وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا بھر میں خواتین کاکردار بڑھ رہاہے

پیر 23 اکتوبر 2017 دنیا بھر میں خواتین کاکردار بڑھ رہاہے

پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق، دنیا بھر میں 15 خواتین بر سرِ اقتدار ہیں جن میں سے 8 اپنے ملک کی پہلی خاتون رہنما ہیں۔جن میں برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے اور جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اپنی سیاست اور سفارتکاری کے اعتبار سے اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد اور میانمار کی سربراہ آنگ سان سوچی اپنی سفاکی ، بے رحمی اور اسلام دشمنی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں،پوری دنیا میں صرف خواتین بر سرِ اقتدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خواتین رہنما اقوام متحدہ کی 193 رکن ریاستوں میں سے 10 فیصد سے کم کی نمائندگی کر رہی ہیں۔امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں چاروں شانے چت ہونے والی امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جولائی 2016 میں ڈیموکریٹس کی نامزدگی کے بعد کہاتھا کہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم نے روایتی بندھنوں کو توڑنے کے لیے ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ ہوسکتاہے کہ امریکی انتخابات کے دوران لڑکیوں میں کوئی رات دیر تک یہ دیکھنے کے لیے جاگ رہی ہوکہ میں اگلی خاتون صدر بن سکتی ہوں ، لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اگلی اان میں سے کوئی ایک ہو گی’۔
یاوٹس سینٹر کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ نیو یارک شہر میں اس کی سب سے بڑی شیشے کی چھت ہے، اور امریکہ کی تاریخ میں پہلی خاتون صدر بننے کے لیے یہ بہترین انتظام تھا۔لیکن ہیلری کلنٹن کی شکست نے رجحان کو بدلنے نہیں دیا، گذشتہ ایک دہائی میں عالمی سطح پر منتخب شدہ برِسر اقتدار خواتین کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسی خواتین جنھیں خاتون رہنما میسر ہیں ان کی امنگیں زیادہ ہیں۔تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر منتخب خواتین بلاشبہ روایات اورروایتی بندھنوں کو توڑ رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے ملکوں کی دیگر خواتین کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں؟ بھارت کی مقامی حکومتوں میں سیاسی کوٹے کے نظام سے اس بارے میں کوئی اندازہ لگایاجا سکتا ہے یا اس حوالے سے اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ 1993 سے اب تک، بے ترتیب انداز میں منتخب شدہ 3 میں سے ایک بھارتی گاؤں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خاتون کے لیے چیف کونسلر کا عہدہ مخصوص کرے جو کہ قدرتی طور پر ایک سماجی تجربہ ہے۔
2012 میں ہزاروں انڈین نوجوانوں اور ان کے والدین پر کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ خاتون رہنما اور گاؤں کی نوجوان خواتین کی اولین خواہشات کا باہمی تعلق ہے۔جب والدین سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لحاظ سے کیا چاہتے ہیں، اس عمر میں جب ان کا پہلا بچہ ہوا اور جب اس کی ملازمت کے امکانات پیدا ہوئے تو زیادہ تر والدین نے اپنے بیٹوں کے لیے اعلیٰ خواہشات کا اظہار کیا۔لیکن ایک بار جب گاؤں میں خاتون رہنما دو انتخابی مدتیں پوری کر چکی تو والدین کی لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ‘خواہشات کا فرق’ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھیں خاتون کی رہنمائی میسر نہیں رہی، کم ہو کر 25 فیصد رہ گیا ہے۔خود نوجوانوں کے لیے بھی، یہ صرف 32 فیصد ہو گیا۔ جب خاتون نگران تھیں تب بھی لڑکوں سے توقعات کم نہ ہوئیں، لہٰذا یہ معمولی فرق لڑکیوں کے لیے بہترین خواہشات سے مجموعی طور پر کم ہی رہا ہے۔
اس تحقیق کے مصنف کے مطابق خواتین رہنماؤں کو پالیسی کے ذریعے عورتوں کے حالات بدلنے کی محدود گنجائش حاصل رہی ہے۔ لیکن مثبت کردار کے نمونے کے طور پر ان کی موجودگی ان کے ارد گرد نوجوان خواتین کی خواہشات اور تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کافی تھی۔
2012 میں کی گئی ایک سوئس تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ مثالی شخصیت، خواتین کے رویے پر اثر انداز ہوتی ہے جب وہ قیادت کرنے کی صورتحال سے گزرتی ہیں، چاہے وہ مثالی شخصیت ان سے دور ہو۔تحقیق کے مصنف نے لڑکوں اور لڑکیوں کو ورچوئل ریالٹی کے حامل ماحول میں چار مختلف گروپوں کی شکل میں تقریر کرنے کی دعوت دی۔ ایک کو جرمن چانسلر اینگلا مرکل کی تصویر دیوار پر نظر آئی، ایک گروپ کو ہیلری کلنٹن (اس وقت وہ وزیر خارجہ تھیں)، ایک کو دیوار پر بل کلنٹن دکھائی دیے اور ایک کو سرے سے کوئی تصویر نہیں دکھائی گئی۔
لڑکیوں نے مرد سیاست دان یا کسی بھی مثالی شخصیت کی غیر موجودگی کے مقابلے میں، کامیاب خاتون سیاست دان کے سامنے نمایاں طور پر زیادہ لمبی تقریر کی۔ اور جتنی زیادہ لمبی تقریر کی انھوں نے اپنی اتنی ہی زیادہ مثبت درجہ بندی کی۔سوئس تحقیق کے مصنف نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ‘یہ صرف خواتین سیاست دانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ یہ مساوات کا ہدف بھی ہے، یہ وہ انجن بھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے یہ مقصد حاصل ہو۔‘
یہ اعداد و شمار اس تصور کو تقویت بخشتے ہیں کہ سیاسی کرداروں میں خواتین کی صرف موجودگی کو روزمرہ کی زندگی میں وسیع مساوات سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔عالمی اقتصادی فورم نے اپنی ‘گلوبل جینڈر گیپ’ نامی رپورٹ میں چار کلیدی عناصر کی بنیاد پر درجہ بندی کی ہے جس میں صحت اور بقا، تعلیم کا حصول، معیشت میں شرکت اور سیاست میں شمولیت شامل ہیں۔سنہ 2016 میں آئس لینڈ، فِن لینڈ اور ناروے وہ ممالک تھے جن کا مجموعی صنفی فرق کم ترین سطح پر تھا اور وہاں سیاست میں عورتوں کی شمولیت کا بھی زیادہ امکان تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک میں جہاں خواتین کو سیاست میں نمائندگی ملتی ہے وہاں وہ زیادہ بہتر انداز میں کام کرتی ہیں۔خواتین رہنماؤں اور ان کی خواتین ہم منصبوں کی زندگی کے حالات میں بہتری کے درمیان ایک مضبوط تعلق قائم کرنا مشکل ہے۔یہ جزوی بات ہے کیونکہ گذشتہ صدی میں تقریباً ہر ملک میں صنفی مساوات بہت بہتر ہوئی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہاں خاتون رہنما رہی ہیں یا نہیں۔اس کے علاوہ، کئی خواتین کو حال ہی میں منتخب کیا گیا یا پھر وہ کم عرصے تک ہی رہنمائی کر سکیں اس لیے ان کی پالیسیوں کے براہ راست اثرات کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔البتہ، جو ثبوت ہمارے پاس ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو خواتین روایتی بندھنوں کو توڑ سکیں انھوں نے اپنی ہم وطنوں کی اْمنگوں میں اضافہ کیا۔ اور ان کے ملکوں میں خواتین کے لیے بہتر معیار زندگی کے امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں زرعی شعبے میں اوسطً 43 فیصد افرادی قوت خواتین پر مشتمل ہے اور ماہرین کے خیال میں گذشتہ دو دہائیوں میں زرعی شعبے میں خواتین کے کام کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے برائے خوراک و زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کے ’واضح شواہد‘ موجود ہیں کہ زراعت میں خواتین کا کردار بڑھا ہے کیونکہ خواتین کے اس شعبے میں آنے کے بعد مرد زرعی شعبے میں اب نوکریاں نہیں کر رہے ہیں۔بین الاقوامی ادارہ محنت کے اعداد و شمار کے مطابق اقتصادی طور پر سرگرم خواتین کی ایک چوتھائی تعداد زرعی شعبے سے منسلک ہیں۔گو کہ ان اعداد و شمار میں علاقائی طور پر فرق پایا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ملازمت فراہم کرنے میں زرعی شعبے کا اہم کردار ہے لیکن امیر اور غریب ممالک میں یہ شرح مختلف ہے کیونکہ امیر ممالک میں مرد و خواتین صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں ملازمت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ زرعی شعبے میں خواتین کا کردار کہاں بڑھا ہے؟یہ رجحان سب سے زیادہ شمالی افریقہ میں دیکھنے کو ملا جہاں زراعت میں خواتین کا کردار 30 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گیا ہے۔ ایسے ہی رجحانات مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ میں دیکھنے کو ملے۔ جبکہ نیم صحرائی افریقی علاقوں میں زرعی شعبے میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تین دہائیاں قبل یہاں زراعت میں خواتین مزدوروں کی تعداد میں 60 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے خیال میں یہاں پہلے سے ہی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کاشتکاری میں خواتین کا بڑھتا ہوا کردار مثبت اقدام ہے۔ کچھ خواتین خود اپنی زمینوں پر کاشتکاری کرتی ہیں تو کچھ کسی اور کی زمین پر ملازمت کرتی ہے۔گو کہ خواتین کے اس بڑھتے ہوئے کردار کا مطلب خواتین کا با اختیار ہونا ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کی اہم وجہ مردوں کا ہجرت کر کے دوسری جگہ جانا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں بہتر مواقعوں کی تلاش کے لیے شہری علاقوں کا رخ کرنے کا رجحان زیادہ ہے۔ اس لیے جو خواتین پیچھے رہ جاتی ہیں انھیں اکثر زمینوں پر زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔زرعی شعبے کی افرادی قوت میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے لیکن اْن کی ملازمت کی نوعیت اکثر غیر واضح ہوتی ہے۔ خواتین اکثر اوقات جز وقتی ملازمت کرتی ہیں۔
عالمی بینک کے تجزیے کے مطابق تنخواہ دار خواتین کی ملازمتوں میں بھی زیادہ تر نوکریاں مزدوری یا کم ہنر مندی کی ہوتی ہیں۔ انتظامی طور پر موجود محدود آسامیوں پر زیادہ تر مرد کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر خواتین کاشت کاری کرتی ہیں تو مارکیٹنگ اور رقم وصولی کی ذمہ داری مردوں کی ہی ہوتی ہے۔دیہی علاقوں میں پانی بھرنے اور ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔تاہم دستیاب شواہد کے مطابق اکثر خواتین کی تنخواہ مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صنف کے لحاظ سے آمدن میں فرق ہے اور 14 ممالک میں خواتین کی اوسطً تنخواہیں مردوں کے مقابلے میں 28 فیصد کم ہیں۔ماہرین کے خیال میں تنخواہوں کے اس فرق کاسبب’پیداوار کا فرق’ ہے اور ترقی پذیر ملکوں میں خواتین کاشتکاروں کی پیداوار اوسط پیدوار سے 20 سے 30 فیصد کم ہے اور کم پیداوار کا الزام خانگی امور کی ذمہ داری ادا کرنے پر عائد کیا جاتا ہے۔
یف اے او کا کہنا ہے کہ کئی معاشروں میں گھر بار سنھبالنا اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار خواتین ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں پانی لانا، ایندھن جمع کرنے کا کام بھی عورتیں کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے آمدن کمانے والے ذرائع میں اْن کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ایف اے او کی پروگرام اسسٹنٹ ماریہ لوئیس کے مطابق ‘خواتین کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ روایات کو چیلنج کریں۔’ماہرین کا کہنا ہے کہ فوڈ پراسیسنگ اور دوسرے ویلیو ایڈیشن سے معاشرے میں صنفی عدم مساوات کم کی جا سکتی ہے۔ماہرین کاخیال ہے کہ زراعت میں خواتین کی ملازمتیں بڑھنے سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ اس حوالے مالی کی ایک
28 سالہ خاتون تھیرراکاحوالہ دیاجاتاہے وہ کہتی ہیں کہ ‘آج میں کم کاروبار والے سیزن کے بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوں۔ اب ہم نئی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جو ہمیں زیادہ مضبوط بناتی ہیں‘۔یہ خاتون اْن خواتین میں شامل ہیں جنھیں ایف اے او کی جانب سے ’خصوصی زرعی کِٹس’ ملی ہیں جس میں مٹر، باجرہ اور اعلیٰ معیار کی سبزیوں اور پھلوں کے بیج شامل ہیں۔اس نئی تکنیک کی مدد سے مالی کی خواتین اْن اوقات میں آمدنی حاصل کر سکتی ہیں جب اْن کے شوہر ملازمت کے لیے علاقے میں موجود نہیں ہوں گے۔تھیررا نے کہا کہ ‘آئندہ آنے والے مہینوں کے لیے ہمارے پاس اضافی خوراک موجود ہے‘۔دنیا بھر میں کئی تنظمیں اور این جی اوز ایسی تکنیکیں متعارف کروا رہی ہیں جس میں محنت کم کی جائے اور خواتین کو قرضے فراہم کیے جائیں۔ یہ دونوں عناصر چیزوں کو مثبت طور پر بدل کر رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو سماجی طور پر با اختیار بنانے کے لیے زمین کے ملکیت بہت اہم ہے اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین اور مردوں میں جائیداد کی ملکیت کے قوانین مختلف ہیں۔شواہد کے مطابق کوئی بھی شخص زمین کی ملکیت اور اْس پر کاشتکاری سے بہت با اختیار ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی میں تبدیلی تو آغاز ہے لیکن زیادہ توجہ سماجی روایات پر دینا ہو گی جو خواتین کو وراثت میں حق دینے کیخلاف ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں زیادہ خواتین کے کام کرنے سے کسی حد تک معاشرے میں صنفی عدم توازن تو کم ہو گا لیکن اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے۔


