورت بھی نہیں پیش آئی کیونکہ مصرع برقی رو کی طرح سامعین کو جھنجھوڑگیا اور پوراہال واہ واہ سبحان اللہ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ حمیرا کہہ رہی تھیں۔
ہر ایک خواب کی تعبیر تھوڑی ہوتی ہے
اور جب انہوں نے بڑے بھولے انداز میں شعر مکمل کیا:
محبتوں کی یہ تقدیر تھوڑی ہوتی ہے
تو کئی سو افراد سے بھرا ہوا ہال پوری طرح ان کے قابو میں آچکا تھا اور ساری لابیاں دم توڑ چکی تھیں۔ حمیرا پڑھتی رہیں:
پلک پہ ٹھہرے ہوئے اشک سے کہا میں نے
ہر ایک درد کی تشہیر تھوڑی ہوتی ہے
سفر یہ کرتے ہیں اک دل سے دوسرے دل تک
دکھوں کے پائوں میں زنجیر تھوڑی ہوتی ہے
دعا کو ہاتھ اٹھائو تو دھیان میں رکھنا
ہر ایک لفظ میں تاثیر تھوڑی ہوتی ہے
حمیرا نے غزل ختم کی تو مجمع نے ’’ ونس مور‘‘ کی صدائیں بلند کیں ( جو دراصل ’’ ون مور‘‘ کا بدل ہوتی ہیں)لیکن چونکہ وہاں شاعروں کی بہتات کے باعث پانچ سے زیادہ شعر پڑھنے پر پابندی تھی لہٰذا یہ UNASSUMING (سادہ لوح) قسم کی شاعرہ اطمینان سے مشاعرہ لْوٹ کر لوٹ آئی۔
کراچی سے تعلق ہونے کے باوجود یہ میرا حمیرا راحت سے پہلا باقاعدہ تعارف تھا جو تادیر یاد رہے گا۔ اب جوان محترمہ کا تازہ ترین (دوسرا) مجموعہ کلام ’’ تحیر مشق‘‘ منظر عام پر آیا ہے تو میں نے اس میں انہیں کھوج نکالنے کی کوشش کی۔ میں نے کتاب کورسے کور تک پڑھی۔ مجھے ان کی شاعری میں ٹھہرائو، تحمل، استقامت اور کسی حد تک خودسری کے عناصر ملے اور کہیں بھی صنفی بنیاد پر کسی بھی احساس کمتری، خود ترسی یا خودسپردگی کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔ یہ اشعار میرے اس مشاہدے کی تصدیق کریں گے:
یہ ناز ہے، کوئی ناداں میرا دوست نہیں
ہے مجھ کو فخر کہ دشمن ذہین رکھتی ہوں
٭
بناتی ہوں یہاں پر خود ہی میں قانون اپنے
تمہاری حکمرانی سے کہیں آگے کھڑی ہوں
٭
مرے نزدیک آ کر دھیان سے سن
مرے اندر سمندر بولتا ہے
٭
تھی زخم زخم مگر خود کو ٹوٹنے نہ دیا
سمندروں سے سوا حوصلہ چٹان میں تھا
شاعرہ کے اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اپنی (مفروضہ) بے بضاعتی میں بھی بے نیازی کا پہلونکال لیتی ہے:
اب ستارہ ہوں نہ شبنم نہ گلاب
اب کبھی دیکھ تو آ کر مجھ کو
یہ اعتماد اس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے جب وہ ظاہری اسباب کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہتی ہے:
چھت کے ہوتے ہوئے بھی چھائوں سے محروم ہوںمیں
ایک برگد مری انگنائی میں رکھ دے کوئی
حزنیہ مضامین کے اظہار میں بھی حمیرانے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا ہے:
کرب، اداسی، درد، جدائی، شام
آنگن میرا اور پرائی شام
٭
دنیا کبھی نہ جان سکی مرے کرب کو
پلکوں کو تیرے غم میں بھگونے کے باوجود
اب ذرا آرائش حسن میں ’’ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا‘‘ کا یہ انداز دیکھیے:
کسی حرف ستائش کی طلب دل میں نہیں ہے
میں خود اپنے لیے سجنا سنورنا چاہتی ہوں
ہجرو وصال کی کیفیات حمیرا کے ہاں اکثر ساتھ ساتھ چلتی ہیں:
ہجر کی شب ہو یا ساعت وصل ہو
اس میں ہر شخص کا تجربہ اور ہے
٭
وصل اور ہجر کی حدوں سے پرے
جسم اور جان سے نکل آئی
خواہشات اور آرزوئوں کا بیان اردو شاعری میں قدما سے لے کر موجودہ عہد کے شعرا تک کے یہاں پایا جاتا ہے اور اس کی بنیاد نفسیات کے اس اصول پر ہے کہ آرزوئیں، خواہشیں اور تمنائیں لامحدود ہیں۔ دل ان سے کبھی خالی نہیں رہتا۔
حمیرا بجا طور پرکہتی ہیں:
آج تک کوئی بھی نہ جان سکا
آرزو کی اڑان کتنی ہے
’’ تحیر عشق‘‘ میں اکثر مقامات پر دور حاضر کے چند حقائق کی عکاسی ملتی ہے۔ کوئی بھی GENUINE شاعر ان کی طرف سے پہلو تہی کرکے دل میں اتر جانے والا شعر تخلیق نہیں کرسکتا۔ حمیراکے یہ اشعار منہ سے بول رہے ہیں:
ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں ہم لیکن
تم میرے لہجے کے دکھ سے ناواقف ہو
٭
میں اپنا سر جھکا دیتی ہوں ہر اک ظلم کے آگے
بہو ہوں، چولہا پھٹنے کی خبر، بننے سے ڈرتی ہوں
٭
ہے چلن کتنا عجب یہ کہ مرے عہد میں لوگ
بیج بوتے نہیں مٹی میں ثمر مانگتے ہیں
اور یہ شعر دیکھیے، معلوم ہوتا ہے خاص متاثرین سوات کے لیے کہا گیا ہے:
رستا بھی کٹھن اور مسافت بھی عجب تھی
اپنے ہی وطن میں مری ہجرت بھی عجب تھی
’’ دیوان غالب‘‘ کے پہلے شعر (نقش فریادی …) کی طرح سراج اورنگ آبادی کی ایک مشہور غزل (خبرِ تحیر عشق …) کا مطلع بھی شعری مجموعوں کے ناموںکے ضمن میں شعرا کا HOT FAVOURITE رہا ہے۔ کئی ایک کتابوں کے نام اس کے مختلف اجزا سے مستعار ہیں۔ زیر نظر مجموعہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں ایک پوری غزل اسی زمین میں موجود ہے جو بہت جاندار اور اثر انگیز ہے۔ ایک شعر بطور نمونہ حاضر ہے:
کسی عکس میں اسے ڈھالتے کبھی آئینے سے نکالتے
یہی آرزو تھی جو عمر بھر مرے طاق دل میں دھری رہی
عمومی طور پر شاعرہ میر سے بہت متاثر نظر آتی ہے۔ کئی اشعار میں میر سے عقیدت کا اظہار کیا گیا ہے مثلاً:
کیوں یہ اداسی دل آنگن میں آ کر بیٹھ گئی
کیوں تیرے شعروں میں بول رہا ہے میر کا دکھ
٭
اسے بھی زندگی کرنی پڑے گی میر جیسی
سخن سے گر کوئی رشتہ نبھانا چاہتا ہے
انہوں نے تقریباً دو درجن کے قریب نظمیں بھی لکھی ہیں اورسب کی سب مضامین کی تازگی اور اسلوب کی انفرادیت کی آئینہ دار ہیں۔ ان میں طنز بھی ہے اور کہیں کہیں معاشی، معاشرتی، سیاسی اور ادبی رجحانات پر کٹیلا تبصرہ بھی۔ بعض نفیس بیانیہ اور تاثراتی رنگ لیے ہوئے ہیں جنہیں بہت دل گداز پیرایے میں لکھا گیا ہے۔’’ تنقیدی نشست ‘‘کے عنوان سے ایک نظم میں اس دورکے ادبی منظرنامے کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے دو حصوں پر مشتمل اس نظم کے پہلے حصے میں شہر کے ایک معروف شاعر نے اپنی نظم اہل بصیرت ناقدین کے سامنے پیش کی ہے۔ یہ سرد مہری کے ساتھ سنی جاتی ہے اور بعدازاں (شاعر کی دل شکنی کی غرض سے) اس غریب کو چند بقراطی مشوروں سے نوازا جاتا ہے۔ اسی نظم اوراسی نشست کے دوسرے حصے میں کوئی صاحب اپنی غزل سناتے ہیں تو شروع ہی سے ان پر دادو تحسین کے ڈونگر یبرسنے لگتے ہیں۔غزل کے ہر لفظ میں معانی و مفہوم کا سمندر دریافت کرلیا جاتا ہے اور بالآخر انہیں میر اور غالب کے شانہ بہ شانہ لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ غزل انتہائی روح پر ور ماحول میں اختتام پذیر ہوجاتی ہے تو شاعرہ قوسین میں اپنے قاری کو مطلع کرتی ہے ’’یہ غزل جو بہت قابل داد ٹھہری، یہ معروف شاعر کی تھی۔ آپ امریکا سے آئی ہیں۔‘‘
رقم الحروف ایسے متعدد ادب کش مناظر کا چشم دید گواہ ہے۔ اسے اس ’’اعتراف جرم ‘‘میں بھی کوئی تامل نہیں کہ وہ ایسے بہت سے عصرانوں اور عشائیوں میں شرکت کا شرف حاصل کرچکا ہے جوان بدیسی شاعروں پر بصد عجزوانکسار نچھاور کیے جاتے ہیں۔ بہر حال میں چونکہ شاعر نہیں ہوں اس لیے یہ حقائق ریکارڈ پر لاتے وقت ہر قسم کے احساس محرومی سے آزاد ہوں۔ محترمہ حمیرا
راحت اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ نظم لکھ کر انہوں نے امریکا میں مشاعرہ پڑھنے کے اپنے امکانات اگر معدوم نہیں تو مدھم ضرور کرلیے ہیں۔
حمیرا کا کلام پڑھ لیا اوران کے اس موقف کا قائل ہوگیا:
خواہش کی لو ، شوق کی شدت، کار ہنر سچ بولتا ہے
شاعر چاہے جھوٹ ہی بولے شعر مگر سچ بولتا ہے
یہی بات قتیل شفائی نے اس طرح کہی تھی:
لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے شاعری سچ بولتی ہے
’’ تحیرعشق‘‘بلاشبہ ایک ایسا شعری مجموعہ ہے جو اپنے قاری کی فکر کو جلا بخشتا ہے یہ ایک سلجھی ہوئی شاعرہ کا سلجھا ہوا کلام ہے جس میں کوئی ابہام یا ایہام نہیں۔ شاعرہ نے جو کچھ کہا ہے پورے CONTICTION کے ساتھ کہا ہے اس لیے وہ ایک عام انسان کے تجربات و مشاہدات سے قریب تر ہے جہاں کہیں اس کالہجہ قدرے تند ہوا ہے وہاں بھی بین السطور اس کا خلوص صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب اس حقیقت کی بھی مظہر ہے کہ حمیرا غزل اور نظم دونوں اصناف میں یکساں روانی ، سلاست اور بڑی حد تک بلاغت کے ساتھ اپنے آپ کو EXPRESS کرسکتی ہیں۔ کتاب کی پیشکش بھی لائق ستائش ہے میں امید کرتا ہوں کہ شائقین ادب اور ناقدین فن اسے ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...
طوفانی بارشوں کے باعث المواصی کیمپ میں پوری کی پوری خیمہ بستیاں پانی میں ڈوب گئیں مرنے والوں میں بچے شامل،27 ہزار خیمے ڈوب گئے، 13 گھر منہدم ہو چکے ہیں، ذرائع اسرائیلی بمباریوں کے بعد اب طوفانی بارشوں اور سخت سردی نے غزہ کی پٹی کو لپیٹ میں لے لیا ہے، جس سے 12 افراد جاں بحق او...
اس بار ڈی چوک سے کفن میں آئیں گے یا کامیاب ہوں گے،محمود اچکزئی کے پاس مذاکرات یا احتجاج کا اختیار ہے، وہ جب اور جیسے بھی کال دیں تو ہم ساتھ دیں گے ،سہیل آفریدی کا جلسہ سے خطاب میڈیٹ چور جو 'کا کے اور کی' کو نہیں سمجھ سکتی مجھے مشورے دے رہی ہے، پنجاب پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ بن...
مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے، البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا وزیراعظم کا یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی، تحفظ کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں...