... loading ...
15 اپریل 1985ء کا دن کراچی کے حوالے سے وہی بھیانک اہمیت رکھتا ہے جو دنیا بھر میں دہشت گردی کے باب میں نائن الیون رکھتا ہے۔ (امریکا میں چونکہ مہینہ تاریخ سے پہلے لکھا جاتا ہے اس لیے 11 ستمبر 2001ء کو نائن الیون کہتے ہیں) اس کے بعد کراچی وہ پہلے جیسا کراچی رہا نہ اس وقت کے امریکی نائب صدر ڈک چینی سے منسوب ایک قول کے مطابق دنیا پہلے جیسی دنیا نہیں رہی۔
کراچی میں اپریل کی اُس صبح پونے بجے، تین طالبات پاپوش نگر سے عین اپنی درس گاہ سر سید گرلز کالج کے سامنے نواب صدیق علی خان روڈ پر بس سے اتریں۔ جب وہ کالج کے گیٹ کے سامنے دوسری جانب سے سڑک پار کررہی تھیں۔ سامنے سے ریس لگاتی ہوئی، سگنل توڑتی ہوئی، روٹ نمبر این۔ ون کی دو منی بسوں میں سے ایک ( جسے ڈرائیور ارشد حسین چلا رہا تھا) ان تین طالبات میں سے دو سگی بہنوں بشریٰ زیدی اور نجمہ زیدی کو کچلتی ہوئی فرار ہوگئی۔
ناظم آباد نمبر ایک کی چورنگی کے اردگرد کالجوں کی کثرت ہے اس لیے اپنی ساتھی کی بہیمانہ ہلاکت پر فوری طور پر ہنگامے پھوٹ پڑے۔ یہاں ہونے والے احتجاج کو پر تشدد بنانے والوں میں یہ بات بتدریج پھیلائی گئی کہ ڈرائیور پختون تھا اور یہ سارا ہنگامہ پختونوں کی زیادتی کا عوامی اور فطری رد عمل ہے۔ حالانکہ اسی دن شام چار بجے کے قریب سندھ پولیس کے جس سپاہی ممتاز کو اپوا کالج کے میدان کے باہر چند شر پسندوں نے زندہ جلادیا اس کا تعلق اندرون سندھ سے تھا۔وہ بے چارہ چند دن پہلے ہی اندرون سندھ سے آیا تھا اور ریزرو پولیس میں تعینات تھا۔
آپ اگر ہلاک شدگان کے نام اور جائے حادثہ کا محل وقوع ذہن میں رکھیں تو یہ سمجھنا مشکل نہ ہوگا کہ اس المناک حادثے میں مرنے والوں کا دکھ اپنی جگہ مگر عوام میں دیر سے کلبلاتا ہوا غصہ اور ایران اور افغانستان کے انقلابات کے نتیجے میں جنم لینے والی PROXY WARS پاکستان کی افغانستان میں روسی افواج کے مقابلے میں امریکا کی بذریعہ طالبان اعانت ان تینوں عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وہ تین عوامل تھے جو فی الفور ان فسادات اور اس بگاڑ کے آتش بداماں محرکات بن گئے۔
ایسا لگتا ہے کہ پہلے سے بنے ہوئے ایک منصوبے کے تحت مختلف Sleeper Cells ایسے کسی بڑے حادثے کے منتظر تھے جس کی آگ کو وہ باقاعدہ نفرت کے الاؤ میں بدل کر فسادات کو بھڑکا سکیں۔ یہ خوابیدہ فتنہ ساز (Sleeper Cells) وہ تھے جن میں مشرق، مغرب(را) کے پڑوسیوں کی خفیہ ایجنسیاں اور شمال (خاد) اور بعد از شمال یعنی کے جی بی ایجنٹ مقامی باشندوں کے روپ میں سرگرم عمل دکھائی دیتے تھے۔
یوں ایک اندوہناک ٹریفک حادثے کا سین فوری طور پر کراچی وسطی سے آناً فاناً کراچی غربی میں اورنگی کی جانب منتقل کردیا گیا اور پٹھانوں کی قتل و غارت گری کا بازار گرم کرکے اسے تا دیر بھڑکنے والے لسانی فسادات کا روپ دے دیا گیا۔
کراچی کے عوام کے لیے سب سے پہلا مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت ساڑھے چار لاکھ افراد کی آبادی والے کراچی کا پھیلاؤ کل پچیس کلو میٹر تھا جو 2001ء میں پھیل کر 680 کلو میٹر تک پہنچ گیا مگر مختلف انواع کی ٹرانسپورٹ کو بتدریج ایسی ٹرانسپورٹ سے بدل دیاگیا جو مالکان کے لئے سستی ٹریفک کے حوالے سے کم افادیت کی اور مختلف علاقوں سے کراچی کا رخ کرنے والے بے روزگاروں کے لیے فوری آمدنی کا باعث بن گئی۔لہذا ٹرام، ڈبل ڈیکر بسوں، سرکاری بسوں کی جگہ اعصاب کو جھنجھلادینے والے موٹر رکشہ اور در آمد شدہ چیسیز کے اوپر مقامی ڈیزائن کی منی بسوں نے لے لی۔