متعلقہ خبریں


اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔وزیراعظم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ ڈویژن نے اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان...

اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان سعودی عرب میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران غیررسمی اہم ملاقات ہوئی جہاں پاکستان کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطا...

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع

فلسطینیوں کی حمایت، طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا وجود - پیر 29 اپریل 2024

غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں امریکا سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا ہے ۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اب برطانیہ، اٹلی، فرانس اور آسٹریلیا کے طلبہ بھی میدان میں آگئے ، انہوں نے اسرائیلی کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کی حمایت کی ہے۔ ادھر کولمبیا یونیورسٹی ...

فلسطینیوں کی حمایت، طلبہ کا احتجاج مزید وسیع ہوگیا

لیاری سے بی ایل اے کاانتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار وجود - پیر 29 اپریل 2024

حساس ادارے نے چھاپہ مار کارروائی میں کراچی اور بلوچستان کی پولیس کو انتہائی مطلوب دہشت گرد سمیت 3 افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کر لیا، گرفتار دہشت گرد کالعدم بی ایل اے کے لیے ریکی اور دہشت گردی کی متعدد واردتوں میں ملوث رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد اور اس کے ساتھی کو اب...

لیاری سے بی ایل اے کاانتہائی مطلوب دہشت گرد گرفتار

درآمد گندم مقررہ اجازت سے زائد منگوانے کا انکشاف، ایک ارب ڈالر کا نقصان وجود - پیر 29 اپریل 2024

درآمد شدہ گندم مقررہ ضرورت و اجازت سے زائد منگوائے جانے اورپرائیویٹ سیکٹر کو نوازے جانے کا انکشاف ہوا ہے ،بیوروکریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانہ کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے ۔ ذرائع کے مطابق نیشنل فوڈ سکیورٹی نے ضرورت سے زیادہ گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم د...

درآمد گندم مقررہ اجازت سے زائد منگوانے کا انکشاف، ایک ارب ڈالر کا نقصان

بھارت سے مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کا بدلہ لیں گے ،سکھ فار جسٹس وجود - پیر 29 اپریل 2024

سکھ فار جسٹس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا میں بھارت کی ناکام قاتلانہ سازش کا شکار سکھ رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف عالمی عدالت میں جائیں گے...

بھارت سے مسلمانوں اور سکھوں کے قتل کا بدلہ لیں گے ،سکھ فار جسٹس

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم وجود - اتوار 28 اپریل 2024

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ وجود - اتوار 28 اپریل 2024

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر