... loading ...
تیل کی دنیا سے وابستہ ممالک اور ادارے نئے سال میں ان دعاؤں کے ساتھ داخل ہوئے ہیں کہ تیل کی قیمتیں بدترین دور سے نکل آئیں گی، حالات دوبارہ “معمول” پر آ جائیں گے اور یوں گزشتہ نصف صدی سے قائم تیل-مرکزی دنیا بحال ہو جائے گی۔ لیکن تمام تر شوہد یہی بتا رہے ہیں کہ 2016ء میں بھی تیل کی قیمتیں گری رہیں گی، بلکہ 2020ء تک ان میں اضافے کا بظاہر کوئی امکان نہیں ہے۔ طاقت کی عالمی دوڑ میں تیل اور اس سے حاصل کردہ آمدنی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے یہ بحران سیاسی منظرنامے پر بھی چند ریاستوں کے لیے بڑی طاقتوں کے لیے دھچکا ہے اور سعودی عرب سے لے کر روس تک اپنی عالمی اہمیت و سیاسی حیثیت کھو رہے ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزری، بس جون 2014ء میں ہی – تیل 115 ڈالرز فی بیرل پر فروخت ہو رہا تھا۔ ماہرین کا عام اندازہ یہی تھا کہ یہ قیمتیں مستقبل بعید تک 100 ڈالرز کے قریب قریب رہیں گی۔ انہی پیشن گوئیوں کی وجہ سے تیل کے بڑے عالمی اداروں نے سینکڑوں ارب ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری کی، وہ بھی ان “غیر روایتی” ذخائر میں جو بحر منجمد شمالی، کینیڈا، امریکا اور گہرے سمندروں میں ہیں۔ یہ بات سب پر ظاہر تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، تیل کے نئے ذخائر کی دریافت اور پیداوار، جلد یا بدیر، بڑے منافع کا سبب بنے گی۔ یہ تو کسی کے ذہن میں ہی نہیں تھا کہ ان وسائل کا بڑے پیمانے پر استحصال انہیں 50 یا اس سے بھی کم ڈالر فی بیرل کی قیمت تک لے آئے گا۔
اس وقت تیل 33 ڈالرز فی بیرل پر فروخت ہو رہا ہے، یعنی ڈیڑھ سال قبل کے مقابلے میں صرف ایک تہائی نرخ پر اور یوں بڑے بڑے منصوبے چوپٹ ہو گئے ہیں۔ اس معاملے کا بدترین پہلو یہ ہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازوں کے مطابق 2020ء تک یہ قیمت زیادہ سے زیادہ 50 سے 60 ڈالرز کے درمیان تک پہنچے گی بلکہ 2040ء تک بھی اس کے امکانات 85 ڈالرز تک ہی ہیں۔ یہ تیل کی دنیا میں آنے والا ایک زلزلہ ہے، جو بڑے بڑے منصوبوں کو ملیامیٹ کر رہا ہے، اور ان حکومتوں کی بھی چولیں ہلا رہا ہے، جو ان ذخائر کی مالک ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کی وجہ سے برسر اقتدار ہیں۔
تیل کی موجودگی قیمتوں کی یہ حالت بڑے اداروں پر تو گہرے اثرات ڈالے گی ہی، لیکن اس سے منسلک دیگر کاروباری ادارے بھی برے حالات سے گزر رہے ہیں، جیسا کہ آلات فراہم کرنے والے، کھدائی کرنے والے، بحری جہاز اور ایسے ہی دیگر ادارے جو اپنے وجود کے لیے تیل کی صنعت پر انحصار کرتے ہیں۔ پھر تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کے سیاسی حالات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں جیسا کہ نائیجیریا، سعودی عرب، روس اور وینیزویلا جو پہلے ہی اقتصادی و سیاسی بحران سے دوچار تھے اور اب تیل کی قیمت جتنے عرصے کم ترنی سطح پر رہے گی، اس کے نتائج اتنے ہی زیادہ بھیانک ہوں گے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تیل کی قیمت اس وقت بڑھتی ہے جب عالمی معیشت بخوبی آگے بڑھ رہی ہو، تیل کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے اور فراہم کرنے والے بھی زیادہ سے زیادہ تیل پیدا کر رہے ہوں۔ اس صورت حال میں ذخیرہ کرنے کی اضافی مصیبت سے بھی چھٹکارہ ملتا ہے اور فوراً سے پیشتر کھرا مال مل جاتا ہے۔ قیمتیں گرتی اس وقت ہیں جب عالمی معیشت جمود کا شکار ہو، یا زوال پذیر ہو، توانائی کی طلب کم ہو اور اس کی وجہ سے طلب پورا کرنے میں عالمی ادارے دلچسپی نہ لے رہے ہوں۔ اس صورت میں تیل کے ذخائر بڑھتے جاتے ہیں اور یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں کتنے عرصے کے لیے تیل کی رسد موجود ہے۔