سن ستر کی دہائی میں کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی۔ مضافاتی بستیوں سے سستی ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا ذمہ کے۔ آر۔ ٹی۔ سی ( کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی) کا ہوتا تھا۔ لوگ اس سروس سے بہت مطمئن تھے۔اس کا عملہ عام طور پرسرکاری ملازم ہونے کے ناطے بد سلوکی سے بہت پرے رہتا تھا۔ یہ 1996 میں بند ہوئی تو اس کی جگہ پرانی تیز رفتار منی بسیں آگئیں۔ ان میں کرائے زیادہ، عملہ زیادہ تر جھگڑالو اور ہمہ وقت مار پیٹ پر آمادہ دکھائی دیتا تھا۔ گھریلو مسائل سے تنگ، مسقبل سے ہراساں کراچی کے ملازمت پیشہ افراد اور طالب علم کا اپنی جائے ملازمت اور درسگاہوں تک آنے جانے کا سفر تکلیف اور بے عزتی کا سفر تھا۔ ان منی بسوں کے بد زبان، میلے اور لالچی ڈرائیور اور کلینر ذرا ذرا سی بات پر کراچی کے لوگوں پر یہ پستول تان لیتے تھے اور ڈرانے کے لیے گاہے بہ گاہے ایک آدھ ہوائی فائر بھی داغ دیتے تھے۔ نوجوان اس پر خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے تھے مگر بے بس تھے۔ پولیس چونکہ ان سے بھتہ لیتی تھی لہذااہل کراچی کانہ تو تھانہ اور نہ ہی ٹریفک پولیس پرسان حال بنی۔یہ عوام میں نفرت کے جمع ہونے کا بہت بڑا سبب بنا اور ایک سیاسی جماعت کی تخلیق کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب بنا۔
کے آر ٹی سی سے کچھ دن پہلے ہی محمد علی ٹراموے بند ہوگئی تھی۔ انگریز نے برطانیہ سے سن 1866 میں ٹرام منگواکر کراچی کے کاروباری مراکز میں آمد و رفت کو بہت آسان بنا دیا تھا۔ انہیں وہ اپنے ڈیزائن اور مضبوطی کے حوالے سے IRON – HORSE کہتا تھاپہلے یہ بھاپ سے بعد میں گھوڑوں کی مدد سے اور پھر پٹرول پر چلتی تھیں۔ یہ کینٹ اسٹیشن سے کیماڑی بر استہ ایمپریس مارکیٹ اور گارڈن سے کھارادر براستہ نشتر روڈ چلا کرتی تھی۔
سرکلر ریلوے کی بندش بھی عوام کی تکالیف میں اضافے کا سبب بنی۔1969 میں اس کا آغاز ہوا تھا اور یہ ڈرگ روڈ اور دیگر مضافاتی بستیوں سے روزانہ ساٹھ لاکھ افراد کو 104 ٹرینوں کے ذریعے شہر میں لاتی لے جاتی تھی ان میں سے 80 ٹرینیں مین ٹریک پر چلتی تھیں۔ پاکستان میں ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اضافی ریلوے ٹریک ڈالنے کا کبھی منصوبہ ہی نہ بن پایا۔ انگریز نے ریل کی جو سہولت 1861 سے 1947 کے دوران قائم کی، ہم وہ بتدریج گم کرتے گئے ہیں۔
سن 1994-1996ء کے دوران میں کراچی کے حوالے سے آپ کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی ایسی دکھائی دیتی ہے جس میں پہلے سرکلر ریلوے کو اور بعد میں ہنگاموں میں چن چن کر کے آر ٹی سی کی بسوں کو جلانے اور نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی۔ اسی دوران میں ایک پابندی یہ بھی لگی کہ کراچی میں منی بسوں کو نیا روٹ نہیں دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے جعلی نمبر پلیٹ، روٹ اور پولیس کی ملی بھگت سے پرانی منی بسیں دیگر شہروں سے منگا کر کراچی میں چلا دی گئیں۔اس وجہ سے نہ تو کراچی میں کوئی مناسب ٹریفک کا نظام ترتیب دیا جاسکا نہ ہی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کوئی مربوط پالیسی بن پائی۔ کراچی میں پولیس، پانی، تعلیم اور صحت جیسے اہم مسائل کے علاوہ ایک باعزت ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔
بھارت نے یکطرفہ معاہدہ ختم کیا، دریائے سندھ ہمارا ہے ، اس میں ہمارا پانی بہے گا یا ان کا خون دنیا کوپیغام دیں گے سندھ پر ڈاکا نامنظور، ہم اس دریا کے وارث اورمحافظ ہیں، سکھر میںخطاب چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل میں باہ...
