... loading ...
ناقص منصوبہ بندی اور وسائل کی کمی ،بجلی کے بحران کا جن وزیر اعظم نواز شریف کے قابو میں نہیں آسکا،2017میں بجلی بحران کے خاتمے کا انتخابی وعدہ پورا ہونا ناممکن ہوگیا
گڈانی میں پلان کردہ 6600 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹس ختم ،اسی طرح پنجاب اور آزاد کشمیر میں بھی مختلف پاور پراجیکٹس معطلی یا تاخیر کا شکار
نیلم جہلم پرہائیڈروپاورپراجیکٹ کیلیے 50 ارب روپے کچھ زیادہ نہیں ہیں، اور اس کے بجائے حکومت 59 ارب روپے ویسے ہی تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر خرچ کر رہی ہے۔طاہر دھندسا کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے آبی وسائل و ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے، کیونکہ پالیسی ساز توانائی کو قلیل مدت کے سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں، اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ہائیڈروپاور پراجیکٹس تعمیر ہونے میں زیادہ عرصہ اور سرمایہ لیتے ہیں، لیکن طویل مدت میں ان سے پیدا ہونے والی بجلی کافی سستی ہوتی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے امپورٹڈ پاور پلانٹس کسی سیاستدان کی پانچ سالہ مدت کے خاتمے سے پہلے پہلے اپنا کام شروع کر سکتے ہیں لہٰذا حکومت بھی پیسے بچانے کے لیے وہ پرانی ٹیکنالوجی خرید لیتی ہے جو چینی کمپنیاں اب اپنے ملک میں آلودگی ختم کرنے کے پریشر کے تحت استعمال کرنا چھوڑ چکی ہیں۔
وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے رواں سال کچھ اچھا نہیں رہا ہے، کیونکہ بجلی کے بحران کا جن اس سال بھی قابو میں آنے کے بجائے اب بھی بے قابو نظرآرہا ہے۔نواز شریف اوران کے بھائی شہباز شریف نے اپنی پوری انتخابی مہم کے دوران اور 2013 کے انتخابات میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھی اپنے اس وعدے کااعادہ کیا تھا کہ وہ 2017 تک ملک سے بجلی بحران کا خاتمہ کر دیں گے، لیکن ان کے ان وعدوں اور مختلف جلسوں سے خطاب کے دوران لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی لانے کے دعووں کے برعکس یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں یہاں تک کہ خود شہباز شریف کے پایہ تخت لاہور کے بعض علاقوں میں بجلی کابحران اور لوڈ شیڈنگ کاعذاب پوری شدت کے ساتھ موجود ہے ، اگرچہ سردی کاموسم شروع ہونے کے بعد گھریلو صارفین کوکچھ سکون مل گیاہے لیکن بجلی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہورہی ہے ،دوسری جانب دن میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہوتی ہیں ۔خاص طورپر وہ لوگ جن کا کاروبار بجلی کے دم سے ہی قائم ہے ،جس میں ویلڈنگ کا کام کرنے والے ،پرنٹنگ پریس اور دیگر مشینری اور فرنیچر تیار کرنے والے ادارے اور مزدور پریشان ہیں ،اور ان کیلئے دو ووقت کی روٹی کاانتظام کرنا بھی مشکل ہوجاتاہے۔ اس صورت حال کے سبب اب لوگ برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ بجلی کے اس بحران پر قابو پانے میں ناکامی اب حکومت کی بنیادیں ہلا سکتی ہے۔ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 22,797 میگاواٹ ہے، لیکن پیداوار صرف 12,000 میگاواٹ تک محدود ہے۔ حالیہ کچھ برسوں میں بجلی کی طلب 19,000 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ووڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کے لیے سینئر پروگرام ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ توانائی کا بحران حکومت کی تباہی کا ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک مضبوط فوج کی موجودگی میں شریف حکومت کے لیے پالیسی سازی کی جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘اگر بجلی کے بحران کے خلاف عوام کی بڑی تعداد احتجاج کرتی ہے، اور یہ احتجاج ملک بھر میں کئی کئی دن تک کے لیے ہوتے ہیں، تو فوج شاید نواز شریف سے جلد انتخابات کروانے کا کہہ دے۔’ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ حکومت نے صوبہ بلوچستان کے علاقے گڈانی میں پلان کردہ 6600 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پراجیکٹس ختم کرادئے ہیں اور بعض اطلاعات کے مطابق چینی سرمایہ کاروں نے کوئلے سے چلائے جانے والے 6مجوزہ پلانٹس میں سے سرمایہ یہ کہہ کر نکال لیا کہ پراجیکٹ انفرااسٹرکچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے ناقابلِ تکمیل ہیں۔ یہ پراجیکٹ پاک چین اکنامک کوریڈور نامی انفرااسٹرکچر اور توانائی کے 45.6 ارب ڈالر کے منصوبوں کا حصہ تھے۔مشہور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی جو وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کے پالیسی اصلاحات یونٹ کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ان پراجیکٹس کے ساتھ ایسا ہونا ہی تھا۔ ان کے مطابق پلانٹس کے لیے امپورٹڈ مہنگا کوئلہ ان لوڈ کرنے کے لیے جیٹیاں بنانی پڑتیں، اور ایسی جگہ پر کوئلے کے پلانٹس کی تعمیر سے کوئلے کے ذرات سیدھے کراچی کی جانب آتے۔توانائی کے شعبے کے ایک حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چینی حکومت گڈانی پراجیکٹ میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی بلکہ صرف بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر و ترقی چاہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ جانتے تھے کہ پراجیکٹ فیزیبل نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے پریشر کے سامنے مجبور ہوگئے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ پراجیکٹ ٹیکنیکل ورکنگ کمیٹی سے آگے نہیں بڑھیں گے، اور یہی ہوا۔فروری کے اوائل میں پنجاب میں چین کی مدد سے 6600 میگاواٹ کے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کا ایک اور منصوبہ تعطل کا شکار ہواتھا۔لیکن پاکستان کے توانائی بحران کا قصہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں زیرِ تعمیر 963 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹ جسے 2016 میں مکمل ہونا تھا، اب 50 ارب روپے کی کمی کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا نظر آتا ہے، کیونکہ اطلاعات کے مطابق چینی ٹھیکیداروں نے پانی کو متبادل راستے سے گزارنے والی زیرِ زمین سرنگ کی تعمیر کے لیے مشینیں دینے سے انکار کردیاہے۔ یہ ڈیم دریائے نیلم کے پانی کو ایک زیرِ زمین سرنگ کے ذریعے دریائے جہلم تک پہنچائے گا۔دریائے جہلم بھارت سے ہوتا ہوا پاکستان آتا ہے، اور ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق پراجیکٹ کی تعمیر میں تاخیر سے بھارت کو موقع مل جائے گا کہ وہ اپنے حصے کے دریا پر پہلے ہائیڈروپاور پراجیکٹ تعمیر کر لے، اور پہلے استعمال کرنے والے کے حقوق کے تحت دعویٰ کر بیٹھے، جس پر سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک اتفاق کر چکے ہیں۔
پانی یا تیل؟
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہائیڈروپاور ملک کے توانائی بحران کو حل کرنے کا سستا ترین طریقہ ہے۔ اسلام آباد کے سسٹین ایبل پالیسی ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کے طاہر دھندسا کا کہنا ہے کہ 50 ارب روپے کچھ زیادہ نہیں ہیں، اور اس کے بجائے حکومت 59 ارب روپے ویسے ہی تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے پر خرچ کر رہی ہے۔طاہر دھندسا کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے آبی وسائل و ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں ناکام ہے، کیونکہ پالیسی ساز توانائی کو قلیل مدت کے سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں، اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ہائیڈروپاور پراجیکٹس تعمیر ہونے میں زیادہ عرصہ اور سرمایہ لیتے ہیں، لیکن طویل مدت میں ان سے پیدا ہونے والی بجلی کافی سستی ہوتی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے امپورٹڈ پاور پلانٹس کسی سیاستدان کی پانچ سالہ مدت کے خاتمے سے پہلے پہلے اپنا کام شروع کر سکتے ہیں ۔ حکومت بھی پیسے بچانے کے لیے وہ پرانی ٹیکنالوجی خرید لیتی ہے جو چینی کمپنیاں اب اپنے ملک میں آلودگی ختم کرنے کے پریشر کے تحت استعمال کرنا چھوڑ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس میں ہائیڈروپاور پراجیکٹس کی نسبت کہیں زیادہ کک بیکس موجود ہوتے ہیں۔دھندسا کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان تین سے چار بڑے ڈیم تعمیر کرلے، تو اس کے توانائی کے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔ نہ صرف یہ کہ اگلے 50 سال کے لیے بجلی پیدا ہوگی، بلکہ پانی ذخیرہ کر کے (زراعت کے لیے) بھی استعمال کیا جاسکے گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس مستقبل میں اتنا پانی ہو گا کہ وہ بجلی پیدا کر سکے؟
پاکستان کے وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ پاکستان پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق اگلے 6 سے 7 سال میں پاکستان پانی سے محروم ملک بن سکتا ہے۔مائیکل کوگلمین کے نزدیک سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ پاکستان کے توانائی بحران کے زیادہ تر حل کسی نہ کسی وسیلے کی بڑی تعداد میں دستیابی پر منحصر ہیں، جن کی دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ مجوزہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے رک گیا، جب بھی بڑے ڈیموں کی تعمیر کی بات کی جائے تو ماحولیاتی کارکن اور این جی اوز اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، اور پاکستان کے پاس اتنی ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ وہ اپنے کوئلے کے ذخائر کو خود استعمال کر سکے۔ملک کی نصف سے زیادہ بجلی مہنگے، امپورٹڈ تھرمل ایندھن سے حاصل کی جاتی ہے۔ تیل اور گیس سے بجلی کی پیداوار کا مطلب صارفین کے لیے مہنگی بجلی ہے۔ 25 فیصد توانائی تقسیم کے نظام میں خامیوں، پرانے انفرااسٹرکچر، چوری، اور خراب مینجمنٹ کی وجہ سے ضائع ہوجاتی ہے،اس بحران کو دور کرنے کیلئے اس سب کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
شمسی و پن بجلی؟
شریف حکومت اب امید کر رہی ہے کہ پاکستان میں صاف ستھری شمسی اور پن بجلی کم خرچ میں پیدا کی جائے تاکہ بجلی کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔ حکومتِ پاکستان نے حال ہی میں سولر پینلز پر درآمدی ٹیکس ختم کیا، اور گرڈ سے کنکٹ ہونے والے سولر پینلز اور چھتوں پر سولر پینلز نصب کرنے کی اجازت دی ہے تاکہ ملک میں شمسی توانائی کے حصول کو فروغ دیا جا سکے۔پچھلے سال حکومت نے ملک کا پہلا سولر پارک تعمیر کیا، جو ابتدائی طور پر نیشنل گرڈ میں 100 میگاواٹ اور جلد ہی 1000 میگاواٹ کا اضافہ کرے گا۔لیکن ماحول دوست توانائی ملک میں توانائی کی پیداوار میں کوئی خاص کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی۔ مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ہوا اور دھوپ سے بجلی پیدا کرنے کی بہت زیادہ سکت نہیں ہے، اور اتنی تو بالکل بھی نہیں ہے کہ ملکی طلب کو پورا کر سکے۔لیکن پاکستان کے الٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کراچی کے انچارج شفقین شاہد اس سے بہت زیادہ پر امید ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان 2017 تک ہوا اور سورج کی روشنی سے 1900 میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں ہوا اور دھوپ انتہائی وافر مقدار میں موجود ہیں، اور اس وجہ سے پیداوار بڑھ بھی سکتی ہے۔شاہد نے بتایا کہ -50 50 میگاواٹ کے ہوا سے چلنے والے تین پراجیکٹ نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کرنا شروع کر چکے ہیں، جبکہ مزید 400 میگاواٹ کے پراجیکٹس پائپ لائن میں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی بھی ریگولیٹری مشکلات ہیں۔ سرمایہ دار ونڈ ملز اور سولر پارکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
صدراور وزیراعظم کے درمیان ملاقات میں پہلگام حملے کے بعد بھارت کے ساتھ کشیدگی کے پیشِ نظر موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال، بھارت کے جارحانہ رویہ اور اشتعال انگیز بیانات پر گہری تشویش کا اظہار بھارتی رویے سے علاقائی امن و استحکام کو خطرہ ہے ، پاکستان اپنی علاقائ...
پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے ، کوئی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہ رہے، بھارت کے کسی بھی مس ایڈونچر کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے ، پاکستان علاقائی امن کا عزم کیے ہوئے ہے پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے منگلا اسٹرائیک کور کی جنگی مشقوں کا معائنہ اور یمر اسٹر...
دستاویز پہلگام حملے میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے ، رپورٹ دستاویز ثابت کرتی ہے پہلگام بھی پچھلے حملوں کی طرح فالس فلیگ آپریشن تھا، ماہرین پہلگام فالس فلیگ آپریشن میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کا کردار بے نقاب ہوگیا، اہم دستاویز سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹی...
نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق زیرِ التوا کیسز کو نمٹایا جائے گا اپیل پر پہلے پیپر بکس تیار ہوں گی، اس کے بعد اپیل اپنے نمبر پر لگائی جائے گی ، رپورٹ رجسٹرار آفس نے 190ملین پاؤنڈ کیس سے متعلق تحریری رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔تحریری رپورٹ...
تمام انسانوں کے حقوق برابر ہیں، کسی سے آپ زبردستی کام نہیں لے سکتے سوال ہے کہ کیا میں بحیثیت جج اپنا کام درست طریقے سے کر رہا ہوں؟ خطاب سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہاہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ججز انصاف نہیں کرتے ، آپ حیران ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ انصاف تو ا...
پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...
پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...
دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...
تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...
زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...
8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...
دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...