رواں صدی کے اوائل میں عالمی معیشت روز افزوں ترقی کر رہی تھی، تیل کی طلب آسمان تک پہنچ چکی تھی اور ماہرین عالمی پیداوار کے فوری طور پر عروج تک پہنچنے کی پیشن گوئیاں کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی 2008ء میں تیل کی قیمت 143 ڈالرز فی بیرل کی سطح تک پہنچ گئیں۔ اسی سال عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے تیل کی طلب کم ہوتی گئی اور دسمبر 2015ء تک یہ 34 ڈالرز تک پہنچ گئیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ رحجان کافی عرصے تک برقرار رہے گا۔
بس اب تصور کیجیے کہ تیل کے کاروبار سے وابستہ ان افراد کے لیے یہ بات کتنی حیران کن ہوگی جو اکتوبر 2009ء میں 77 ڈالرز فی بیرل پر تیل فروخت کر رہے تھے اور صرف دو سال میں، فروری 2011ء تک، اس کی قیمتیں 100 ڈالرز کا ہندسہ بھی عبور کرگئیں تھیں جہاں تک کہ جون 2014ء آ گیا اور اب کوئی جائے قرار نہیں مل رہی۔
تیل کی قیمت کے اس عروج تک پہنچنے کے پس پردہ چند عوامل تھے۔ سب سے اہم چین تھا کہ جس نے بنیادی ڈھانچے بالخصوص سڑکوں، پلوں اور شاہراہوں کی تعمیر کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں گاڑیاں خریدنے کے رحجان میں اس کے نتیجے میں توانائی کی طلب میں بھی فوری طور پر زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا۔ تیل کی دنیا کے بڑے ادارے برٹش پٹرولیم کے مطابق 2008ء سے 2013ء کے دوران چین میں تیل کی طلب میں 35 فیصد اضافہ ہوا جو 8 ملین سے 10.8 ملین بیرل روزانہ تک پہنچ گیا۔ اس دوڑ میں چین تو سب سے آگے تھا ہی لیکن تیزی سے ترقی پاتے ممالک جیسا کہ برازیل اور بھارت بھی پیش پیش دکھائی دیے۔ یہ وہ دور تھا جب تیل کے روایتی ذخائر سے پیداوار میں کمی آنے لگی اور یوں نظریں فوری طور پر غیر روایتی ذخائر کی طرف گئیں۔
2014ء کے اوائل میں قیمتوں نے یکدم الٹی جانب سفر کرنا شروع کردیا کیونکہ امریکا اور کینیڈا میں غیر روایتی ذخائر سے تیل کی پیداوار نے مارکیٹ پر اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ امریکا میں تیل کی پیداوار جو جنوری 1990ء میں ساڑھے 7 ملین بیرل یومیہ تھی، جنوری 2010ء میں گھٹ کر ساڑھے 5 ملین تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن جولائی 2015ء میں یہ 9.6 ملین بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ دوسری جانب کینیڈا بھی 2008ء میں 3.2 ملین پیداوار سے بڑھ کر 2014ء میں 4.3 ملین بیرل تک پہنچا۔ برازیل اور مغربی افریقہ کے ممالک کے بحر اوقیانوس میں موجود تیل کے ذخائر اور جنگ زدہ عراق میں تیل کی پیداوار 10 لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچنے کے بعد تو تیل وافر مقدار میں عالمی مارکیٹ میں پہنچنے لگا۔ رسد جب حد سے زیادہ بڑھنے گی، جبکہ طلب اتنی تھی ہی نہیں تو قیمتوں پر بہت برا اثر پڑا۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب بھی دھیمی پڑنے لگی، اور امریکا، یورپ اور جاپان بلکہ چین میں بھی اقتصادی نمو کی شرح میں کمی آئی۔ گو کہ چین کی تیل کی طلب بڑھتی رہی لیکن وہ حالیہ چند سالوں کی رفتار کے مطابق نہیں تھی۔
اس دوران تیل کے سب سے بڑے عالمی صارف امریکا میں ایندھن موثریت یعنی Fuel Efficiency کا رحجان پروان چڑھنے لگا، جس نے توانائی کے عالمی منظرنامے پر اپنے اثرات ڈالنا شروع کردیے۔ سب سے پہلے تو مالیاتی بحران کے عروج کے زمانے میں حکومت نے جنرل موٹرز اور کریسلر کو بیل آؤٹ پیکیج دیے لیکن ساتھ ہی ایندھن موثر گاڑیاں بنانے کے لیے سخت ترین معیارات بھی لاگو کیے، جس سے امریکا میں تیل کی طلب کافی کم ہوئی۔ 2012ء میں اعلان کردہ منصوبے کے تحت امریکی ساختہ گاڑیوں کی اوسط ایندھن موثریت 2025ء تک ساڑھے 54 میل فی گیلن ہوگی، جو امریکا کی تیل کی کھپت کو آج کے مقابلے میں 12 بلین بیرل کم کرے گی۔
2014ء کے وسط تک یہ اور چند دیگر عوامل مل کر تیل کی قیمتوں میں کمی کا اہم سبب بنے۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ سعودی عرب اور تیل برآمد کرنے والے دیگر ممالک قیمتوں کو بڑھانے کے لیے ماضی کی طرح پیداوار کم کرنے کا اعلان کریں گے، لیکن 27 نومبر 2014ء کو اوپیک نے توقعات کے عین برعکس رکن ممالک کا پیداواری کوٹا برقرار رکھنے کا اعلان کیا، جس کے ساتھ اگلے ہی دن قیمت میں 4 ڈالرز کی کمی آئی اور پھر جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
چین میں معاشی نمو میں کمی اور شمالی امریکا میں تیل کی پیداوار میں اضافے کے بعد ایک اور اہم عنصر سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کمی لانے کی تمام تجاویز مسترد کرنا تھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کی جانب سے یہ قدم اٹھانے کی کئی سیاسی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ علاقائی حریف ایران اور روس کو شام میں اپنے مخالف بشار الاسد کی حمایت کرنے پر سزا دینا چاہتا ہے کیونکہ صنعتی ماہرین، اور خود سعودی عرب بھی، یہ سمجھتےہیں کہ تیل کے عالمی بحران کی موجودگی میں سعودی عرب برے حالات زیادہ عرصے تک جما رہ سکتا ہے اور اسے اپنے حریفوں کے مقابلے میں کم نقصان پہنچے گا۔ سعودی عرب ان ایام میں اپنے زر مبادلہ کے وسیع ذخائر کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پھر سعودی اقدام کی وجہ سے تیل کی قیمتیں بھی اتنی کم ہوگئی ہیں کہ شمالی امریکا کے ادارے زیادہ دیر مارکیٹ میں نہیں کھڑے رہ سکیں گے۔ گو کہ اب تک سعودی اقدامات سے امریکی ادارے بہت حد تک نہیں جھکے، لیکن چھوٹے ادارے ضرور دیوالیہ ہو گئے ہیں۔
بہرحال، 33 ڈالرز فی بیرل کے اس معمولی نرخ پر بھی عالمی پیداوار اتنی ہے کہ طلب بڑھ نہیں سکی اور یوں قیمتیں بڑھنے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔ اس پر عراق و ایران کی پیداوار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آنے والی دہائی میں آج تین ملین بیرل کے مقابلے میں پیداوار تین گنا اضافے کے بعد 9 ملین بیرل تک پہنچ جائے گی۔ اس میں ایران کا 6 لاکھ بیرل یومیہ تیل بھی شامل ہوگا، جو عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے نتیجے میں اٹھنے والی ممکنہ پابندیوں کی بدولت فوری طور پر مارکیٹ میں آئے گا۔
اب صرف تین صورتیں ہیں، جو کم قیمت کے موجودہ منظرنامے کو تبدیل کر سکتی ہیں: ایک، مشرق وسطیٰ میں ایسی جنگ، جس میں تیل پیدا کرنے والے ایک یا دو بڑے ممالک شامل ہوں، دوسرا، سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں فوری کمی کا اعلان، یاتیسرا عالمی طلب میں اچانک اضافہ۔
پہلی صورت میں دیکھیں تو مشرق وسطیٰ میں جس نئی جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوگی، لیکن پھر بھی یہ بہت خطرناک قدم ہے۔ اس کے بجائے سعودی عرب کی جانب سے پیداوار میں کمی کا، جلد یا بدیر، فیصلہ زیادہ متوقع دکھائی دیتا ہے۔ تیسری صورت کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ چین اور دنیا کے بیشتر بڑے ممالک میں اس وقت شرح نمو کم ہے۔ گو کہ چین و بھارت جیسے بڑے ملک میں ابھی بھی تیل سے چلنے والی گاڑیاں خریدنے کا رحجان زیادہ ہے لیکن مغربی ممالک میں مکمل طور پر بجلی سے چلنے والی گاڑیاں یا نقل و حمل کے متبادل ذرائع کو ترجیح دینے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پھر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے عالمی شعور میں اضافہ اور شمسی، ہوائی اور پن بجلی جیسے ذرائع کا استعمال بڑھنے کے ساتھ اس صدی میں ‘ماحول دوست’ توانائی پر انحصار کافی بڑھ جائے گی۔ یہ تمام رحجانات یہی بتا رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں تیل کی عالمی طلب میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آنے والی۔
یہی وجہ ہے کہ تیل و گیس کی برآمدات پر انحصار کرنے والے ممالک میں سیاسی منظرنامے تبدیل ہونا شروع ہو رہے ہیں۔ نائیجیریا اپنی 75 فیصد، روس 50 فیصد اور وینیزویلا 40 فیصد آمدنی تیل سے حاصل کرتے ہیں اور صرف ڈیڑھ سال میں تیل کی قیمتی ایک تہائی رہ جانے کے بعد تینوں ریاستوں کی آمدنی میں زبردست کمی آئی ہے۔ یوں ان کے مقامی و بین الاقوامی منصوبوں کو سخت دھچکے پہنچے ہیں۔ نائیجیریا اور وینیزویلا سیاسی بحران سے گزرے ہیں، البتہ روس میں حالات کچھ مختلف ہیں۔ یوکرین سے لے کر شام تک ولادیمر پیوتن کو ہر محاذ پر روس کے عوام کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن شام میں مداخلت کے ذریعے جو خطرناک قدم روس نے اٹھایا ہے اس کے نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور یہ روس کے لیے منفی بھی ہو سکتے ہیں۔
یوں تیل کی قیمتوں میں آنے والا بحران بلاشبہ ابھی اپنے عروج تک پہنچے گا، لیکن بالآخر ایک روز قیمت میں دوبارہ اضافہ ضرور ہوگا، تب تک تند و تیز ہواؤں کے مقابلے میں کس کا چراغ جلتا رہے گا، اور کس کا بجھے گا، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہمارے جو لوگ نااہل ہوئے ہیں ان کی نشستوں پر کسی کو کھڑا نہیں کیا جائے ناجائز طریقے سے لوگوں کو نااہل کیا گیا،ظلم و زیادتی دباؤ کے باوجود لوگوں کے احتجاج پر خوشی کا اظہار خیبر پختونخوامیں آپریشن پی ٹی آئی کیخلاف نفرت پیدا کرنے کیلئے کیا جارہا ہے،علی امین گنڈاپور آپریشن نہیں ر...
ملک ریاض کے ہسپتال پر چھاپا، ایک ارب 12 کروڑ کی منی لانڈرنگ بے نقاب، عملے کی ریکارڈ کو آگ لگانے کی کوشش ایف آئی اے نے ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کیخلاف کرپش کیس میں اہم دستاویزات اور ناقابل تردید ثبوت حاصل کر لیے ، سفاری ہسپتال کو بطور فرنٹ آفس استعمال کر رہا تھا حوالہ ہنڈی کے...
سیلابی پانی میں علاقہ مکینوں کا تمام سامان اور فرنیچر بہہ گیا، لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے نیو چٹھہ بختاور،نیو مل شرقی ،بھارہ کہو، سواں ، پی ایچ اے فلیٹس، ڈیری فارمز بھی بری طرح متاثرہیں اسلام آبادمیں بارش کے بعد برساتی نالے بپھرنے سے پانی گھروں میں داخل ہوگیا۔اسلا...
بیرسٹر گوہر کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس،موجودہ سیاسی حالات میںبیانیے کو مزید مؤثر بنانے پر اتفاق عدالتی فورمز پر دباؤ بڑھانے اور عوامی حمایت کیلئے عدلیہ کی توجہ آئینی اور قانونی امور پر مبذول کرائی جا سکے،ذرائع پی ٹی آئی نے اپنے اراکین اسمبلی و سینیٹ کی نااہلی کے...
یہ ضروری اور مناسب فیصلہ ہے کہ بھارت سے درآمدات پر ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اضافی ڈیوٹی عائد کی جائے ،امریکی صدر بھارت کی حکومت روس سے براہ راست یا بالواسطہ تیل درآمد کر رہی ہے، جرمانہ بھی ہوگا،وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے درآمدات پر مزید 25 فی...
دونوں ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کا دوسرا میچ 8اگست کوہوگا دلچسپ مقابلے کی توقع ،ویمنز ٹیم کو فاطمہ ثنا لیڈ کریں گی ، شائقین کرکٹ بے چین آئرلینڈ اور پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے درمیان تین ٹی ٹونٹی بین الاقوامی میچوں پر مشتمل سیریز کا پہلا میچ آج (بدھ کو...
بمباری ، بھوک سے ہونے والی شہادتوں پر یونیسف کی رپورٹ 7 اکتوبر 2023 ء سے اب تک 18 ہزار بچوں کی شہادتیں ہوئیں غزہ میں اسرائیلی بمباری اور انسانی امداد کی فراہمی میں رکاوٹوں کے باعث بچوں کی ہلاکتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسف کے مطا...
ہم سب کو تسلیم کرنا ہوگا عوام کی نمائندگی اور ان کے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے،سربراہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا پارلیمنٹ میں دو ٹوک مؤقف آئین کے پرخچے اُڑائے جا رہے ہیں اور بدقسمتی سے پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت اس عمل میں شریک ہے، قومی اسمبلی اجلاس میں جذباتی خطاب ...
سیاسی کارکنان اور عوام انہیں نئے پاکستان کا بانی قرار دے رہے ہیں ، وہ طاقت کے مراکز سے سمجھوتہ کیے بغیر عوام کی آزادی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں بانی پی ٹی آئی پاکستان میں ایسی جمہوری سیاست کے داعی ہیں جہاں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوں، اور ادارے قانون کے تابع رہیں،سیاسی مبصرین عمران...
قومی اسمبلی اراکین اور سینیٹرز کو اسلام آباد بلالیا،احتجاج تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہوگا،صوبائی صدور اورچیف آرگنائزرزسے مشاورت مکمل ارکان صوبائی اسمبلی اپنے متعلقہ حلقوں میں احتجاج کریں گے، نگرانی سلمان اکرم راجا کریں گے، تمام ٹکٹس ہولڈرز الرٹ، شیڈول اعلیٰ قیاد...
غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی،صحافیوں اور ارکان اسمبلی کے مہمانوں کے پاسز منسوخ پی ٹی آئی اراکین کا سیاسی قتل کیا گیا( عامر ڈوگر) مخصوص نشستوں پر ارم حامد نے حلف اٹھا لیا قومی اسمبلی اجلاس میں مخصوص نشستوں پر منتخب رکن قومی اسمبلی ارم حامد نے حلف اٹھا لیا، پی ٹی آئی ن...
وفاق اور گلگت بلتستان حکومت قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ بارشوں،سیلاب سے متاثرہ افراد میں امدادی چیک تقسیم کیے،خطاب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گلگت بلتستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے 4 ارب روپے کے فنڈز کا اعلان کر دیا۔وزیراع...