وجود

... loading ...

وجود

جنرل (ر)راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کی کمان اوردرپیش چیلنجز

اتوار 08 جنوری 2017 جنرل (ر)راحیل شریف اسلامی فوجی اتحاد کی کمان اوردرپیش چیلنجز

حال ہی میں سکبدوش ہونے والے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف سعودی قیادت میں قائم کثیر القومی انسداد دہشت گردی فوج کی سربراہی کریں گے۔ اس عسکری اتحاد میں عمومی طور پر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(او آئی سی )کے ہی ممالک شامل ہیں ۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان آرمی کے سابق سربراہ کے لیے سعودی عرب کی قیادت میں کام کرنے والے اسلامی فوجی اتحاد کی کمان کرنا ایک اعزاز تو ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کو تشویش ہے کہ اس طرح پاکستان کی اس کثیر الملکی اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت اسلام آباد کے کئی علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثرات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
جنرل راحیل شریف کو 39 مسلمان ممالک کے فوجی اتحاد کی قیادت سونپی گئی ہے۔جس کی تصدیق گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کی جس کے بعدسے خبر ملک اور بیرون ملک زیر بحث ہے ،جہاں کئی مسلم ممالک اس اتحاد پر جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہیںپاکستان کے کئی سیاسی و عسکری تجزیہ کاراسے اعزاز کے ساتھ ساتھ تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
مجموعی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں شدت پسند تنظیم داعش کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں سعودی حکومت سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔اگرچہ یہ تنظیم سنی مسلک کی نمائندگی کی علمبردار ہے تاہم عمومی تاثر یہ ہے کہ مسلم دنیا کے سنجیدہ مکاتب فکر اس تنظیم کے طریقہ کار سے متفق نہیں جبکہ مسلم دنیا میں تیزی سے ابھرتا ہوا ملک ترکی باضابطہ داعش کے خلاف شام میں برسرپیکار ہے اور گزشتہ چند ماہ قبل پاکستان کا دورہ کرنے والے ترک صدر نے اپنے خطاب میں بھی کہا تھا کہ داعش کا اسلام سے تعلق نہیں بلکہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
بہرحال دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات ہی کے سبب سعودی عرب نے دسمبر 2015 میں دہشت گردی کے خلاف 30 سے زائد اسلامی ممالک پر مشتمل ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔ان تنازعات کے سلسلے میں ریاض حکومت کی طرف سے خاص طور پر یمن کی خانہ جنگی اور عسکریت پسند تنظیم ’داعش‘ کی وجہ سے پیدا ہونے والے علاقائی سکیورٹی خطرات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ابتدا میں اس فوجی اتحاد میں 34 اسلامی ممالک شامل تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر 39 ہو چکی ہے،ان میں سعودی عرب،پاکستان،ترکی ،متحدہ عرب امارات ،بحرین ،بنگلہ دیش ،تیونس ، سوڈان ،ملائشیا،مصر ،یمن اور دوسرے ممالک شامل ہیں اس عسکری اتحاد میں ایران اور شام شامل نہیں ہیں،اطلاعات کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا کی بھی اس اتحاد مین شمولیت متوقع ہے جبکہ آزربائیجان اور تاجکستان بھی غور کررہے ہیں ،علاوہ ازیں شاہ سلمان نے افغانستان کو بھی اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی ہے ۔اس فوجی اتحاد کا صدر دفتر سعودی کے شہر ریاض میں ہو گا لیکن اس اتحاد کے مقاصد اور پالیسی کے بارے میں مکمل تفصیلات واضح نہیں ہیں۔جیسے ہی گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے راحیل شریف کے اسلامی فوجی اتحاد کے کمان سنبھالنے کی تصدیق ہوئی تو ہر طرف میڈیا اور سوشل میڈیا نے اس خبر کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ترکی سے وابستہ افراد پر مشتمل سوشل میڈیا صفحہ’’رجب طیب اردگان،لیڈر آف امہ‘‘ پر صارفین اپنے خیالات کا اظہار کرنے میں بہت پرجوش ہیں اور اسے بڑی کامیابی اور قابل مبارکباد عمل قراردے رہے ہیں۔اس پیج پر حال ہی میں قائم وکی پیڈیا پیج کا عکس،اسلامی آرمی چیف راحیل شریف کی شاہ سلمان،محمد بن سلمان،ایرانی و ترک حکام کے ہمراہ تصاویر اور عمرے کے دوران پروٹوکول میں لی گئی تصاویر شیئر کی گئی ہیں اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستانی بجا طور پر خوش ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک صارف نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بزرگ کہا کرتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب پاکستان امت ِ مسلمہ کی قیادت کرے گا،اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔‘‘
نومبر 2015ء میں راحیل شریف ابھی پاکستانی فوج کے سربراہ کے عہدے سے رخصت نہیں ہوئے تھے کہ تب ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں سعودی سربراہی میں عسکری اتحاد کا کمانڈر بنا دیا جائے گا۔
دوسری طرف یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اکثریتی طور پر سنی مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں شیعہ مسلمان بھی کوئی بہت چھوٹی مذہبی اقلیت نہیں ہیں اور ان کے بہت بڑے حصے کی مذہبی قربت زیادہ تر ایران اور ایرانی شیعہ اسلام کے ساتھ ہے۔ادھریمنی خانہ جنگی کافی حد تک ایک شیعہ سنی تنازعہ بھی بن چکا ہے جبکہ شام کی جنگ میں ایران کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ان حالات میں راحیل شریف کی طرف سے انتالیس ملکی فوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کو پاکستانی شیعہ آبادی اس طرح بھی دیکھ سکتی ہے کہ پاکستان جیسے عسکری طور پر بھی سعودی عرب کے بہت قریب ہوتے ہوئے ریاض حکومت کے مزید دائرہ اثر میں آ گیا ہے، بالخصوص اس تناظر میں کہ سعودی عرب اور ایران علاقائی طور پر دو بڑے حریف ممالک ہیں اور یمنی تنازع ایک داخلی جھگڑا ہونے کے باوجود بظاہر کافی حد تک شیعہ سنی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ سعودی عرب یمنی صدر منصور ہادی اور ان کی قیادت میں کام کرنے والی ملکی فوج کا حامی ہے جبکہ یمن کے حوثی شیعہ باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور یہی حوثی گزشتہ دنوں حرمین شریفین کی جانب میزائل بھی داغ چکے ہیں جس کے حوالے سے مسلم دنیا میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے ۔
پوری صورتحال کے بارے میں پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل اور معروف دفاعی تجزیہ نگار طلعت مسعود نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا کہ اس بین الاقوامی عسکری اتحاد کی قیادت راحیل شریف کو سونپنے کے فیصلے کے پاکستان میں نظر آنے والے ممکنہ اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہ اتحاد متنازع ہے، اس وجہ سے کہ ریاض اور تہران کے مابین واضح اور شدید کھچاؤ پایا جاتا ہے اور ایران اس عسکری اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔طلعت مسعود نے مزید کہا کہ راحیل شریف کی پاکستانی فوج کے سربراہ کے طور پر کارکردگی کے باعث ان ذمے داریوں کے لیے ان کا انتخاب ایک طرف تو پاکستان کے لیے باعث فخر ہے، لیکن دوسری طرف اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک پاکستانی جنرل کو ایک ایسے عسکری اتحاد کی قیادت سونپنے کی بات کی جا رہی ہے، جو بہت متنازع ہے اور جس کے ایران بہت خلاف ہے۔پاکستان شروع میں تو اس سعودی عسکری اتحاد میں شمولیت سے گریزاں تھا لیکن پھر بعد میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے اس فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کی تصدیق تو کر دی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اس اتحاد کا حصہ ہوتے ہوئے کوئی ملکی فوجی دستے بیرون ملک نہیں بھیجے گی۔طلعت مسعود نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا یہ ایک دانش مندانہ فیصلہ ہے کہ اس عسکری اتحاد کی فوجی قیادت ایک پاکستانی جنرل کرے گا، اس سوال کا جواب خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
