... loading ...
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم کے ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہاہے یہاں تک کہ بعض حلقوں کی جانب سے دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی جنگ کے خدشات کا بھی برملا اظہار کیاجارہاہے ،لیکن اس کشیدہ ماحول ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے امن کے حامی بعض حلقوں نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردی ہیں اور اطلاعات کے مطابق ان کوششوں کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔
اس حوالے31جولائی تا 2 اگست کو دبئی میں کشمیرکے حوالے سے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ،کنسیلائیشن ریسورسز کے کشمیر انیشیٹو گروپ کے اشتراک سے بھارت اور پاکستان کے معزز سیاسی اور سول سوسائٹی نمائندگان کایہ اجلاس طلب کیا گیاتھا۔ اطلاعات کے مطابق شرکا نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ ڈائیلاگ کو بحال کیا جائے اور جموں و کشمیر کے عوام کی تکالیف میں کمی لانے کے لیے ریلیف کے اقدامات شروع کیے جانے چاہئیں،اطلاعات کے مطابق اس کانفرنس میں میں بھارت سے فضائیہ کے سابق وائس مارشل کپل کاک، پاکستان سے آئی ایس آئی کے دو سابق سربراہان جنرل احسان الحق اور جنرل(ر)اسد درانی نے شرکت کی۔ جبکہ جموں سے بی جے پی کے کشمیر کونسل رکن وکرم رندھاوا،مقبوضہ کشمیرسے نیشنل کانفرنس کے سابق وزیر ناصر اسلم سوگامی، لداخ سے کانگریس کے اسلم کربلائی، آزاد کشمیر سے مسلم لیگ ن سے وابستہ اسپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر، پی پی پی کے صدر چوہدری لطیف اکبر، جماعت اسلامی کے عبدالرشید ترابی، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق سے وابستہ خرم پرویزاور بعض صحافیوںاور حریت کانفرنس کی نمائندگی فیض نقشبندی نے کی جو اسلام آباد میں میر واعظ عمر فاروق کے نمائند ے ہیں۔
بعض اطراف سے دبئی میں ہونے والی اس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے شرکاکی جانب سے کسی یک طرفہ موقف کی طرفداری کا الزام لگایا گیا۔ اس لیے یہاںاس بات کا جائزہ لیناضروری ہے کہ سچ کیا ہے۔آیا یہ سب قیاس آرائیاں ہیں یا ان کے پیچھے چھپے بعض اشارے بھی ہیں جن کا مقصد مسئلہ کشمیر کے نام پر نام و نمائش، کاروباری سوچ،ذاتی مفاد، سیر و تفریح ، شاپنگ ،وغیرہ کا حصول ہے۔ جہاں تک اس کانفرنس کے انعقاد کامعاملہ ہے تو اسے کسی بھی طرح اپنے طرز کی منفرد کوشش قرار نہیں دیاجاسکتا کیونکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے فضا سازگار بنانے اوراس مقصد کے لیے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کرنے کے لیے برسوں سے کام ہو رہا ہے۔ سرینگر، مظفر آباد، دہلی، اسلام آبادسمیت دنیا بھر میں کسی نہ کسی طور پر بعض لوگ اس حوالے سے متحرک رہے ہیں۔ نیک نیتی اور حسن ظن کا تقاضا ہے کہ دیرینہ تنازع کو حل کرنے کے لیے ہونے والی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سمجھا جائے۔ محض تعصب ، حسد یا نفرت کی زد میں آکر تنقید سے بچا جائے۔ اگر کوئی کسی کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تو اس بنیاد پر تخریبی یا انتقامی کارروائی بالکل نامناسب ہو گی۔ بعض معاملات ایسے ہیں کہ جن سے سبھی متاثر ہوتے ہیں اور اجتماعی سوچ پر اس کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا تنازع نہیں جو راتوں رات حل ہوا ہو یا جسے مذاکرات کی میز پر گپ شپ سے حل کیا جا سکا ہو۔ مگر کشمیر کا مسئلہ راتوں رات کا نہیں۔ 70سال کا ہے۔ تیسری چوتھی نسل اس پر قربان ہو رہی ہے۔اس کی پشت پر لاکھوں لوگوں کی قربانیاں ہیں۔ جن پر کوئی کاروبار، سیاست یا اپنی روشن مستقبل کے محلات کھڑا کرنا چاہے تو شاید یہ اس قدر آسان نہ ہو۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ مختلف سیمینارز، مذاکروں اورکانفرنسوں کے مطمئن شرکاکی فہرست مرتب کرتے وقت بعض اہم نکات زیر غور لائے جاتے ہیں۔ اس میں ایسے نام شامل کیے جاتے ہیں جن کے نام پر ان کی سیاست یا مفاد خصوصی پروان چڑھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ یا جو ان کے عزائم کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ وہ کھیل میں شامل ہوں لیکن نتائج من پسند نکالے جائیں۔ یہ انحصار ریفری پر ہے کہ وہ کسے کس طرح استعمال اور بروئے کار لاتا ہے۔ یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ اسی تناسب سے وہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض لوگ دوسروں کو مہرے بنانے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا نام اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ یا ان کی نیک نامی سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ فوائد معاشی اور سیاسی یا سفارتی ہوتے ہیں۔ مالی فوائد کو سب پر ترجیح دی جاتی ہے۔ دبئی کانفرنس پر انگلیاں اٹھیں۔کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ جسے برطانوی منتظمین این جی او کی ویب سائیٹ پر یوں پیش کیا گیا، ”کنسیلائیشن ریسورسز نے کشمیر انیشیٹو گروپ کے اشتراک سے بھارت اور پاکستان کے معزز سیاسی اور سول سوسائٹی نمائندگان کا اجلاس وبئی میں طلب کیا۔ شرکا نے جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور اس ضرورت پر زور دیا کہ ڈائیلاگ کو بحال کیا جائے اور جموں و کشمیر کے عوام کی تکالیف میں کمی لانے کے لیے ریلیف کے اقدامات شروع کیے جانے چاہئیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ ہر طرف سے دشمنی کا خاتمہ یقینی بنایا جائے، 2003میں قائم ہونے والے سیز فائر کا احترام کیا جائے، اعتماد سازی کے اقدامات کو مضبوط بنایا جائے اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب نئے تجارتی اور سفری راستے کھولے جائیں۔” یہ وہ اعلامیہ ہے جو دبئی کانفرنس کا نچوڑ ہے۔ اس کا زبان و مکان جو بھی ہو مگر شرکاکو بھارت یا پاکستان سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس میں سرحد کے دونوں جانب کے کشمیر کے شرکا کا ذکر نہیں۔ جب ۔ اس کانفرنس پر تنقید کی گئی اور طرح طرح کی باتیں اس سے منسوب ہوئیں۔اس کانفرنس پر اعتراض کرنے والوں کاجواب دیتے ہوئے عبد الرشید ترابی نے کہا”دوستوں کو اعتماد رکھنا چاہیئے کہ جن کے نزدیک تحریک آزادی ایمان کا حصہ ہو، وہ نہ کسی کے جھانسے میں آ سکتے ہیں اور نہ کسی سازش یا سودے بازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔” بعض اخبارات نے شہ سرخی لگائی کہ پہلی بار کسی کانفرنس نے ’’ انتہاپسندی‘‘کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ سرینگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار کشمیر ریڈر نے کانفرنس میں شریک کسی نامعلوم مندوب سے منسوب یہ رپورٹ دی کہ سب نے اتفاق کیا کہ عسکریت مسئلے کا حل نہیں اس لیے اسے بند کیا جائے۔ بعض نے یہ کہا کہ کانفرنس میں سرحد پار دہشت گردی کی بات کی گئی جب کہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا کسی نے تذکرہ نہیں کیا۔اس طرح کی باتیں قربانیاں پیش کرنے والوں کے لیے نا قابل قبول ہیں۔ اگر چہ ٹریک ٹو اور بیک چینل ڈپلومیسی کو جاری رہنا چاہیئے۔ تا ہم کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا جاری رہنا اور کشمیریوں کی نسل کشی انتہائی تشویشناک ہے۔ بھارتی مظالم کا خاتمہ اور مسئلے کا حل کشمیریوں کی پہلی ترجیح ہے۔ اگر کوئی اس پر سمجھوتہ کرے تو اسے سودے بازی ہی قرار دیا جائے گا۔ کشمیر انیشیٹو گروپ کے کنوینرارشاد محمود کہتے ہیں کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں بھی بات چیت جاری رہی۔ ” ہم کشمیریوں نے پہلی بار ریاستی گروپ تشکیل دیا جس کے صدر سرینگر کے صحافی شجاعت بخاری ہیں۔ تا کہ ہم دہلی اور اسلام آباد کے بجائے کشمیر کا مقامی موقف دنیا کو بتا سکیں۔ بات چیت ہی مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہو سکتی ہے”۔ کسی کی نیت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتا سکتا۔ اس پر قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جو بھی دستیاب حقائق ہیں ، ان کی بنیاد پر ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کشمیریوں کی نمائندگی ہمیشہ پاکستان اور بھارت نے ہی کی ہے۔ کشمیریوں کو مسئلے کا فریق ہی تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اسی لیے اس مسئلے کو بھارت دو طرفہ مسئلہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ حریت کانفرنس کو سہ فریقی بات چیت کا جھانسا دیا گیا۔ وہ بہکاوے میں آ گئے۔ جب دنیا بھارت پر دبائو ڈال رہی تھی۔ اس وقت دہلی نے مکاری سے دبائو سے نکلنے کی راہ اختیار کی۔ اس میں حریت بھی غیر شعوری طور ہی سہی، مگر استعمال ہوئی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اورپاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ نکالنے میں دبئی کانفرنس میں ہونے والی پیش رفت کے کیانتائج نکلتے ہیں،یا بھارت اس کوشش کو بھی سبوتاژ کردے گا۔تاہم یہ بات اٹل ہے کہ اگر بھارتی حکومت نے ان کوششوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر میں بھڑکتی ہوئی آگ سرد کرنے کی کوشش نہیں کی تو اس کاسب سے زیادہ نقصان بھارت ہی کو اٹھانا پڑے گا اور بھارت کی انتہا پسند مودی حکومت نے فوجی طاقت کے بیجا مظاہرے کے ذریعے کشمیر میں جو آگ بھڑکائی ہے وہ اسے ہی جلاکر خاک کردے گی۔
ہنستے کھیلتے بچوں کی سالگرہ کا منظر لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ، 24 افراد موقع پر لقمہ اجل الباقا کیفے، رفح، خان یونس، الزوائدا، دیر البلح، شجاعیہ، بیت لاحیا کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا فلسطین کے نہتے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیلی کی یہودی فوج نے ظلم کے انہتا کردی،30جون کی رات سے یکم ج...
ستائیسویں ترمیم لائی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہے بادشاہت کا اعلان کردیںاور عدلیہ کو گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ بنا دیں،حکومت کے پاس کوئی عوامی مینڈیٹ نہیں یہ شرمندہ نہیں ہوتے 17 سیٹوں والوں کے پاس کوئی اختیار نہیںبات نہیں ہو گی، جسٹس سرفراز ڈوگرکو تحفے میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ لگای...
عالمی مارکیٹ میں قیمتیں گریں توریلیف نہیں، تھوڑا بڑھیں تو بوجھ عوام پر،امیر جماعت اسلامی معیشت کی ترقی کے حکومتی دعوے جھوٹے،اشتہاری ہیں، پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ مسترد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ردعمل آگیا۔انہوں...
وفاقی وزیر توانائی نے تمام وزرائے اعلی کو خط لکھ دیا، محصولات کی وصولی کے متبادل طریقوں کی نشاندہی ،عملدرآمد کے لیے تعاون طلب بجلی کے مہنگے نرخ اہم چیلنج ہیں، صارفین دیگر چارجز کے بجائے صرف بجلی کی قیمت کی ادائیگی کر رہے ہیں، اویس لغاری کے خط کا متن حکومت نے بجلی کے بلوں میں ...
پاکستان، ایران اور ترکی اگراسٹریٹجک اتحاد بنالیں تو کوئی طاقت حملہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتی گیس پائپ لائن منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا جائے، ایران کے سفیر سے ملاقات ،ظہرانہ میں اظہار خیال پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم نے اسرائیلی اور امریکی جارحیت کے خلاف ایران کی حم...
پارلیمان میں گونجتی ہر منتخب آواز قوم کی قربانیوں کی عکاس ، امن، انصاف اور پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کسی کو بھی پارلیمان کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے،عالمی یوم پارلیمان پر پیغام پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ خودمختار پا...
ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پانے کے بعد لیگ سے باہر آئرلینڈ کی جگہ نیوزی لینڈ یا پاکستان کی ٹیم کو اگلے سیزن کیلیے شامل کیا جائے گا،رپورٹ ہاکی کے میدان میں بھی بھارت کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ایف آئی ایچ پرو لیگ میں بھارتی ویمنز ٹیم آخری پوزیشن پ...
درندگی کا شکار فلسطینیوں میں بیشتر کی نعش شناخت کے قابل نہ رہی ،زخمیوں کی حالت نازک جنگی طیاروں کی امدادی مراکز اور رہائشی عمارتوں پر بمباری ،شہادتوں میں اضافے کا خدشہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری نے ایک بار پھر انسانیت کو شرما دیا۔ گزشتہ48گھنٹوں کے دوران صیہونی افواج کے وحش...
حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ، ملک کی بہتری، کامیابی کے لیے سسٹم چلانا ہے اور یہی چلے گا( مقتدر حلقوں کا پی پی کو پیغام) دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو ایک پیج پر متحد بھی کردیا گیا اگلے ماہ دونوں جماعتوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے ہوجائے گا، جولا...
جب ملک کو ضرورت پڑی تو جہاد کا اعلان کریں گے ، پھر فتح ہمارا مقدر ہوگی ، دھاندلی زدہ حکومتیں نہیں چل سکتیں اس لیے خود کو طاقتور سمجھنے والوں کو کہتا ہوں کہ عوامی فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کریں ہم نے 2018کے الیکشن قبول کیے ،نہ ہی 2024کے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کی...
پورا عدالتی نظام یرغمال ہے ،سپریم کورٹ سے جعلی فیصلے کرواکر سیاست کی جاتی ہے اسٹبلشمنٹ آج اپوزیشن سے بات کر لے تو یہ نظام کو قبول کرلیں گے ،امیر جماعت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ نے ٹرمپ کی چاپلوسی میں کشمیر پر کمپرومائز کیا تو قوم مزاح...
پیداوار کے مقابلے کھپت میں کمی، بجلی چوری توانائی کے شعبے کے سب سے بڑے چیلنجز ہیں اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ منصوبے کا باضابطہ اجرا باعث اطمینان ہے ، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ٹی وی لائسنس فیس ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سالانہ...