... loading ...
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی سرزمین دنیا کے حسین ترین مناظرسے بھری پڑی ہے ،اور حکومت کی جانب سے ان علاقوں پر مناسب توجہ نہ دئے جانے کے باوجود ان علاقوں کودنیا کے حسین ترین مناظرکاحامل مقام قراردیا جاسکتا ہے ، ایبٹ آباد کا شمار بھی ایسے ہی علاقوں میں ہوتا ہے ،ایبٹ آباد کاشمار پاکستان کے حسین ترین شہروں میں ہوتا ہے اور یہ غالباً پاکستان کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جو اب بھی قدیم روایات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیںیہاں قدیم روایات سے میری مراد قبائلی یا تہذیبی روایات سے نہیں ہے کیونکہ تہذیبی روایات اور قبائلی طور طریقے تو پاکستان کے چپے چپے پر موجود ہیں اور صدیوں سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، یہاں قدیم روایات سے میری مراد نظم و ضبط سے متعلق روایات سے ہے ۔
ایبٹ آباد ہمارے ملک کاایک ایسا شہر ہے ، جہاں زندگی میں نظم وضبط موجود ہے ، گزشتہ سال موسم گرما کے دوران مجھے تین مرتبہ ایبٹ آباد جانے کا اتفاق ہوا،ایبٹ آباد کی پہلی ہی سیر کے دوران ہی لوگ اس شہر کے حسن کے اسیر ہوجاتے ہیں، بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ شہر برطانوی فوج کے میجر جیمز ایبٹ نے 1853 میں آباد کیا تھا ، اور ان ہی کے نام پر اس کا نام ایبٹ آباد رکھا گیا ۔
آج اس شہر کا شمار ملک کے جدید ترین شہروں میںہوتا ہے ،قیام پاکستان سے قبل چند ہزار نفوس پر مشتمل اس شہر کی آبادی اب 10لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اس شہر میں تمام بڑے ہوٹل اور فوڈ پوائنٹس موجود ہیں ، جن میں مکڈونلڈ ، کے ایف سی، بیسٹ ویسٹرن اور پرل کانٹی نینٹل شامل ہیں ، اس کے علاوہ دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بھی یہاں دفاتر موجود ہیں ،اس شہر کی خوبی یہ ہے کہ اس شہر میں آج بھی برطانوی دور کی اچھی روایات پر عمل کیا جاتا ہے اور یہاں صرف برطانوی دور میں تعمیر کی گئی عمارتیں ہی نہیں ہیں بلکہ تعلیمی اعتبار سے بھی اس شہر کے تعلیمی اداروں کا معیار ملک کے دوسرے بہت سے شہروں سے بہتر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ہے ۔
ایبٹ آباد میں چھائونی کا علاقہ اب بھی میجر ایبٹ کے دور کی تعمیر کردہ عمارتوں پر ہی مشتمل نظر آتا ہے وہی بڑے بڑے بنگلے ، یورپی طرز کی اونچی عمارتیں ، برٹش کلب ، چرچ اور برطانوی دور کا قبرستان سب کچھ ویسا ہی ہے ۔
ایبٹ آباد کو شمالی علاقوںمیں داخل ہونے کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے ، اسلام آ باد سے شمال کی جانب کم وبیش دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع اس شہر کے چاروں طرف خوبصورت اور سرسبز پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آتی ہیں،یہاں جنگلات سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں سے آنے والی ہوا میں بھی ایک خاص قسم کی خوشبو ہوتی ہے ۔
ایبٹ آباد صوبہ سرحد کا موسم گرما کا دارالحکومت ہے موسم گرما میں صوبائی حکومت کے تمام کام اسی شہر سے ہوتے ہیں،اس شہر کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ جہاں موسم سرما میں ملک کے دوسرے پہاڑی شہر سخت سردی کی وجہ سے ویران ہوجاتے ہیں وہیں اس شہر کی رونق میں کوئی کمی نہیں آتی کیونکہ اس شہر کا موسم نسبتاً معتدل ہوتا ہے ۔اس شہر میں خوبصورت باغیچے اور پارک ہیں اور سڑک کے دونوں جانب اونچے اونچے درختوں کی قطار نظر آتی ہے ،یہاں بڑے بڑے سرسبز میدان ہیں جہاں گولف ، پولو ، ہاکی اور فٹبال کھیلا جاتا ہے ۔
ایبٹ آباد کا شہر سطح سمندر سے کم وبیش 4300 فٹ کی بلندی پر واقع ہے تاہم یہ شہر مری کی پہاڑیوں سے نیچے ہے ، لیکن اس کے باوجود اس شہر میں گلگت کے پہاڑی علاقے کی تمام خوبیاں موجود ہیں ،اور شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے باوجود ایبٹ آباد اب بھی شمالی علاقوں کو جانے کے لیے راہداری کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس شہر سے کوئی بھی ہنزہ ، گلگت، اسکردواور قراقرم کے سلسلے میں کوہستان تک جاسکتا ہے ۔یہاں سے سوات ، دیر ، چترال اور کوہ ہندو کش کے سلسلے تک بھی جایا جاسکتا ہے اور ناران، جھیل سیف الملوک ، شوگران، کوہ ہمالیہ کے بابو سر پاس بھی جایا جاسکتا ہے ۔وادی نیلم ، لیپا اور وادی جہلم بھی ایبٹ آباد سے منسلک ہیں ۔
ہزارہ کے علاقے سے برآمد ہونے والے سکوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ علاقہ پہلی صدی قبل مسیح سے آباد چلا آرہا ہے لیکن ایبٹ آباد کا شہر میجر جیمز ایبٹ نے 1853 میں آباد کیا۔میجر جیمز ایبٹ کو 1853 میں اس علاقے کا ڈپٹی کمشنر بنا کر بھیجا گیا تھا اور ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس خوبصورت لیکن دشوار گزار علاقے پر برطانیا کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے انتظامی بنیاد رکھیں۔اس مقصد کے لیے میجر جیمز نے اس پورے علاقے کا پیدل دورہ کیا اور مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا بالآ خر اس نے ایک جگہ جو کہ سطح سمندر سے کم وبیش 4120 فٹ بلندی پر واقع تھی اور چاروں طرف سے برف پوش پہاڑوں سے گھری ہوئی تھی اپنے خیمے گاڑنے کی ہدایت کی۔یہ ایسی جگہ تھی جہاں پورے سال قیام ممکن تھا اور شمالی علاقوں سے اس کا فاصلہ دنوں کا نہیں بلکہ گھنٹوں کا تھا۔
میجر جیمز برطانوی فوج کے ان اعلیٰ افسران میں شامل تھا جس نے اس خطے پر برطانوی حکومت کو مضبوط ومستحکم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔اس نے مقامی حالات ، روایات ، تاریخ مقامی لوگوں کی عادات و اطوار کا اچھی طرح مشاہدہ کیا وہ اس پورے ضلع کے لوگوں کی عادات اور پسند و ناپسند سے اچھی طرح واقف تھا۔ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ساتھ ہی وہ ایک اچھا محقق، زبان دان ، مورخ اور ماہر ارضیات بھی تھا ۔یہی وجہ ہے کہ میجر ایبٹ کے دورے کی رپورٹیں جنھیں اس کے سفر نامے بھی کہہ سکتے ہیں آج بھی انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہیں ۔میجر ایبٹ کم وبیش 8 سال تک اس علا قے میں رہا جس کے بعد اس کے تبادلے کے احکامات آگئے اپنے تبادلے کے احکام پر وہ بہت رنجیدہ ہوا اور اس نے ایک نظم کہی جو آج بھی ایبٹ آباد کے کئی تاریخی مقامات پر اس کے اردو ترجمے کے ساتھ آویزاں نظر آتی ہے ۔اس نے اس نظم میں بڑے حسرت بھر ے لہجے میں لکھا ہے کہ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں یہاں آیا تھا اور میری ناک میں اس خطے کی خوشبو دار ہوا گئی تھی جس نے میرا تن من معطر کردیا تھا۔میرے لیے یہ جگہ خوابوں کی سرزمین ہے ،پہلی ہی نظر میں میں اس جگہ کے حسن کا اسیر ہوگیا تھا،میں اس بات پر بہت خوش تھا کہ مجھے یہاں بھیجا گیا ، 8سال دیکھتے ہی دیکھتے گزر گئے اس تیزی سے گزرے کہ پتہ ہی نہیں چلا ۔آہ ایبٹ آباد میں آج تجھے چھوڑ کر جارہا ہوں اور اب شاید تیری ہوائوں کی سنسناہٹ کبھی میرے کانوں سے نہیں ٹکرائے گی ،میرے آنسو تیرے لیے تحفے کے طور پر پیش ہیں۔میں تجھے بڑے بوجھل دل کے ساتھ الوداع کہتا ہوں،میرے ذہن سے تیری یادیں کبھی محو نہیں ہوں گی ۔
اس شہر میں جگہ جگہ میجر ایبٹ کے دور کی یادگاریں ملتی ہیں،یہاں اس دور کے تیار کردہ سرسبز گہوارے ہیں ، ہرے بھرے راستے اور پگڈنڈیاں ہیں جو پہاڑوں پر جانے کے لیے بنائے گئے تھے اور اب تک موجود ہیں ۔اس سے مزید شمال کی طرف سفر کرتے ہوئے آپ اوگی کے قریب سیاہ پہاڑوں کی جانب جاسکتے ہیں اور مانسہرہ کے قریب بریری کے پہاڑیوں کی چٹانوں پر اشوک کے زمانے کی تحریر دیکھ سکتے ہیں ۔یا پھر کسی اونچی پہاڑی پر بیٹھ کر الیاسی مسجد کا نظارہ بھی کرسکتے ہیں۔یہاں سیاحوں کی دلچسپی کی سب سے زیادہ مشہور جگہ ٹھنڈیانی ہے جسے مقامی زبان میں ٹھنڈی جگہ کہتے ہیں ۔
ایبٹ آباد میں ملک کے کئی معروف تعلیمی ادارے موجود ہیں جس کی وجہ سے ایبٹ آباد کو سیکھنے کا شہر اور شہر علم بھی کہا جاتا ہے اس کے علاوہ یہ شہر آبادگاروں کا شہر بھی کہلاتا ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے جہاں مقامی آبادی کے علاوہ افغان ، کشمیری ، اور ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے علاوہ بڑی تعداد میں دہلی کی برادری کے لوگ بھی آباد ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو 1857 کی جنگ آزادی کے دوران دہلی چھوڑ کر اس شہر میں آئے اور پھر یہیں کے ہورہے ، اس کے علاوہ یہاں بوہری برادری کے لوگ بھی موجود ہیں ، یہاں مسیحی برادری کے لوگ بھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں ۔شہر میں ہر مذہب کے عبادت خانے ہیں جن میں بہائی مذہب کا ایک بہائی ہوم بھی موجود ہے ، اس شہر میں تمام مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ مل جل کر بھائی چارے کے ساتھ رہتے ہیں ۔یہاں کے لوگوں میں صبر وتحمل بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں تمام مذاہب اور مسالک کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں ۔ملک کی بہت سی معروف شخصیات کا تعلق اسی شہر سے رہا ہے جن میں ایوب خاں ، یحیٰ خاں ، اور ایئر مارشل اصغر خاں شامل ہیں ۔
اگرچہ بہت سے اہم اور بااثر لوگ اب بھی اس شہر میں رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس شہر کے چاروں طرف موجود پہاڑیوں پر سے درختوں کی بے تحاشہ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے اس شہر کے موسم پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں اور اب یہ شہر پہلے کے مقابلے میں زیادہ گرم ہوگیا ہے اور اس کی مخصوص ہوا سے وہ خوشبو غائب ہوتی جارہی ہے جو اس شہر کی پہچان تھی جس کی وجہ سے ایک دفعہ اس شہر میں آنے والا شخص کبھی اس کو بھلا نہیں پاتا تھا۔اس صورت حال کی وجہ سے اب اس شہر میں جہاں لوگ پنکھے بھی گھروں میں نہیں لگواتے تھے اب ایئر کنڈیشنر اس شہر کی بھی ضرورت بن گئے ہیں ۔کاش جنگلات کی اس چوری کو روکنے کا کوئی موثر انتظام کیا جاسکتا ۔
اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...