کمشنر کراچی نے دودھ کے بعد مرغی کے گوشت کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیا۔ کمشنر کراچی کی جانب سے زندہ مرغی کی قیمت 260 روپے کلو اور گوشت کی قیمت 400 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد کمشنر کراچی نے متعلقہ افسران کو نرخ نامے پر فو ری عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ک...
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کراچی کے حلقے این اے 237 ملیر سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار حکیم بلوچ کی کامیابی کو چیلنج کر دیا۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کو سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کی...
کراچی سمیت مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن رہا ۔ نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہو گئی، نیشنل گرڈ میں خلل پیدا ہونے سے 6 ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم سے نکل گئی، کراچی میں کینپ نیو کلیئر پلانٹ کی بجلی بھی سسٹم سے نکل گئی ، بجلی بحال کرنے ک...
کراچی کے علاقے ملیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 2 رینجرز اہلکار زخمی ہوگئے۔ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق رینجرز اہلکار ملیر میں چیکنگ کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوانوں کو اہلکاروں نے رکنے کا اشارہ کیا جو رکنے کی بجائے فرار ہوگئے۔ ایس ایس پی نے کہا کہ موٹر س...
کراچی میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں ریکارڈ اضافے کے حوالے سے سی پی ایل سی نے اعداد و شمار کر دیئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق رواں سال 8 ماہ کے دوران 58 ہزار وارداتیں رپورٹ ہوئیں اور 8100 سے زائد شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر میں 12 شہری دوران ڈک...
بلدیہ عظمی کراچی کا متنازع میونسپل یوٹیلیٹی سروسز ٹیکس کے الیکٹرک کے بلوں میں شامل کرنے کا ردعمل آنا شروع ہوگیا، شہریوں نے کچرا کے الیکٹرک کی گاڑیوں میں ڈالنا شروع کر دیا، کے الیکٹرک کے شکایتی مرکز 118 پر کچرا نا اٹھانے کی شکایت درج کروانا شروع کر دی، کے الیکٹرک کے عملے کو کام می...
کراچی کے علاقے سعود آباد سے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹری پکڑی گئی۔ پولیس نے لاکھوں روپے مالیت کی جعلی ادویات برآمد کرلیں۔ پولیس کے مطابق سعود آباد میں فیکٹری پر چھاپہ کارروائی کی گئی، اس دوران چار ملزمان کو گرفتار کیا گیا، غیر قانونی طور پر فیکٹری میں جعلی ادویات بنائی جا رہی تھ...
اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے شاہین فورس کے قیام اور گشت کے باوجود شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا۔ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے، نیو کراچی صنعتی ایریا میں موٹر سائیکل سوار ڈاکو فیکٹری ملازم سے 10 لاکھ روپے نقد لوٹ ک...
کراچی میں شدید گرمی کے باعث لوڈ شیڈنگ نے عوام کا بُرا حال کردیا۔ تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں درجہ حرارت میں اضافے کے بعد کے الیکٹرک نے بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا۔ نارتھ ناظم آباد بلاک ڈبلیو، کورنگی، لیاقت آباد، گلبہار، ابوالحسن اصفہانی روڈ ، پاک کالونی، پی ای سی ایچ ایس،...
بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف زرداری سے ایم کیو ایم رہنماؤں سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بلدیہ عظمی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضی وہاب کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق بلاول ہاؤس ...
شہر میں پانی کے شدید بحران، ٹینکرمافیا اور واٹر بورڈ کی ملی بھگت اور کراچی کے لیے 650 ملین گیلن کے K-4 منصوبے میں کٹوتی، سرکاری سرپرستی میں کے الیکٹرک کی ظلم وزیادتی، شدید لوڈشیڈنگ اورنرخوں میں اضافہ، کراچی کے نوجوانوں کی سرکاری ملازمتوں میں حق تلفی اور جعلی مردم شماری کے خلاف کر...