... loading ...
دہشت گردی ہو یاکوئی آفت سماوی “سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے ،عورت کو ہی سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے، نوشین فاطمہ
یہاں 1973 کے پاکستان کے آئین کو نافذ کیا جائے اور فاٹا کا انضمام خیبرپختونخوا میں کیا جائے، تکڑا قبائلی خوئندے” نامی تنظیم کی عہدیدار
ترقی یافتہ اور مہذب ہونے کے دعوے دار ملک برطانیہ میںخواتین نے سڑکوںپر چھیڑنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اور رات کے وقت جنسی حملوں جسی شدید مشکلات پر احتجاج کاسلسلہ شروع کیا ہے، برطانوی خواتین کاکہنا ہے کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔شفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی خواتین طلبہ یونین کی صدر ریچا نے کہا کہ ترقی پسند معاشرے میں بھی عورتوں کو جسمانی ،جنسی یا ذہنی تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ خواتین کیخلاف تشدد کے خاتمے کی16 روزہ مہم یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کیوں مزید آگے بڑھنا ہے۔
عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے 10دسمبر تک عالمی سطح پر 16روزہ سرگرمیاں جاری ہیں، جس کا مقصد لوگوں میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں اور اس تشدد کی وجہ سے ان کے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔عورتوں پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال25 نومبرسے10 دسمبرتک منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کیخلاف تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے پر ایک مخصوص ہدف شامل ہے۔اس سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی مہم ’’یونائٹ ٹو اینڈ وائلینس اگینسٹ وومن‘‘ کی طرف سے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تشدد کے بغیر ایک روشن مستقبل کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں اہم عمارتوں ،یادگاروں، سڑکوں ،اسکولوں اور دیگر اہم مقامات کو اقوام متحدہ کے نامزد اورنج رنگ سے روشن کریں۔
خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے جہاں پوری دنیا میں خواتین کی تنظیموں نے مختلف پروگرام ترتیب دئے ہیں، وہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا سے تعلق رکھنے والی خواتین نےG بھی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے،لیکن فاٹا کی خواتین نے یہ آواز گھریلو تشدد اور زیادتیوں کے خلاف نہیں بلکہ سیاسی طورپر انھیں مسلسل نظر انداز کئے جانے کی حکومتی روش کے خلاف بلند کی ہے ۔اطلاعات کے مطابق فاٹا کی خواتین نے مطالبہ کیا ہے کہ فاٹا کی قسمت کافیصلہ کرتے ہوئے اور مستقبل میں اس کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے مشاورت میں قبائلی خواتین کو بھی شامل کیاجائے اور اس حوالے سے مشاورتی اجلاسوں میں قبائلی خواتین کومناسب نمائندگی دی جائے۔
وائس آف امریکا سے گفتگو میں نوشین فاطمہ کا کہنا تھا کہ 2011ء میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مشیر خارجہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے متعلقہ قبائل سے مشاورت کے بعد اپنی سفارشات تیار کر کے رپورٹ پیش کر دی تھی اور اس میں قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل کرنے کا کہا گیا تھا۔تاہم اس انضمام کی جہاں سیاسی جماعتوں کی اکثریت حمایت کر رہی ہے وہیں جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بعض سرکردہ قبائلی رہنما اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
قبائلی خواتین کی ایک نمائندہ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس سارے مباحثے اور عمل میں خواتین کو نہ تو مشاورت میں شامل کیا گیا اور نہ ہی ان کے مسائل کو کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والی نوشین فاطمہ “تکڑا قبائلی خوئندے” نامی تنظیم کی عہدیدار ہیں جو قبائلی خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے کام کرتی آ رہی ہیں۔ وائس آف امریکا سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں فاٹا پولیٹیکل ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے خواتین نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی تھی اور وہ چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو سنا جائے۔ان کاکہناہے کہ دہشت گردی ہو یاکوئی آفت سماوی “سب سے زیادہ متاثر عورت ہوتی ہے ،اس لئے عورت کو ہی سب سے زیادہ امن کی ضرورت ہے لیکن حکام ہماری بات نہیں سنتے۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہاں 1973 کے پاکستان کے آئین کو نافذ کیا جائے اور فاٹا کا انضمام خیبرپختونخوا میں کیا جائے۔”نوشین فاطمہ کہتی ہیں کہ قبائلی علاقوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ایک علیحدہ صوبے کے طور پر کام کر سکے۔تاہم خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکردہ قبائلی رہنما اور سابق وفاقی وزیر حمید اللہ جان آفریدی اس انضمام کے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ خیبرپختونخوا خود ایک پسماندہ صوبہ ہے جس میں پشاور کے علاوہ اس شہر جیسی سہولتیں صوبے کے دیگر اضلاع میں موجود نہیں اور اگر فاٹا کو بھی اس میں شامل کر دیا جاتا ہے تو اس پر مزید بوجھ پڑ جائے گا۔
دوسری جانب برطانیہ میں خواتین نے سڑکوںپر خواتین کو چھیڑنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر احتجاج کاسلسلہ شروع کیا ہے، برطانوی خواتین کاکہنا ہے کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔عورتوں کیخلاف تشدد کے خاتمے کی مہم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے برطانیہ کے شمالی شہر شیفیلڈ میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی طلبہ تنظیموں کی طرف سے ‘ری کلیم دا نائٹ کے نام سے شہر میں ایک احتجاجی مارچ کیا گیا۔یہ مارچ 25 نومبر کی رات کو شہر کے قدیم چرچ شفیلڈ کیتھیڈرل کے باہر سے شروع کیا گیا جو بعد میں ایک عوامی جلوس کی شکل میں شہر کی اہم سڑکوں اور گلیوں سے گزرتا ہواشفیلڈ یونیورسٹی کے ایک کیفے میں جا کر اختتام پذیر ہوا جہاں مقررین نے 16روزہ مہم کی اہمیت پر بات کی۔شفیلڈ یونیورسٹی اور شفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی طالبات کی طرف سے نکالے جانے والے جلوس میں تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے شرکت کی جنھوں نے ہاتھوں میں احتجاجی پلے کارڈز اور بینر اٹھارکھے تھے اور وہ شہر کی سڑکوں پر خواتین کو ہراساں اور تشدد کے بغیر چلنے کا حق واپس دلوانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔
طالبات ڈرم اور ڈھول پیٹ کر شہر کی گلیوں میں چیخ چیخ کر یہ منادی کر رہی تھیں کہ ‘یہ سڑک ہماری بھی ہے ‘ اور ہم عورتیں متحد ہیں، ہم رات میں سڑکوں پر چلنے کا حق واپس مانگتے ہیں۔شفیلڈ یونیورسٹی کی طالبات کی یونین کی صدر سرینا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان دنوں اجنبیوں کے ساتھ نفرت اور اسلام فوبیا پر مبنی روئیے عام ہوتے جارہے ہیں جبکہ عورتوں کیخلاف تشدد کا رویہ بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے اور آج عورتوں کیخلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر ہم نے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والی بدسلوکیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے.انھوں نے کہا کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
شفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی خواتین طلبہ یونین کی صدر ریچا نے کہا کہ ترقی پسند معاشرے میں بھی عورتوں کو جسمانی ،جنسی یا ذہنی تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ خواتین کیخلاف تشدد کے خاتمے کی16 روزہ مہم یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کیوں مزید آگے بڑھنا ہے کیونکہ قیادت اور حوصلے کی ایسی تحریکیں کمزور خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہی ہیں۔خواتین کے جلوس میں شامل شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم الیکس نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ ان دنوں یونیورسٹی طالبات کے ساتھ اس طرح کے واقعات بڑھ گئے ہیںجس کا عام طور پر رات کے وقت سڑک پر چلنے والی عورت کو ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ یہ سچ نہیں ہوتا ہے ہم اس رویہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ شیفیلڈ یونیورسٹی کی طرف سے طالبات کے لیے ‘ڈونٹ واک ہوم الون کے نام سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بس اشتہارات میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ یارک شائر پولیس کے تعاون سے یونیورسٹی کے آس پاس کے علاقوں میں پیدل چلنے والی طالبات کو ریپ الارم دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پختونخوا کیخلاف عدالت میں حاضر نہ ہونے پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع مینا آفریدی اور ڈاکٹر امجدبھی شامل ، انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات نے سماعت کی خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کیخلاف عدالت میں حاضر نہ ہونے پر اشتہاری قرار دینے کی کارر...
المواسی کیمپ میںمتعدد زخمی ، اسرائیلی فوج کا رفح کراسنگ جزوی طور پر کھولنے کا اعلان جنوبی رفح کے علاقے میں صیہونیوں نے بارود برسا دیا،متعدد خیموں میں آگ بھڑک اُٹھی امن معاہدہ کے باوجود صیہونی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری، گزشتہ 24 گھنٹے میں غزہ میں مزید 7فلسطینی شہید اور متعدد زخ...
اراکین کی ایس آئی ایف سی کی کارکردگی، معاہدوں کے فقدان اور ملکی معاشی صورتحال پر بھی سخت تنقید، وزارت خزانہ، ایف بی آر افسران کی رشوت پر لڑائی ہوتی ہے، سینیٹر دلاور رپورٹ وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر جاری ، وزات خزانہ کیا حکومت رپورٹ اور 5300 ارب کی کرپشن کو تسلیم کرتی ہے؟ متعلق...
صوبے میں ہرحال میں امن بحال کریں گے، بند کمروں کے فیصلے اب مزید قبول نہیں،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا ہم نے عمران خان کے وژن کے مطابق عوام کو ریلیف دینا ہے، ان کیلئے ہی فیصلہ سازی کرنی ہے، خطاب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ جن لوگوں کا سیاست میں کام نہیں ہے، و...
عمران خان سے 29 روز بعد بہن کی ملاقات، انہیں سارا دن کمرے میں بند رکھا جاتا ہے اور کبھی کبھی باہر نکالتے ہیں، ذہنی ٹارچر کا الزام، سہیل آفریدی فرنٹ فٹ پر کھیلیں، شاہد خٹک پارلیمانی لیڈر نامزد بانی بہت غصے میں تھے کہا کہ یہ مجھے ذہنی ٹارچر کر رہے ہیں، کہا جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ...
پشاور و صوابی انٹرچینج میں احتجاج جاری، پارٹی قیادت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے سہیل آفریدی کا صوابی احتجاج میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ،احمد نیازی کی میڈیا سے گفتگو عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے حوالے سے پشاور اور صوابی میں پی ٹی آئی کا احتجاج جاری ہے جبکہ احتجاج...
معاشی ترقی کیلئے عملی اقدامات اُٹھا رہے ہیںکاروباری شخصیات اور سرمایہ کار قابل احترام ہیں مختلف ورکنگ گروپس کی تجاویز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا،شہباز شریف کا اجلاس سے خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ برآمدات میں اضافے پر مبنی ملکی معاشی ترقی کیلئے عملی اقدامات اُ...
سوشل میڈیا پر 90 فیصد فیک نیوز ہیں، جلد کریک ڈاؤن ہوگا،کوئی لندن میں بیٹھ کر بکواس کررہا ہے اداروں میں مسئلہ چل رہا ہے ،بہت جلد آپ یہاں آئیں گے اور ساری باتوں کا جواب دینا ہوگا، محسن نقوی تینوں صوبوں میں افغان باشندوں کیخلاف کارروائی جاری ، پختونخوا میں تحفّظ دیا جا رہا ہے، ج...
حکومت اس طرح کے واقعات کا تدارک کب کریگی، کھلے ہوئے مین ہول موت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں، معصوم بچے کی لاش گیارہ گھنٹے کے بعد ملی ،بی آر ٹی ریڈ لائن پر تیسرا واقعہ ہے،اپوزیشن ارکان کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے،بچے کی تصویر ایوان میں دکھانے پر ارکان آبدیدہ، خواتین کے آنسو نکل ...
دونوں حملہ آور سڑک کنارے کھڑے تھے، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی پولیس اسٹیشن تجوڑی کی موبائل قریب آنے پر ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس موبائل پر خودکش حملے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 6زخمی ہوگئے۔پولیس کے مطابق لکی مروت میں خو...
صوبے میں کسی اور راج کی ضرورت نہیں،ہم نہیں ڈرتے، وفاق کے ذمے ہمارے 3 ہزار ارب روپے سے زیادہ پیسے ہیں بند کمروں کی پالیسیاں خیبر پختونخوا میں نافذ کرنے والوں کو احساس کرنا چاہیے، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی نجی ٹی وی سے گفتگو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ ص...
ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے ، شہباز شریف اسے امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ،بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، ...