تاہم ماضی قریب کے اوراق سے ایک خبر یہ بھی ہے 11دسمبر 2016کوایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے تجویز پیش کی ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے اور اقتصادی اشتراک عمل کو فروغ دینے کے لیے مسلم ممالک کا ایک ایسا بلاک تشکیل دیا جانا چاہیے، جس میں سعودی عرب بھی شامل ہو۔ایک سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی پارلیمان کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کو ترکی، مصر، عراق اور پاکستان کو ساتھ ملانا چاہیے اور ’اسلام کی بنیاد پر علاقائی امن‘ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا دفاع کرنا چاہیے۔ ان کاکہنا تھا کہ اسی طرح دہشت گردی سے نمٹا اور اقتصادی مفادات کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے روایتی حریف سمجھا جاتا ہے اور یہ دونوں ہی ملک شام اور یمن میں متحارب گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ قبل ازیں سعودی عرب نے گزشتہ برس جنوری میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات اس وقت منقطع کر دیے تھے جب تہران میں مشتعل مظاہرین نے اس کے سفارت خانے پر حملہ کر دیا تھا۔ یہ مظاہرین سعودی عرب میں ایک شیعہ عالم کی پھانسی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
تاہم اپنی اس تقریر میں علی لاریجانی کا سعودی حکومت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سعودی عرب اور دوسری اقوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایران ان کا دشمن نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران ’’شام اور یمن میں جنگی جنون کی مخالفت‘‘ کرتا ہے اور ان علاقائی تنازعات کا حل چاہتا ہے۔ایران کے خطے میں اثرو رسوخ کو بڑھانے کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران خطے میں نہ تو کسی سلطنت کے قیام کے پیچھے بھاگ رہا ہے اور نہ ہی قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ اتحاد کو بہتر بنایا جائے۔
یاد رہے کہ ایران شام میں صدربشارالاسد کا انتہائی قریبی حلیف ہے جب کہ لبنان کے حزب اللہ اور عراقی شیعہ ملیشیا کو بھی اس کی حمایت حاصل ہے۔
بعد ازاں 19 دسمبر کو موجودہ آرمی چیف باجوہ کے سعودی دورے کے موقع پر جرمن خبررساں ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں پاکستان کے کئی تجزیہ کاروں نے ملا جلا ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے عسکری تعاون میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں ہیں۔ سعودی وزیرِ دفاع محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے مقاماتِ مقدسہ اور سعودی عرب کی جغرائیائی وحدت کی حفاظت کے عزم کا اعادہ کیاتھا۔مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اس دورے کو اہم قراردیا گیا۔ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر امان میمن نے جرمن ادارے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس دورے کا وقت بہت اہم ہے۔ پورے خطے میں ہمیں ایران مضبوط ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ عراقی حکومت ایران کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ خطے میں حزب اللہ ایران کا وفادار اتحادی ہے جب کہ شام میں بشارالاسد اور یمن میں حوثیوں کی پوزیشنیں بھی مضبوط ہو رہی ہیں۔ اس صورتِ حال سے سعودی عرب پریشان ہے اور ریاض کو محسوس ہو رہا ہے کہ سعودی مخالف عناصر اس کو گھیر رہے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں پاکستان ہی سعودی شاہ کی مدد کر سکتا ہے۔ شریف فیملی کے سعودی گھرانے سے ذاتی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب ہمارے لیے زرِ مبادلہ کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور کئی مذہبی جماعتوں کی ہمدردیاں بھی اس عرب ریاست کے ساتھ ہیں، تو اس بات کا قومی امکان ہے کہ اگر حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو پاکستان کو وہاں فوج بھیجنی پڑے گی۔
دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس حوالے سے کہا کہ ویسے تو ہر نیا آرمی چیف دوست ممالک کا دورہ کرتا ہے، جس میں سعودی عرب سر فہرست ہے لیکن موجودہ صورتِ حال میں اس دورے کا یہ مقصد بھی ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو لاحق خطرات کا مطالعہ کیا جائے اور حکومت کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ پھر حکومت اور پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کریں گے۔ تاہم سعودی عرب فوج بھیجنا آسان نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں کئی اراکین ایسے ہیں جن کا ایران کے لیے نرم گوشہ ہے۔ یہاں تک کہ پی پی پی بھی کسی ایسے فیصلے کو منظور نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی بھی بڑھ سکتی ہے، تو حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ فوج بھیجے۔لیکن دوسری جانب
تجزیہ نگار اور صحافی مطیع اللہ جان نے فوج بھیجنے کے حوالے سے سوال پر الٹا سوال اٹھایا اور کہا کہ آپ کو کس نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ سے اجازت لے کر فوج بھیجے گی؟ میرے خیال میں ہمارے کچھ فوجی وہاں پہلے ہی موجود ہیں اور مزید بھیجنے ہوں گے تو ہم کسی اور بہانے بھیج سکتے ہیں۔ تربیت دینے کے نام پر بھی تو فوجی بھیجے جا سکتے ہیں۔ پاکستان اور عرب دنیا خصوصا سعودی عرب کے تعلقات میں آپ کو کئی دلچسپ پہلو ملیں گے۔ مثلا ہمیں اچانک پتہ چلتا ہے کہ مشرف کو پانچ ارب سعودی عرب نے دیے تھے۔ میاں صاحب کے لیے بھی کوئی عرب شہزادہ خط لے کر آجاتا ہے۔ ہمیں سعودی حکومت ڈیڑھ بلین ڈالر تحفے میں دے دیتی ہے۔ اس ملک میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ اتنا ہے کہ ان کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
تحفظِ حرمین شریفین کونسل کے میڈیا کوآرڈینیٹر انیب فاروقی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا کہ حالات جس طرف جارہے ہیں اس سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شام و یمن میں سعودی مخالف قوتیں کامیاب ہو رہی ہیں۔ ایران کی خطے میں مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ اب ایران کی نظر بحرین پر ہے۔ ایسی صورتِ حال میں سعودی عرب کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان 34 ملکی اتحاد کا حصہ ہے اور جو فیصلہ بھی یہ اتحاد کرے گا پاکستان کو وہ ماننا پڑے گا۔ پاکستان نے اسی کی دہائی میں بھی سعودی عرب کی مدد کی تھی، جب وہاں ایک ملک کی طرف سے عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی اور پاکستان اب بھی سعودی عرب کی مدد کرے گا۔
نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے بین الاقوامی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بقر نجم الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ یہ بات صحیح ہے کہ سعودی عرب پاکستان کا دوست ہے لیکن پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں کہ وہ کسی ایسی جنگ میں کودے جس سے اس کے مسائل مزید بڑھیں۔ ہمیں پہلے ہی ملک کے اندر بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے۔ یمن کی جنگ میں کودنے کا مطلب پاکستان میں فرقہ وارانہ آگ کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا اور پاکستان کی پارلیمنٹ کبھی اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی ایسے شدید خطرات بھی لاحق نہیں ہیں۔ ایرانی حکومت بڑی دانش مندی سے خطے میں اپنی پالیسی چلا رہی ہے۔ وہ ریاض سے کشیدگی کو ایک حد تک ہی لے کر جائے گی لیکن جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہونے نہیں دے گی۔
اس ساری صورتحال میں جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد میں تقرری ایک امتحان بھی ہے اور قوم کو انتظار بھی ہے کہ جنرل(ر) اس امتحان میں کیسے پورا اترتے ہیں ۔بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف کے طور پر کام کرنا نسبتاً آسان تھا کیونکہ وہ جس ادارے کے سربراہ تھے اس ادارے کا نام اور حیثیت بذات خود اتنی مضبوط ہے کہ آرمی چیف کے فیصلوں اور منصوبوں سے اختلاف کرنا کسی ؎کے لیے آسان نہ تھا اور وہ یہاں کافی حد تک اپنی مرضی سے کام کرسکتے تھے۔اگرچہ دہشت گردوں سے نمٹنے کا وسیع تجربہ، انکی تربیت جو دنیا کے معروف عسکری ادارے میں ہوئی اورقوم کی دعائیں انکے لیے کافی کارآمد ثابت ہوگی تاہم مختلف پس منظر رکھنے والے ممالک اور خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ رہ کر کام کرنا کوئی پھولوں کی سیج ثابت نہیں ہوگی ۔


متعلقہ خبریں


استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک وجود - هفته 08 نومبر 2025

پاکستان اصولی مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانا افغانستان کی ذمہ داری ہے،پاکستان نے مذاکرات میں ثالثی پر ترکیے اور قطر کا شکریہ ادا کیا ہے، وزیراطلاعات افغان طالبان دوحا امن معاہدے 2021 کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل...

استنبول میں جاری پاک-افغان مذاکرات میں ڈیڈلاک

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت وجود - هفته 08 نومبر 2025

اگر آرٹیکل 243 میں ترمیم کا نقصان سول بالادستی اور جمہوریت کو ہوتا تو میں خود اس کی مخالفت کرتا، میں حمایت اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہو رہا ہے،بلاول بھٹوکی میڈیا سے گفتگو آئینی عدالتیں بھی بننی چاہئیں لیکن میثاق جمہوریت کے دوسرے نکات پربھی عمل کیا جائے،جس ...

پیپلزپارٹی کی آرٹیکل 243 پر حمایت، دہری شہریت،ایگزیکٹومجسٹریس سے متعلق ترامیم کی مخالفت

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم وجود - هفته 08 نومبر 2025

اپوزیشن ستائیسویں ترمیم پر حکومت سے کسی قسم کی بات چیت کا حصہ نہ بنے ، امیر جماعت اسلامی جو ایسا کریں گے انہیں ترمیم کا حمایتی تصور کیا جائے گا،مردان میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے ستائیسویں ترمیم پر اپوزیشن حکومت سے کس...

27 ترمیم کا نتیجہ عوام کے استحصال کی صورت میں نکلے گا،حافظ نعیم

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار وجود - هفته 08 نومبر 2025

صاحبزادہ حامد رضا پشاور سے فیصل آباد کی طرف سفر کر رہے تھے کہ اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی مقدمہ میں 10 سال قید کی سزا سنائی تھی،قائم مقام چیئرمین کی تصدیق سنی اتحاد کونسل کے چیٔرمین صاحبزادہ حامد رضا کو گرفتار کر لیا گیا۔سابق رکن اسمبلی کو 9 مئی ...

سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا گرفتار

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان وجود - جمعه 07 نومبر 2025

27ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ تیار، آئینی بینچ کی جگہ 9 رکنی عدالت، ججز کی مدت 70 سال، فیلڈ مارشل کو آئینی اختیارات دینے کی تجویز، بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا،ذرائع این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیٔر کم کرکے وفاق کا حصہ بڑھانے، تعلیم و صحت کے شعبے وفاقی حکومت کو دینے ک...

وفاقی کابینہ اجلاس طلب، 27ویں ترمیم کی منظوری کا امکان

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اپوزیشن سے مل کر متفقہ رائے بنائیں گے،معتدل ماحول کو شدت کی طرف لے جایا جارہا ہے ایک وزیر تین ماہ سے اس ترمیم پر کام کررہا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ ترمیم کہیں اور سے آئی ہے ٹرمپ نے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کی تعریفیں کرتے کرتے بھارت کے ساتھ دس سال کا دفاعی معاہدہ کر لیا،اسرائیل ک...

قوم کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، حکومت 27ویںآئینی ترمیم سے باز آ جائے ، مولانا فضل الرحمن

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے وجود - جمعه 07 نومبر 2025

وزیراعظم سے خالد مقبول کی قیادت میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 رکنی وفد کی ملاقات وزیراعظم کی ایم کیوایم کے بلدیاتی مسودے کو 27 ویں ترمیم میں شامل کرنیکی یقین دہائی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے 27 ویں ترمیم میں بلدیاتی حکومتوں کو اختیارات دینے...

ایم کیو ایم نے بلدیاتی حکومتوں کیلئے اختیارات مانگ لیے

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم وجود - جمعه 07 نومبر 2025

اب تک ترمیم کا شور ہے شقیں سامنے نہیں آ رہیں،سود کے نظام میں معاشی ترقی ممکن نہیں ہمارا نعرہ بدل دو نظام محض نعرہ نہیں، عملی جدوجہد کا اعلان ہے، اجتماع گاہ کے دورے پر گفتگو امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ اب تک ستائیسویں ترمیم کا شور ہے اس کی شقیں سامنے نہیں ...

27ترمیم کی مخالفت کرینگے ، نظام پر قبضے کی منصوبہ بندی، حافظ نعیم

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو وجود - جمعه 07 نومبر 2025

موصول شدہ چالان پر تاریخ بھی درج ،50 ہزار کے چالان موصول ہونے پر شہری نے سر پکڑ لیا پانچوں ای چالان 30 اکتوبر کو کیے گئے ایک ہی مقام پر اور2 دوسرے مقام پر ہوئے، حکیم اللہ شہر قائد میں ای چالان کا نظام بے قابو ہوگیا اور شہری کو ایک ہی روز میں 5 چالان مل گئے۔ حکیم اللہ کے مطابق...

کراچی میں سندھ حکومت کے ای چالان کا نظام بے قابو

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

پورے ملک میں ہلچل ہے کہ وفاق صوبوں پر حملہ آور ہو رہا ہے، ترمیم کا حق ان اراکین اسمبلی کو حاصل ہے جو مینڈیٹ لے کر آئے ہیں ، محمود اچکزئی ہمارے اپوزیشن لیڈر ہیں،بیرسٹر گوہر صوبے انتظار کر رہے ہیں 11واں این ایف سی ایوارڈ کب آئے گا،وزیراعلیٰ کے پی کی عمران خان سے ملاقات کیلئے قو...

27ویں ترمیم وفاق کیلئے خطرہ ، موجودہ حکومت 16 سیٹوں پر بنی ہے،آئینی ترمیم مینڈیٹ والوں کا حق ہے ،پی ٹی آئی

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسپیکر قومی اسمبلی نے اتفاق رائے کیلئے آج تمام پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاسشام 4 بجے بلا لیا،ذرائع پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایف ، اتحادی جماعتوں کے چیف وہپس اورپارلیمانی لیڈرز کو شرکت کی دعوت پارلیمنٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے معاملے پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق...

27 ویں ترمیم کی منظوری کا معاملہ ،وزیراعظم نے ایاز صادق کو اہم ٹاسک دے دیا

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم وجود - جمعرات 06 نومبر 2025

اسد قیصر، شبلی فراز، عمر ایوب، علی نواز اعوان کے وارنٹ گرفتاری جاری انسداددہشتگردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے وارنٹ گرفتاری جاری کئے انسداددہشت گردی عدالت اسلام آباد نے تھانہ سی ٹی ڈی کے مقدمہ میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئ...

پی ٹی آئی رہنماؤں کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم

مضامین
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم وجود هفته 08 نومبر 2025
ہریانہ کا ہائیڈروجن بم

پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی وجود هفته 08 نومبر 2025
پاک۔ افغان استنبول مذاکرات کی کہانی

2019سے اب تک 1043افراد شہید وجود هفته 08 نومبر 2025
2019سے اب تک 1043افراد شہید

جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی وجود جمعه 07 نومبر 2025
جموں کے شہدائ۔جن کے خون سے تاریخ لکھی گئی

خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر وجود جمعه 07 نومبر 2025
خیالی جنگل راج کا ڈر اور حقیقی منگل راج کا قہر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر