وجود

... loading ...

وجود
وجود

سقوط ڈھاکا ۔۔۔سازش کا بیج

جمعه 16 دسمبر 2016 سقوط ڈھاکا ۔۔۔سازش کا بیج


ملک توڑنے کی سازش کا بیج ڈالنے سے 1971 ء میں اس فصل کے ’’بارآور‘‘ ہونے تک یکے بعد دیگر ے رونما ہونے والے تمام واقعات کی بنیاد بنگالی قوم پرستی تھی۔ دانشوروں اور طلبا نے اس پُرفریب ’’نظریے‘‘ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم ظاہر کرکے اس کے ساتھ مکمل وفاداری کا حلف اٹھایا۔ بعض نے اپنے آپ کو اس یقین کے ساتھ بنگالی قوم پرستی کے لئے وقف کردیا کہ ان کی نسل کی بقا اسی میں ہے! پھر یہ بھی ہوا کہ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو ’’نظریہ‘‘ بنا کر اپنا لیا گیا۔ اس ضمن میں منطقی تجزیے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی اور نہ ہی جذبات کی سطح سے بلند ہوکر معاملات کا جائزہ لینے کے بارے میں سوچا گیا۔ قوم پرستی پروان چڑھتی گئی اور اس پر فدا ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ جنون کا یہ عالم تھا کہ اسے عملاً مذہبی عقیدے کی حیثیت حاصل ہوگئی! جن لوگوں نے بنگالی قوم پرستی کی مخالفت کی وہ بھی اس میں چھپی ہوئی طاقت کو نہیں سمجھ سکے اور انہوںنے بہت سے بنیادی نکات کو نظرانداز کیا جن کے باعث اس لعنت کو راتوں رات پنپنے کا موقع مل گیا۔ نوجوانوں میں قوم پرستی کے جذبات تیزی سے پروان چڑھے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ مجھے تسلیم ہے کہ میں بنگالی قوم پرستی کے سراسر خلاف تھا لیکن نوجوانوں میں اس نظریے کی مقبولیت کا میں بھی اندازہ نہیں لگا سکا اور جب یہ بم پھٹا تو پتا چلا کہ مجھ سمیت کسی نے بھی بچنے کی تیاری نہیں کی تھی۔
شیکسپیئر نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’فطرت کو میرے معصوم لوگوں کی پرورش کی خاطر وہ سبھی کچھ لانا چاہیے جو وہ چاہتے ہیں‘ خواہ زہر ہی کیوں نہ ہو!‘‘
پاکستان کے خلاف عوامی لیگ نے جس بنگالی قوم پرستی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اسے ایک فریب اور سراب کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ زبان کی بنیاد پر ابھاری جانے والی قوم پرستی لوگوں کو ہیرو ازم کی طرف لے جاسکتی ہے‘ انہیں نئے آدرش پروان چڑھانے کی تحریک دے سکتی ہے‘ انہیں جنگوں پر اکسا سکتی ہے‘ فرقہ وارانہ خانہ جنگی کو راہ دے سکتی ہے اور معاشرے میں شدید بے چینی بھی پیدا کرسکتی ہے۔ مگر کیا بنگالی قوم پرستی کو معروف معنوں میں قوم پرستی قرار دیا جاسکتا ہے؟
برصغیر کی تاریخ کی پیچیدہ نوعیت کی وجہ سے یہ بات بلا خوف و تردد کہی جاسکتی ہے کہ اس خطے میں لوگوں کو متحد رکھنے میں مذہب اور تاریخ نے زبان سے زیادہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ زبان کی بنیاد پر تنازعات بنگالیوں اور آسامیوں میں اور شمالی بھارت میں ہندی بولنے والوں اور ہندی نہ بولنے والوں کے درمیان سر اٹھاتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب بیسویں صدی میں ہوا ہے۔ انیسویں صدی میں زبان کی بنیاد پر فساد برائے نام تھا۔ علاقائیت ضرور فروغ پائی تھی تاہم وہ جغرافیائی اور مذہبی بنیاد پر تھی‘ زبان کی بنیاد پر نہیں۔ بھارت میں قوموں اور زبانوں کا تنوع رہا ہے۔ ان متنوع زبانوں اور مختلف ثقافتی پس منظر کے حامل لوگوں پر حکمران اپنے انتظامی نظریات تھوپتے رہے ہیں۔ اگر مغل اور برطانوی سلطنت زبان کی بنیاد پر قائم نہیں تھی تو قدیم ہند میں موریہ خاندان کی حکومت کی بنیاد بھی زبان نہیں تھی۔ جب بھی مرکزی حکومت کمزور پڑتی تھی اور سلطنت چھوٹے چھوٹے راجواڑوں میں تقسیم ہوجاتی تھی اس وقت بھی ہر یونٹ زبان یا اسی طرح کی کسی اور بنیاد پر کام نہیں کرتا تھا بلکہ اس کے معاملات مرکز سے بغاوت کرنے والے قائدین کے ہاتھ میں ہوا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی حکمرانی سے قبل جنوبی بھارت میں چولا اور چیرا کی بادشاہت‘ مسلم بادشاہت میں ضم ہوجانے والی وجے نگر کی ریاست‘ مرہٹوں اور سکھوں کی حکومت یا پھر بنگال کی بادشاہت‘ یہ سب زبان کی بنیاد پر قائم ہونے والی جغرافیائی اکائیاں نہیں تھیں بلکہ یہ سب رجواڑے تھے جن کی قیادت کسی انتہائی بااثر سردار کے ہاتھ میں ہوتی تھی اور ان کی حدود کا تعین اس کی فوجی طاقت کا مرہون منت تھا۔
سلطنت بنگال کو یہ نام زبان اور جغرافیہ دونوں کی بنیاد پر ملا۔ اس کی حدود میں بہار کے ہندی/ اردو بولنے والے اور شمال مشرقی بھارت میں اڑیسہ کے علاقے بھی شامل تھے۔ مشرق میں بنگال کی سلطنت آسام کی حدود تک پھیلی ہوئی تھی۔ نام کے سوا بنگال کی سلطنت میں مغلوںسے قبل کے زمانے کی ریاستوں کے مقابلے میں کوئی فرق نہ تھا۔ کسی بھی ہندوستانی یا برطانوی مورخ نے ان ریاستوں کے عروج و زوال میں زبان کے کسی کردار کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ مرہٹے مغربی ہندوستان کے جنونی ہندو تھے۔ سکھ بھی بڑی حد تک مذہبی جنونی تھے کیونکہ وہ ہندوئوں سے چند صدیاں پہلے ہی الگ ہوئے ہیں۔ نسلی طور پر سکھ اور پنجابی مسلمان ایک ہی ہیں۔
ہندوستان کے ہر دور میں زبانوں اور نسلوں کا تنوع رہا ہے۔ بہار کی مغربی سرحدوں سے پنجاب کی مشرقی سرحدوں تک پھیلے ہوئے زرخیز علاقے میں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے آئے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کو بنیاد ہندوستانی بولی کی مختلف شکلیں اختیار کرجانے والی بولی کی حیثیت سے شناخت کیا جائے تو پھر ان نسلوں کو کیا کہا جائے گا؟ راجپوتوں کی رگوں میں خالص آریہ نسل کے لوگوں کا خون دوڑتا ہے۔ دارالحکومت دہلی‘ لکھنؤ‘ الٰہ آباد اور آگرہ کے ارد گرد پورے خطے میں مختلف النسل لوگ ملیں گے۔ آریوں کی اولادیں ترک‘ مغل‘ ایرانی اور پٹھان نسلوں میں گھل مل گئی ہیں۔
زبانوں اور نسلوں کا یہی تنوع ہمیں جنوب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ جنوبی ہند میں تامل‘ تیلگو‘ ملیالم اور کنٹر بڑی اور نمایاں زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کا تعلق نسل سے نہیں۔ جنوبی ہند میں سب سے بڑا نسلی گروپ دراوڑ ہے اور اس خطے کی نمایاں زبانیں بھی دراوڑ ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود برصغیر کی تاریخ نسلی ہے نہ لسانی۔ شمال اور جنوب تعصب کی بنیاد پر تقسیم رہا ہے اور ان میں کشیدگی بھی رہی ہے تاہم اسے زبان یا نسل کا تنازع قرار نہیں دیا جاسکتا۔ برطانوی راج کے دوران جنوبی ہند میں حیدرآباد کی خود مختار ریاست میں مغل‘ ترک اور افغان نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان بڑی تعداد میں آباد تھے اور یہ لوگ اردو بولا کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ شمال کی طرف اسی طرح شک بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے جس طرح ہندو یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے دراوڑ۔ بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کے دوران جب بہار سے آباد کار بلا کر بنگال میں آبادی کا عدم توازن دور کرنے کی بات کی گئی تو مسلمانوں نے اس تجویز کی بھرپور مخالفت کی۔
برصغیر پاک و ہند آج اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں قرون وسطیٰ میں رومن ایمپائر کی شکست دریخت کے بعد یورپ تھا۔ انگلینڈ کے چاسر (Chaucer )‘ اٹلی کے دانتے (Dante)‘ فرانس کے رابلیز (Rabelais ) ‘ لاطینی کے مقابلے میں اپنی اپنی زبانوں کا جھنڈا بلند کرنے کے باوجود اپنے آپ کو سب سے پہلے یورپین ہی گردانتے تھے۔ چاسر کو انگلینڈ کی اس جداگانہ حیثیت کا احساس تھا کہ یہ یورپ سے علیحدہ ایک جزیرہ ہے۔ اسی طرح بیسویں صدی کا اٹلی دانتے کے دور کے اٹلی سے یکسر مختلف ہے اور پھر دانتے کی کل حب الوطنی اپنے شہر فلورنس کے گرد گھومتی تھی۔ ان یورپی دانشوروں نے سمجھ لیا تھا کہ مختلف علاقائی اور لسانی مظاہر سے بڑھ کر یورپی ثقافت تھی جو ان میں مشترک تھی۔ یہ دانشور بھونچکے رہ جاتے اگر کوئی ان کو بتلاتا کہ فرانس اور انگلینڈ کی یا اٹلی اور فرانس کی ثقافت کوئی الگ چیز یں ہیں۔ اس وقت کی یورپی ثقافت کی بنیاد عیسائیت اور روم و یونان کا تہذیبی ورثہ تھا۔ ان ثقافتی بنیادوں پر اگلی چار صدیوں میں یورپ میں قومی ریاستوں کا تانا بانا بُنا گیا‘ جن میں نسل اور زبان کا عنصر نمایاں تھا۔ تاہم زبان اور قومیت مکمل طور پر برتری حاصل نہیں کرسکے۔ سوئٹزر لینڈ اس کی زندہ مثال ہے۔ اسی طرح ہالینڈ ہے جو یورپی سیاست میں نمایاں ہے‘ مگر جس کا وجود زبان یا قوم کا مرہون منت نہیں ہے یا پھر جرمن زبان بولنے والا ملک آسٹریا ہے جس کی علیحدگی کی تحریک کو ہٹلر بھی نہیں کچل سکا۔ آخر ایک ہی زبان بولنے والے دو ملکوں یعنی آسٹریا اور جرمنی کا کیا جواز بنتا ہے۔ اسی طرح مشرقی اور مغربی جرمنی کو ہم کیا کہیں جو مسلمہ طور پر ایک ہی زبان بولنے والے دو ملک تھے۔
لسانی بنیاد پر قوم پرستی کی بات کرنے والوں کو ہنگری‘ ہالینڈ یا سوئٹزر لینڈ کی مثال پسند نہیں آئے گی۔ مگر کیا ریاستوں کی تشکیل میں ہم زبان اور کلچر کے کردار کو تاریخی حقائق کے معاملے میں زیادہ اہمیت دیں گے؟ رومن سلطنت کے ٹوٹ کر بکھرنے پر یورپ نے جو کچھ کیا وہی سب کچھ برصغیر میں بھی ہوا۔ مغل سلطنت کے بکھرنے پر مختلف علاقوں میں بااثر قائدین کے زیر اثر چھوٹی چھوٹی ریاستیں نمودار ہوگئیں۔ مقامی سیاست کے الٹ پھیر نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ بہار‘ اڑیسہ اور بنگال پر مشتمل علی وردی خان کی بادشاہت‘ اودھ اور آگرہ میں نوابوں کی حکمرانی‘ پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت‘ مغرب میں مرہٹوں کی‘ حیدرآباد اور میسور میں مسلمانوں کی فرماں روائی مجموعی طور پر الگ الگ ریاستوں کی شکل میں باقی رہ سکتی تھی مگر برصغیر میں برطانیہ اور فرانس کی کشمکش نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
میں اپنی بات منوانے کے لئے ماضی کو نہیں کھنگال رہا بلکہ جو کچھ میں بیان کررہا ہوں اس کا بنیادی مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ لسانی قوم پرستی ایک بالکل نئی چیز ہے۔ جو کچھ حکمرانوں نے لوگوں پر مسلط کیا ۔اس سے ہٹ کر برصغیر میں اتحاد اور یکجہتی کی بنیاد ہمیشہ مذہبی ثقافت پر رہی ہے۔ مغرب کے مرہٹے‘ مشرق کے بنگالی اور دوسرے بہت سے علاقوں کے ہندوئوں کی مذہبی روایات ایک تھیں۔ ان کے دیوتا مشترک تھے‘ گیتا اور اپنشد پر ان کا کامل یقین تھا۔ مہا بھارت اور رامائن ان کے لیے محض نظمیں نہیں تھیں بلکہ ان میں وہ مذہبی احکام بھی تلاش کرتے تھے۔ البتہ یہ اتحاد بلا استثنا نہیں تھا‘ جزوی تھا۔ کروڑوں مسلمان تھے جو کسی بھی اعتبار سے ہندوئوں کی مذہبی روایات کو قبول نہیں کرسکتے تھے۔ اگر ہم تھوڑے بہت عیسائیوں اور پارسیوں کو نہ گنیں تو پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ برصغیر کے باشندوں کو ایک لڑی میں پرونے والی چیز ہندو ازم تھا یا پھر اسلام۔ زبان یا نسل نے کبھی اتحاد کی بنیاد کا کردار ادا نہیں کیا۔ اگر ہندو ازم اور اسلام کو نکال دیا جائے تو اس خطے میں صرف نسلی اور قبائلی روایات اور ان کے باہمی تصادم سے پیدا ہونے والی بدحواسی ہی رہ جائے گی۔
کانگریس نے ہندوستان میں قوم پرستی کا جو تصور پیش کیا اس نے مسلمانوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے اس تصور کو مسترد کردیا کہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ پنڈت جواہرلال نہرو نے اپنی کتاب ’’دی ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں بھارتی یکجہتی اور یگانگت پر زور دیا ہے اور اس سے انکار کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے بھارتی یکجہتی کے جواز کے طور پر ہندو کلچر کے سوا کیا پیش کیا ہے؟ اور دوسروں کی طرح خود نہرو بھی اس خیال کے حامل تھے کہ ہندو کوئی مذہب نہیں‘ روایات کا مجموعہ ہے! وہ ہندو کلچر کو خالص مذہبی نہیں بلکہ سیکولر کلچر قرار دیا کرتے تھے۔ مشکلات اسی مقام سے شروع ہوئیں۔ گیتا‘ اپنشد اور ویدوں کے کلچر میں مذہب کو اپنانے کا تصور نہیں تھا تاہم قرآن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ قرآن کو زندگی بسر کرنے کے مکمل ضابطے کی حیثیت سے اپنانے کا واضح مطلب مذہب کو گلے لگانا ہی تھا۔ اب ہوا یہ کہ جس نے ہندو کلچر کو اپنایا اور اس کے مطابق زندگی بسر کرتا رہا وہ تو مرکزی دھارے میں شامل کہلایا اور اس سے کسی کو کوئی اختلاف نہ رہا مگر جس نے اس کلچر سے ہٹ کر کچھ اور اپنایا تو اسے قبول کرنے سے انکار کا رویہ پروان چڑھا اور اسے فرقہ پرست قرار دیا گیا۔ ہندو واضح اکثریت میں تھے اور یہ دعویٰ کرسکتے تھے کہ برصغیر کا اجتماعی کلچر ہی یہاں کا مذہب ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہندوئوں کی عددی برتری کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔
مسلمانوں نے اپنے لئے برصغیر میں الگ وطن کا مطالبہ طویل مدت تک بحث و تمحیص کے بعد کیا۔ کانگریس نے ایسے حالات پیدا کئے کہ مسلمانوں کے لئے اس مطالبے کے سوا چارہ نہ رہا۔ مسلمانوں کے جذبات کو یکسر نظر انداز کرنے اور تضحیک کا نشانہ بنانے کا یہی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ مسلمانوں کے لئے کانگریس کی تنگ نظری ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ کانگریس نے ہندوستان کے لئے یگانگت کی بنیاد ہندو مذہب اور کلچر کو بنایا اور اس حوالے سے مسلمانوں کے کسی بھی دعوے یا دلیل کو سننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ جب مسلمانوں نے یہ سوال کیا کہ کیا ہندوستانی کلچر ہندو مذہب سے ہٹ کر کوئی چیز ہے تو جواہرلعل نہرو نے ’’دی ڈسکوری آف انڈیا‘‘ میں اس کا جواب یہ دیا کہ کشمیر میں ان کی اپنی نسل کے لوگ مسلمانوں کی طرح گوشت کھاتے ہیں! اس مثال کو پیش کرنے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اس دعوے کو غلط قرار دینا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی کھانے پینے کی عادات بھی مختلف ہیں۔ نہرو نے گوشت کے لئے Beef کے بجائے Meat کا لفظ استعمال کیا۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ان کے نزدیک بعض ہندو بکرے یا مرغی کا گوشت کھاتے ہیں‘ گائے کا نہیں! کشمیر یا بھارت میں کہیں ہندوئوں کا کوئی ایسا گروپ نہیں جو گائے کا گوشت کھانے کا عادی ہو۔ مغربی طرز فکر رکھنے والے چند ایک ہندو کھاتے ہوں تو کھاتے ہوں‘ مجموعی طور پر ہندوئوں کی کوئی آبادی ایسی نہیں جو گائے کے گوشت کو خوراک کا باضابطہ حصہ بنا کر زندگی بسر کررہی ہو۔ جواہرلعل نہرو نے کشمیر میں بسنے والے ہندوئوں کو گوشت خور قرار دے کر سفید جھوٹ بولا تھا۔ نہرو جیسے پڑھے لکھے اور جدید اطوار کے حامل شخص نے بھی اس جھوٹ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔
نہرو کی کتاب میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے کلچر میں تفاوت کے حوالے سے ایک اور مضحکہ خیز مثال موجود ہے۔ نہروں نے مسلمانوں کی جانب سے ہندوئوں سے ثقافتی طور پر الگ ہونے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انہیں ایک بڑا فرق بس یہی دکھائی دیا ہے کہ مسلمان ایسے لوٹے استعمال کرتے ہیں جن میں سے پانی نکالنے کے لئے ٹونٹی الگ سے بنی ہوتی ہے جبکہ ہندو گول لٹیا کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ کلچر کے فروغ کو واضح کرنے کے لئے اس سے زیادہ احمقانہ بات اور کیا ہوسکتی ہے!
ہندوستان میں کلچر‘ زبان‘ نسل اور مذہب کا تنوع غیر معمولی رہا ہے۔ اس بنیاد پر ہندوستان کے پاس آپشن بھی اچھے خاصے تھے۔ جو لوگ برطانوی سامراج کی جانب سے انتظامی مقاصد کے لئے قائم کی جانے والی مصنوعی وحدت کو برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے وہ ایک ایسا وفاقی ڈھانچا تیار کرسکتے تھے جس میں تمام اکائیاں رنگ‘ نسل‘ کلچر یا مذہب کی بنیاد پر آزاد حیثیت کی حامل ہوتیں تاہم ویسے مل کر رہتیں۔ اس صورت میں ان کی انفرادیت اور خود مختاری دائو پر لگنے سے محفوظ رہتی۔ کانگریس کے قائدین نے ابتداہی سے یہ راگ الاپا کہ ہندوستان ایک قومی ریاست ہے اور ہندوستان کی حدود میں رہنے والے ہندوستانی ایک قوم ہیں۔ مسلمان اور دیگر اقوام نے اس تصور کی جس قدر مخالفت کی‘ کانگریس اسی شدت سے کثیر القومی ہندوستان کے تصور سے دور ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے یہ مشکل گھڑی تھی۔ ہندوستان کو ایک قوم قرار دینے میں انتہا پسند ہندو مثلاً مالویہ اور سیکولر ہندو مثلاً جواہرلعل نہرو اس حد تک چلے گئے کہ واپسی مشکل ہوگئی۔ مالویہ اور موجے جیسے لیڈر کھل کر کہتے تھے کہ ہندوستان ہندو ریاست ہوگا جبکہ پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت جواہرلعل نہرو ہندوستان کو سیکولر بنیاد پر قومی ریاست بنانے کے حق میں تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود ہندو قائدین کے ذہنوں میں واضح نہ تھا کہ ہندو ازم اور سیکولر ازم میں فرق کیا ہے۔ قدیم ویدانت کے فلسفے کو قبول کرلینا تو (مذہب نہ ہونے کے باوجود) درست تھا تاہم اسلام کو قبول کرنے میں قباحت تھی۔ برطانوی سلطنت کے ختم ہونے کی صورت میں لسانی بنیاد پر ریاستیں بھی معرض وجود میں آسکتی تھیں۔ اس صورت میں جنوب میں تو ایک دراوڑ ریاست بن جاتی‘ آسام میں زبان اور کلچر کے فرق کی بنیاد پر کئی ریاستیں معرض وجود میں آتیں‘ پنجاب میں پنجابی راج کرتے اور مغربی ہند میں مرہٹے اور گجرات والے۔ وسطی اور مشرقی ہندوستان میں بھی زبان کی بنیاد پر ریاستیں بنائی جاسکتی تھیں۔ وسطی اور مشرقی ہندوستان میں ایک ہی نسل کے لوگوں میں مختلف زبانیں بولنے والے گروپ تھے جو مختلف علاقوں میں رہتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل کوئی اچھا یا قابل عمل حل نہیں تھا۔
اگر ریاستوں کی تشکیل میں نسل سے زیادہ زبان اہم ہے تو پھر برصغیر میں جتنی بھی زبانیں ہیں اتنی ریاستیں ہونی چاہئے تھیں۔ کانگریس نے زبان کی بنیاد پر ہندوستان کو ایک انتظامی اکائی کی حیثیت سے برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ ہر زبان کی بنیاد پر الگ ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کانگریس نے ابتداہی سے اس بات پر زور دیا کہ برطانیہ نے ہندوستان کو جس شکل میں چلایا اسی شکل میں اسے برقرار رکھتے ہوئے قومی ریاست میں تبدیل کرنا چاہئے۔ انتظامی طور پر وفاق کے برقرار رکھنے کے باوجود اس کے انتظامی یونٹ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تو قومی ریاستیں ہی ہوتیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ 1935 ء کی آئینی اصلاحات کے تحت ہندوستان سے برما کی علیحدگی کی کانگریس نے مخالفت کی تھی۔ واضح رہے کہ برما ثقافتی یا لسانی اعتبار سے کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں رہا۔ کانگریس کے لیڈر عظیم تر ہندوستان چاہتے تھے جس پر وہ برطانوی سامراج کے ختم ہونے پر حکومت کریں۔ مسلمانوں کی جانب سے علیحدہ ریاست کے قیام کے مطالبے کی مخالفت بھی اسی بنیاد پر کی گئی۔ ہندو چاہتے تھے کہ برطانوی حکمرانوں کے جانے کے بعد پورا ہندوستان انہیں ملے اور وہ اس پر بلاشرکت غیرے حکومت کریں۔
(پس اس طرح ہندوئوں کی بھیانک سازش کے نتیجے میں بنگلہ زبان تحریک بگاڑ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا اور ہندوؤں نے اس تحریک کو خوب خوب بڑھاوا دیا جو 16دسمبر کو مشترکہ پاکستان کے لئے رِستا ہوا زخم ثابت ہوااور یوں مشرقی پاکستان بنگلا دیش میں تبدیل ہوگیا ۔)
پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین
(پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین سقوط ڈھاکا کے دنوں میں ڈھاکا یونیورسٹی کے چانسلر تھے۔ عین مشرقی پاکستان کی جنگ کے دوران میں انہیں ’’پاکستان حامی‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اسیری کے ایام میں اور اس سے قبل ان حالات و واقعات کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کرتے رہے جوبعدازاں سقوط ڈھاکا پر منتج ہوئے۔ ڈاکٹر سجاد حسین سقوط ڈھاکا کے حوالے سے ایک مشاہداتی اور واقعاتی رائے رکھتے ہیں جو بہت سے دیگر ’’نام نہاد مفکرین‘‘ سے مختلف ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب صرف پاک فوج اور مغربی پاکستان کی پالیسیوں میں ڈھونڈھتے ہیں۔ سقوط ڈھاکا کے حوالے سے ڈاکٹر سجاد حسین کی رائے دراصل خود بنگلہ دیش سے آنے والی ایک رائے ہے جوانہوں نے اپنی مشہور کتاب ’’شکست آرزو‘‘ کی ہے۔ زیر نظر تحریر میں ان کی کتاب کا ایک باب پیش کیا جارہا ہے جو سقوط ڈھاکا کی پُرپیچ سازش کے تاریخی حوالوں پر مبنی ہے۔)


متعلقہ خبریں


عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز وجود - جمعرات 02 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

حکومت نے رات گئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45پیسے کمی کے بعد نئی قیمت 288روپے 49پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے ۔ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 8 روپ...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات وجود - بدھ 01 مئی 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات کر دیا گیا۔ن لیگی قیادت نے الیکشن 2024ء میں اپنی نشست پر کامیاب نہ ہونے والے رانا ثناء کو شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق وزی...

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کر لیا گیا ہے ۔ اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل مروت کا نام فائنل ہونے پر تمام تنازعات ختم ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر تحریک انصاف...

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری وجود - بدھ 01 مئی 2024

گزشتہ سال نومبر میں تیزاب پھینکنے کے الزام کے حوالے سے سابق وفاقی حکومت کے مشیر شہزاد اکبر نے حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر لی۔شہزاد اکبر نے قانونی کارروائی کی کاپی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو بھجوا دی۔شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا کہ تیزاب حملے کے پیچھے حکومت پا...

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان وجود - منگل 30 اپریل 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں روکنے کی کوشش کرنے والا خود مصیبت کو دعوت دے گا۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ا...

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر