... loading ...
صدر اردگان نے ترک عوام سے یورپ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے رواں سال کے اختتام تک تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے
مشرقِ وسطیٰ کے مہاجرین کے بحران اورگولن کو بے دخل کرکے ترکی کے حوالے کرنے میں ناکامی پر اوباما انتظامیہ سے اظہار مایوسی
دنیا بھر میں اس وقت سیاسی طور پر بھونچال کی سی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے ،پرانے اور طاقت کے بڑے مجسمے ٹوٹنے کے قریب ہیں،کئی ممالک نے عالمی عدالت انصاف سے رکنیت واپس لے لی ہے ،امریکا کے مقابلے میں چینی معیشت پروان چڑھ رہی ہے ،روس نے اپنے دیرینہ دشمن ملک پاکستان کے ساتھ جنگی مشقیں کیں،دو بظاہر بدترین مخالف ملک ایران اور امریکا شام کے معاملے پر تقریباً ایک ساتھ کھڑے ہیں۔شامی مہاجرین کے حوالے سے یورپ کی بے حسی اور ترکی کی لازوال قربانی نے یورپی یونین کے رکن بننے کے خواہشمند ترکی کو متنفر کردیا ہے ۔بھارت امریکا کی بانہوں میں آکر خود کو خطے کا چوکیدار سمجھنے لگا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ چین اور ترکی وہ دیرینہ دوست ریاستیں ہیں جو پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرکے لوٹنے والے عظیم دوست ملک ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے چین سے معاشی تعلقات وابستہ کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔خیال یہ ہے کہ اگر واقعتااس طرح کا کوئی بلاک بن جاتا ہے تو یہ نہ صرف ترکی اور ایشیا کے لیے بلکہ خود ہمارے ملک پاکستان کے لیے بہت خوش آئند ہوگا اور اس طرح شنگھائی معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کے دو مخلص دوست ایک جگہ جمع ہوجائیں گے ، اتفاق سے تینوں ملکوں کا حریف بھی مشترکہ ہے ۔یاد رہے کہ ترکی کی جغرافیائی حیثیت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ ریاست ایشیا اور یورپ کے سنگم پر واقع ہے تاہم برسوں یورپی یونین نے اقتصادی طور پر مضبوط ملک کو رکن بنانے کا لارا لپا دینے کے باوجود تاحال ترکی کے لیے صرف مسائل کھڑے کیے ہیں اور معاہدوں پر آئیں بائیں شائیں کا رویہ اپنائے رکھا جس میں تازہ ترین معاملہ شامی مہاجرین کی امداد کا معاہدہ ہے جس پر یورپ نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جبکہ جولائی میں ترک حکومت کے خلاف بغاوت پر بھی یورپی یونین نے بجائے ترک جمہوریت کا ساتھ دینے کے الٹا باغیوں کے حقوق جیسے معاملات اٹھا کر ترک انتظامیہ کو سیخ پا کر دیا۔
خبر یہ ہے کہ ترک صدر نے یورپ کی جانب سے مسلسل مسائل کھڑے کیے جانے پر کہا ہے کہ یورپی یونین نہیں تو شنگھائی بلاک میں شامل ہوا جاسکتا ہے ۔صدر اردگان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن اور قازقستان کے صدر نور سلطان نذربائیوف سے اس حوالے سے بات جیت کر چکے ہیں۔ترک صدر رجب طیب اردگان کا کہنا ہے کہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرنے سے متعلق ‘جذباتی وابستگی’ نہیں ہونی چاہیے اور وہ روس اور چین کے ساتھ یوروایشین گروپ میں شامل ہوسکتا ہے۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ دونوں ممالک شنگھائی پیکٹ کے ممبران ہیں جس میں چین، کرغستان اور تاجکستان شامل ہیں۔خیال رہے کہ جولائی میں ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد ترکی کے یورپی یونین میں شامل کیے جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔یورپی ممالک کا کہنا ہے صدر اردگان کی جانب سے کی گئی کارروائیاں ویزا فری سفر کے بلاک میں شامل ہونے کے اصولوں کے منافی ہوسکتی ہیں۔ترک اخبار حریت اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردگان نے ازبکستان میں سے پرواز کرتے ہوئے ترک صحافیوں کو بتایا کہ ترکی کو یورپی یونین شمولیت سے متعلق جذباتی وابستگی نہیں رکھنی چاہیے۔صدر اردگان نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس سال کے اختتام تک ان کی رکنیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرے۔ان کا کہنا تھا کہ شاید کچھ لوگ تنقید کریں لیکن میں اپنی رائے دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں سوال کرتا ہوں ترکی شنگھائی 5 میں شمولیت کیوں نہ اختیار کرے؟
صدر اردگان کی جانب سے ترکی کے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (شنگھائی پیکٹ) میں شمولیت اختیار کرنے کا خیال پہلے بھی کئی بار پیش کیا جاچکا ہے جس سے اس کی یورپی یونین کی رکنیت کی امیدیں ختم ہوسکتی ہیں۔تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر اردگان نے ترک عوام سے یورپ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے رواں سال کے اختتام تک تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے ہے اور ساتھ میں یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ آئندہ سال 2017 میں یورپی رکنیت کے حوالے سے ریفرینڈم کرایا جا سکتا ہے۔ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے 1987 میں درخواست دی تھیتاہم اس حوالے سے بات چیت کا آغاز سنہ 2005 میں ہوا تھا۔
برسلز نے ترک حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر بغاوت کی سازش کرنے والے افراد اور گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور انقرہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور آزادی کا خیال رکھے۔ترکی میں حکام نے جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کی کوشش میں ملوث ہونے کے الزام میں فوجیوں اور پولیس اہلکاروں سمیت مزید 15 ہزار سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کر دیا ہے۔حکام نے ملک میں کام کرنے والے مزید 9 میڈیا اداروں، 18 خیراتی اداروں اور دیگر پانچ سو اداروں کو بھی بند کر دیا ہے۔حکام کا کہنا تھا کہ بغاوت میں حصہ لینے والے فوجی اہلکاروں کے پاس 35 جہاز، 37 ہیلی کاپٹر، 74 ٹینک اور تین بحری جہاز تھے۔
پاکستان کے دورے کے موقع پر ترک صدر نے کہا تھا کہ فتح اللہ گولن کی تنظیم پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہے اور اس سے منسلک ادارے کے خلاف پاکستانی حکومت کے اقدامات دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہیں۔پاکستان میں ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے دورے سے پہلے فتح اللہ گولن کی تنظیم سے منسلک پاک ترک ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے افراد کو 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔جس پر ملکی میڈیا نے اس معاملے کو کشیدگی کا باعث بنا لیا ہے تاہم ترکی کا موقف یہ ہے کہ طلبا کے مستقبل خراب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اسکول بند نہیں کیے جارہے بلکہ عملہ تبدیل کیا جارہا ہے ۔
ترک صدر رجب طیب اردگان نے گزشتہ روز کہا ہے کہ انھیں صدر براک اوباما کی انتظامیہ سے بہت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے مہاجرین کے بحران اور امریکا میں مقیم علامہ فتح اللہ گولن کو بے دخل کرکے ترکی کے حوالے کرنے میں ناکام رہی ہے۔انھوں نے سی بی ایس کے پروگرام ”60 منٹ” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” وہ ( اوباما انتظامیہ) ان ایشوز کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہی ہے۔ ترکی میں اس وقت شام اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے قریباً تیس لاکھ مہاجرین رہ رہے ہیں۔یہ تعداد یورپ جانے والے تمام شامی مہاجرین کی تعداد سے دْگنی ہے”۔
صدر اردگان نے اس انٹرویو میں ایک مرتبہ پھر امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو ان کی حکومت کے حوالے کرے۔ علامہ گولن 1999ء سے امریکی ریاست پنسلوینیا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
صدر اردگان کا کہنا ہے کہ تطہیر کا یہ عمل قانونی اور مناسب تھا۔ اب اگر امریکا فتح اللہ گولن کو بے دخل کرنے سے گریزپا رہتا ہے تو ترک عوام یہ سمجھیں گے کہ ناکام فوجی بغاوت میں امریکا کاہاتھ تھا۔
انھوں نے کہا: ” یہ شخص ایک ایسی دہشت گرد تنظیم کا لیڈر ہے جس نے میری پارلیمان پر بمباری کی تھی”۔انھوں نے بتایا کہ ”ترکی نے ماضی میں مشتبہ دہشت گردوں کو بے دخل کرکے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اب وہ اپنے اپنے امریکی اتحادی سے بھی یہی توقع کرتا ہے”۔
انھوں نے امریکی ٹیلی ویڑن سے انٹرویو میں ان قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے دوران خوف زدہ ہوگئے تھے۔”اگر آپ لیڈر ہیں تو پھر آپ کو اپنے عوام کا مورال بلند رکھنے کے لیے پیغام دینا ہوتا ہے”۔
ادھر گزشتہ چند مہینوں قبل فضائی حدود سے تجاوز کرنے پر ترکی نے روسی طیارہ مار گرایا تھا جسکے بعد شنگھائی بلاک میں ترکی کی شمولیت کا امکان معدوم ہوگیا تھاتاہم اگست میں ترک میڈیا نے خبر دی کہ قازق صدر نذربائیوف نے انقرہ اور ماسکو کے مابین تنازع ختم کرنے میں کردار ادا کیا تھا جس کے بعد ترکی کے شنگھائی بلاک میں شمولیت کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔
افغان طالبان کے کئی بٹالین ہیڈ کوارٹر تباہ،فوج نے ہیڈکوارٹر نمبر 4 اور 8 سمیت بارڈر بریگیڈ نمبر 5 کے اہداف کو کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا، تمام اہداف باریک بینی سے منتخب کئے،سیکیورٹی ذرائع پاکستان نے صوبہ قندھار اور کابل میں خالصتاً افغان طالبان اور خوارج کے ٹھکانوں پر کارروائ...
جوڈیشل کمیشن قائم کرکے آئی جی اسلام آباد اور محسن نقوی کو شامل کیا جائے، امن صرف بات چیت سے آتا ہے،ہم اپنے ہی ملک میں غیر محفوظ ہوگئے ہیں،سب کو اس ملک کیلئے کھڑا ہونا چاہیے پیرول پر رہا کیا جائے، پاک افغان کے درمیان امن کراسکتا ہوں،دو مسلم اور ہمسایہ ممالک میں لڑائی کسی کے مف...
دنیا بھارت کو سرحد پار دہشت گردی کا حقیقی چہرہ اور علاقائی عدم استحکام کا مرکز تسلیم کرتی ہے غیرضروری گھمنڈ اور غیر مناسب بیانات شہرت پر مبنی جارحانہ ذہنیت کو جنم دے سکتے ہیں ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دنیا بھارت کو سرحد پار دہشت گردی کا حقیقی چہرہ اور علاقائی عدم استحکام کا...
قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ڈیٹا فراہم ، کال ڈیٹا ریکارڈ سے ماسٹر مائنڈز کی شناخت ہوگئی ملک گیر نیٹ ورک اور کمانڈ پوائنٹس کی نشاندہی،بڑے شہروں میں چھاپوں کی منصوبہ بندی مکمل مذہبی جماعت کے پرتشدد احتجاج کے منتظمین کی نشاندہی کرنے کے بعد تمام مشتعل عناصر کی فہرست تیار کر لی ...
میری اپنی فیملی فوج میں ، فوج سے میری کوئی دشمنی نہیں بلکہ فوج کو پسند کرتا ہوں، فوج میری ، ملک بھی میرا ہے اور شہدا ہمارے ہیں،جس چیز سے مُلک کو نقصان ہو رہا ہو اُس پر تنقید کرنا فرض ہے ، غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا بند ہونا چاہیے، افغانستان سے کشیدگی میں دہشت گردی بڑھنے کا خطرہ ہے...
ماضی میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا اب بھی کرسکتا ہوں، معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، افغان قیادت سے رابطے ہوئے ہیں،معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے افغان وزیر خارجہ کے کشمیر پر بیان پر واویلا کرنے کی بجائے کشمیر پر اپنے کردار کو دیکھنا چاہئے،کیا پاک...
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے بانی پی ٹی آئی کی بہن عدالت میں پیش نہیں ہوئیں، حاضری معافی کی درخواست مسترد کردی 26 نومبر احتجاج کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے علیمہ خان کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیدیا۔انسداد دہشت گ...
چھپنے کی کوئی جگہ باقی نہیں بچی، کارروائی قانونی دائرے میں رہے گی، گرفتاری ہر صورت ہو گی خود کو قانون کے حوالے کریں، زخمی ہیں تو ریاست طبی سہولیات فراہم کرے گی، پولیس ذرائع پولیس نے صرف ایک دن کی روپوشی کے بعد تحریک لبیک کے امیر حافظ سعد رضوی اور انکے بھائی انس رضوی کا سراغ ل...
میرے پاس تمام حقائق آ گئے ہیں، علی امین گنڈاپور مستعفی ہو چکے اس حوالے سے گورنر کے خط سے فرق نہیں پڑتا گورنر فیصل کریم نے حلف نہ لیا تو اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی حلف لیں گے، چیف جسٹس نے فیصلہ سنا دیا ہائی کورٹ نے گورنر خیبرپختونخوا کوآج شام چار بجے تک نومنتخب وزی...
پرچی سے وزیر اعلیٰ نہیں بنا، محنت کر کے یہاں پہنچا ہوں، نام کے ساتھ زرداری یا بھٹو لگنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا،خیبرپختونخواہ میں ہمارے لوگوں کو اعتماد میں لیے بغیر آپریشن نہیں ہوگا بانی پی ٹی آئی کو فیملی اور جماعت کی مشاورت کے بغیر ادھر ادھر کیا تو پورا ملک جام کر دیں گے، ...
سیکیورٹی اداروں نے کرین پارٹی کے کارکنان کو منتشر کرکے جی ٹی روڈ کو خالی کروا لیا، ٹی ایل پی کارکنوں کی اندھا دھند فائرنگ، پتھراؤ، کیل دار ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا استعمال کارروائی کے دوران 3 مظاہرین اور ایک راہگیر جاں بحق، چالیس سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی،شہر...
سربراہ سعد رضوی مذاکرات کیلئے تیار تھے،مظاہرین سے بات چیت کیوں نہیں کی؟ امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے تحریک لبیک پاکستان کے مظاہرین پر پولیس فائرنگ اور بہیمانہ تشدد کی پرزورمذمت کی ہے اور اسے ظالمانہ، انتہائی افسوسناک اور تکلیف دہ قرار دیا ہے۔ منصورہ سے جاری بیا...