... loading ...
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، دنیا بھر میں 15 خواتین بر سرِ اقتدار ہیں جن میں سے 8 اپنے ملک کی پہلی خاتون رہنما ہیں۔جن میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اپنی سیاست اور سفارتکاری کے اعتبار سے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اور میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی اپنی سفاکی ، بے رحمی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں،پوری دنیا میں صرف خواتین بر سرِ اقتدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خواتین رہنما اقوام متحدہ کی 193 رکن ریاستوں میں سے 10 فیصد سے کم کی نمائندگی کر رہی ہیں۔امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں چاروں شانے چت ہونے والی امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جولائی 2016 میں ڈیموکریٹس کی نامزدگی کے بعد کہاتھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم نے روایتی بندھنوں کو توڑنے کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ امریکی انتخابات کے دوران لڑکیوں میں کوئی رات دیر تک یہ دیکھنے کے لیے جاگ رہی ہوکہ میں اگلی خاتون صدر بن سکتی ہوں ، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگلی اان میں سے کوئی ایک ہو گی’۔
یاوٹس سینٹر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک شہر میں اس کی سب سے بڑی شیشے کی چھت ہے، اور امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون صدر بننے کے لیے یہ بہترین انتظام تھا۔لیکن ہیلری کلنٹن کی شکست نے رجحان کو بدلنے نہیں دیا، گذشتہ ایک دہائی میں عالمی سطح پر منتخب شدہ برِسر اقتدار خواتین کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسی خواتین جنھیں خاتون رہنما میسر ہیں ان کی امنگیں زیادہ ہیں۔تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر منتخب خواتین بلاشبہ روایات اورروایتی بندھنوں کو توڑ رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے ملکوں کی دیگر خواتین کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں؟ بھارت کی مقامی حکومتوں میں سیاسی کوٹے کے نظام سے اس بارے میں کوئی اندازہ لگایاجا سکتا ہے یا اس حوالے سے اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 1993 سے اب تک، بے ترتیب انداز میں منتخب شدہ 3 میں سے ایک بھارتی گاؤں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاتون کے لیے چیف کونسلر کا عہدہ مخصوص کرے جو کہ قدرتی طور پر ایک سماجی تجربہ ہے۔
2012 میں ہزاروں انڈین نوجوانوں اور ان کے والدین پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ خاتون رہنما اور گاؤں کی نوجوان خواتین کی اولین خواہشات کا باہمی تعلق ہے۔جب والدین سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے کیا چاہتے ہیں، اس عمر میں جب ان کا پہلا بچہ ہوا اور جب اس کی ملازمت کے امکانات پیدا ہوئے تو زیادہ تر والدین نے اپنے بیٹوں کے لیے اعلیٰ خواہشات کا اظہار کیا۔لیکن ایک بار جب گاؤں میں خاتون رہنما دو انتخابی مدتیں پوری کر چکی تو والدین کی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ‘خواہشات کا فرق’ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھیں خاتون کی رہنمائی میسر نہیں رہی، کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا ہے۔خود نوجوانوں کے لیے بھی، یہ صرف 32 فیصد ہو گیا۔ جب خاتون نگران تھیں تب بھی لڑکوں سے توقعات کم نہ ہوئیں، لہٰذا یہ معمولی فرق لڑکیوں کے لیے بہترین خواہشات سے مجموعی طور پر کم ہی رہا ہے۔
اس تحقیق کے مصنف کے مطابق خواتین رہنماؤں کو پالیسی کے ذریعے عورتوں کے حالات بدلنے کی محدود گنجائش حاصل رہی ہے۔ لیکن مثبت کردار کے نمونے کے طور پر ان کی موجودگی ان کے ارد گرد نوجوان خواتین کی خواہشات اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کافی تھی۔
2012 میں کی گئی ایک سوئس تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ مثالی شخصیت، خواتین کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہے جب وہ قیادت کرنے کی صورتحال سے گزرتی ہیں، چاہے وہ مثالی شخصیت ان سے دور ہو۔تحقیق کے مصنف نے لڑکوں اور لڑکیوں کو ورچوئل ریالٹی کے حامل ماحول میں چار مختلف گروپوں کی شکل میں تقریر کرنے کی دعوت دی۔ ایک کو جرمن چانسلر اینگلا مرکل کی تصویر دیوار پر نظر آئی، ایک گروپ کو ہیلری کلنٹن (اس وقت وہ وزیر خارجہ تھیں)، ایک کو دیوار پر بل کلنٹن دکھائی دیے اور ایک کو سرے سے کوئی تصویر نہیں دکھائی گئی۔
لڑکیوں نے مرد سیاست دان یا کسی بھی مثالی شخصیت کی غیر موجودگی کے مقابلے میں، کامیاب خاتون سیاست دان کے سامنے نمایاں طور پر زیادہ لمبی تقریر کی۔ اور جتنی زیادہ لمبی تقریر کی انھوں نے اپنی اتنی ہی زیادہ مثبت درجہ بندی کی۔سوئس تحقیق کے مصنف نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ‘یہ صرف خواتین سیاست دانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ یہ مساوات کا ہدف بھی ہے، یہ وہ انجن بھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہو۔‘
یہ اعداد و شمار اس تصور کو تقویت بخشتے ہیں کہ سیاسی کرداروں میں خواتین کی صرف موجودگی کو روزمرہ کی زندگی میں وسیع مساوات سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔عالمی اقتصادی فورم نے اپنی ‘گلوبل جینڈر گیپ’ نامی رپورٹ میں چار کلیدی عناصر کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے جس میں صحت اور بقا، تعلیم کا حصول، معیشت میں شرکت اور سیاست میں شمولیت شامل ہیں۔سنہ 2016 میں آئس لینڈ، فِن لینڈ اور ناروے وہ ممالک تھے جن کا مجموعی صنفی فرق کم ترین سطح پر تھا اور وہاں سیاست میں عورتوں کی شمولیت کا بھی زیادہ امکان تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں جہاں خواتین کو سیاست میں نمائندگی ملتی ہے وہاں وہ زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔خواتین رہنماؤں اور ان کی خواتین ہم منصبوں کی زندگی کے حالات میں بہتری کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔یہ جزوی بات ہے کیونکہ گذشتہ صدی میں تقریباً ہر ملک میں صنفی مساوات بہت بہتر ہوئی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہاں خاتون رہنما رہی ہیں یا نہیں۔اس کے علاوہ، کئی خواتین کو حال ہی میں منتخب کیا گیا یا پھر وہ کم عرصے تک ہی رہنمائی کر سکیں اس لیے ان کی پالیسیوں کے براہ راست اثرات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔البتہ، جو ثبوت ہمارے پاس ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو خواتین روایتی بندھنوں کو توڑ سکیں انھوں نے اپنی ہم وطنوں کی اْمنگوں میں اضافہ کیا۔ اور ان کے ملکوں میں خواتین کے لیے بہتر معیار زندگی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبے میں اوسطً 43 فیصد افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے اور ماہرین کے خیال میں گذشتہ دو دہائیوں میں زرعی شعبے میں خواتین کے کام کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کے ’واضح شواہد‘ موجود ہیں کہ زراعت میں خواتین کا کردار بڑھا ہے کیونکہ خواتین کے اس شعبے میں آنے کے بعد مرد زرعی شعبے میں اب نوکریاں نہیں کر رہے ہیں۔بین الاقوامی ادارہ محنت کے اعداد و شمار کے مطابق اقتصادی طور پر سرگرم خواتین کی ایک چوتھائی تعداد زرعی شعبے سے منسلک ہیں۔گو کہ ان اعداد و شمار میں علاقائی طور پر فرق پایا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملازمت فراہم کرنے میں زرعی شعبے کا اہم کردار ہے لیکن امیر اور غریب ممالک میں یہ شرح مختلف ہے کیونکہ امیر ممالک میں مرد و خواتین صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں ملازمت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ زرعی شعبے میں خواتین کا کردار کہاں بڑھا ہے؟یہ رجحان سب سے زیادہ شمالی افریقہ میں دیکھنے کو ملا جہاں زراعت میں خواتین کا کردار 30 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گیا ہے۔ ایسے ہی رجحانات مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ میں دیکھنے کو ملے۔ جبکہ نیم صحرائی افریقی علاقوں میں زرعی شعبے میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تین دہائیاں قبل یہاں زراعت میں خواتین مزدوروں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہاں پہلے سے ہی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کاشتکاری میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار مثبت اقدام ہے۔ کچھ خواتین خود اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرتی ہیں تو کچھ کسی اور کی زمین پر ملازمت کرتی ہے۔گو کہ خواتین کے اس بڑھتے ہوئے کردار کا مطلب خواتین کا با اختیار ہونا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کی اہم وجہ مردوں کا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بہتر مواقعوں کی تلاش کے لیے شہری علاقوں کا رخ کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس لیے جو خواتین پیچھے رہ جاتی ہیں انھیں اکثر زمینوں پر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔زرعی شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے لیکن اْن کی ملازمت کی نوعیت اکثر غیر واضح ہوتی ہے۔ خواتین اکثر اوقات جز وقتی ملازمت کرتی ہیں۔
عالمی بینک کے تجزیے کے مطابق تنخواہ دار خواتین کی ملازمتوں میں بھی زیادہ تر نوکریاں مزدوری یا کم ہنر مندی کی ہوتی ہیں۔ انتظامی طور پر موجود محدود آسامیوں پر زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر خواتین کاشت کاری کرتی ہیں تو مارکیٹنگ اور رقم وصولی کی ذمہ داری مردوں کی ہی ہوتی ہے۔دیہی علاقوں میں پانی بھرنے اور ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔تاہم دستیاب شواہد کے مطابق اکثر خواتین کی تنخواہ مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صنف کے لحاظ سے آمدن میں فرق ہے اور 14 ممالک میں خواتین کی اوسطً تنخواہیں مردوں کے مقابلے میں 28 فیصد کم ہیں۔ماہرین کے خیال میں تنخواہوں کے اس فرق کاسبب’پیداوار کا فرق’ ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کاشتکاروں کی پیداوار اوسط پیدوار سے 20 سے 30 فیصد کم ہے اور کم پیداوار کا الزام خانگی امور کی ذمہ داری ادا کرنے پر عائد کیا جاتا ہے۔
یف اے او کا کہنا ہے کہ کئی معاشروں میں گھر بار سنھبالنا اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار خواتین ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں پانی لانا، ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے آمدن کمانے والے ذرائع میں اْن کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ایف اے او کی پروگرام اسسٹنٹ ماریہ لوئیس کے مطابق ‘خواتین کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ روایات کو چیلنج کریں۔’ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ پراسیسنگ اور دوسرے ویلیو ایڈیشن سے معاشرے میں صنفی عدم مساوات کم کی جا سکتی ہے۔ماہرین کاخیال ہے کہ زراعت میں خواتین کی ملازمتیں بڑھنے سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ اس حوالے مالی کی ایک
28 سالہ خاتون تھیرراکاحوالہ دیاجاتاہے وہ کہتی ہیں کہ ‘آج میں کم کاروبار والے سیزن کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوں۔ اب ہم نئی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو ہمیں زیادہ مضبوط بناتی ہیں‘۔یہ خاتون اْن خواتین میں شامل ہیں جنھیں ایف اے او کی جانب سے ’خصوصی زرعی کِٹس’ ملی ہیں جس میں مٹر، باجرہ اور اعلیٰ معیار کی سبزیوں اور پھلوں کے بیج شامل ہیں۔اس نئی تکنیک کی مدد سے مالی کی خواتین اْن اوقات میں آمدنی حاصل کر سکتی ہیں جب اْن کے شوہر ملازمت کے لیے علاقے میں موجود نہیں ہوں گے۔تھیررا نے کہا کہ ‘آئندہ آنے والے مہینوں کے لیے ہمارے پاس اضافی خوراک موجود ہے‘۔دنیا بھر میں کئی تنظمیں اور این جی اوز ایسی تکنیکیں متعارف کروا رہی ہیں جس میں محنت کم کی جائے اور خواتین کو قرضے فراہم کیے جائیں۔ یہ دونوں عناصر چیزوں کو مثبت طور پر بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو سماجی طور پر با اختیار بنانے کے لیے زمین کے ملکیت بہت اہم ہے اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین اور مردوں میں جائیداد کی ملکیت کے قوانین مختلف ہیں۔شواہد کے مطابق کوئی بھی شخص زمین کی ملکیت اور اْس پر کاشتکاری سے بہت با اختیار ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی تو آغاز ہے لیکن زیادہ توجہ سماجی روایات پر دینا ہو گی جو خواتین کو وراثت میں حق دینے کیخلاف ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ خواتین کے کام کرنے سے کسی حد تک معاشرے میں صنفی عدم توازن تو کم ہو گا لیکن اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔
توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کارکنان آپے سے باہر ، قیادت کی جانب سے کارکنان کو نہیں روکا گیا تشدد کسی صورت قبول نہیں،پی ٹی ائی کا معافی مانگنے اور واضع لائحہ عمل نہ دینے تک بائیکاٹ کرینگے، صحافیوں کا اعلان توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان...
پہلے ہی اِس معاملے پر بہت تاخیرہو چکی ہے ، فوری طور پر اقوام متحدہ جانا چاہیے، پاکستان کے دوست ممالک مدد کرنا چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ہوناچاہیے، ملک میں زرعی ایمرجنسی لگائی جانی چاہیے، ملتان میں متاثرین سے خطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ...
محکمہ موسمیات نے اگلے 2 روز میں مزید موسلادھار بارشوں کا امکان ظاہر کردیا،شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت پورٹ قاسم سمندر میں ماہی گیروں کی کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر ڈوب کر جاں بحق جبکہ تین کو بچا لیا گیا، ریسکیو حکام کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں بارش کا سلسلہ وقفے وقفے...
قدرتی آفات کو ہم اللہ تعالیٰ کی آزمائش سمجھ کر اِس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ، امیر جماعت اسلامی چالیس سال سے مسلط حکمران طبقے سے صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ یہ کس کو بے وقوف بناتے ہیں، گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ سیلاب کے نقصانات میں ہمارے حکمرانوں کی...
کسی بھی معاہدے میں اسرائیل کا فلسطین سے مکمل انخلا شامل ہو نا چاہئے ہم اپنے عوام پر جارحیت کو روکنے کی ہر کوشش کا خیرمقدم کرتے ہیں، بیان فلسطینی تنظیم حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی آخری وارننگ کے بعد فوری طور پر مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تی...
بھارت نے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ دیا، مزید سیلابی صورت حال کا خدشہ،متعلقہ اداروں کا ہنگامی الرٹ جاری،ملتان میں ریلے سے نمٹنے کیلئے ضلعی انتظامیہ نے ایک عملی منصوبہ تیار کر لیا ،وزارت آبی وسائل صوبے بھر میں مختلف مقامات پر طوفانی بارشوں کا خطرہ ،پنجاب سے آنیو...
نماز فجر کے بعد مساجد اور گھروں میں ملکی ترقی اورسلامتی کیلئے دعا ئیں مانگی گئیں، فول پروف سکیورٹی انتظامات کراچی سے آزاد کشمیر تک ریلیاں اورجلوس نکالے گئے، فضائوں میں درود و سلام کی صدائوں کی گونج اٹھیں رحمت اللعالمین، خاتم النبیین، ہادی عالم حضرت محمد ﷺ کی ولادت ...
قوم کو پاک فضائیہ کی صلاحیتوں پر فخر ہے،پاک فضائیہ نے ہمیشہ ملکی حدود کا دفاع کیا،صدرآصف علی زرداری پاکستانی فضائیہ ہمیشہ کی طرح ملکی خودمختاری، جغرافیائی سرحدوں اور سالمیت کا بھرپور دفاع کرتی رہے گی،شہبازشریف صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے ...
افواج پاکستان نے 6 ستمبر 1965 کو بھارت کے ناپاک عزائم خاک میں ملائے،امیر جماعت اسلامی پاکستان کسی ایکس وائی زی صدر وزیراعظم یا بیوروکریٹ کا نہیں ہے بلکہ پاکستانیوں کا ہے،میڈیا سے گفتگو لاہور(بیورورپورٹ) جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ بھارت کان کھول ...
6ستمبرشجاعت اور بہادری کاتاریخ ساز دن،شہدا اور غازیوں کے ورثے سے ملنے والی طاقت ، جذبہ اور شجاعت ہماری اصل قوت ہے،محسن نقوی یومِ دفاع ہماری جرات کی روشن علامت ہے،پاک فوج نے ایک طاقت رکھنے والے دشمن کو شکست دی ،غرور کو توڑ کر ملک کا نام روشن کیا،مصطفی کمال وفاقی وزرا نے کہا ہے...
ایٔر فورس ڈے پر پاک فضائیہ کے شہداء کو خراج عقیدت اور غازیوں کی جرأت کو سراہتا ہوں، چیئرمین پیپلز پارٹی 7 ستمبر ہماری تاریخ میں جرأت، قربانی اور پاکستان ایٔر فورس کی بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت کا دن ہے،پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکس...
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟سپریم کورٹ رولز کی منظوری سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟اختلافی نوٹ کو جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طور مشاورت کیوں کی گئی؟ ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟ آپ ججز کوکنٹرولڈ فورس کے طور پ...