وجود

... loading ...

وجود
وجود

عاصمہ جہانگیر نے بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی پر پاکستانی ردِ عمل کو دُہرامعیار قرار دے دیا!

منگل 24 نومبر 2015 عاصمہ جہانگیر نے بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی پر پاکستانی ردِ عمل کو دُہرامعیار قرار دے دیا!

asma jhangeer

معروف وکیل عاصمہ جہانگیر کے بنگلہ دیشی رہنماؤں کی پھانسی پر پاکستانی ردِ عمل پر تنقید نے ایک دلچسپ بحث کا آغاز کر دیا ہے۔انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نے وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے حالیہ بیان کو ہدفِ تنقید بنایا ہے ، جس میں چوہدری نثار نے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس پر عاصمہ جہانگیر نے اپنے ردِ عمل میں پاکستانی حکومت کی تنقید کو دُہرا معیار اور انتہائی غیر مناسب رویئے سے تعبیر کیا ہے۔

عاصمہ جہانگیر پاکستان کے عوامی حلقوں میں انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستانی فوج پر اُن کے مخصوص طرزِ فکر کے باعث وہ اکثر شوشل میڈیا میں منفی تبصروں کی زد میں رہتی ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے اس مرتبہ بنگلہ دیشی حزب اختلاف کے دورہنماوؤں کی پھانسیوں پر ایک ایسا موقف اختیار کیا ہے جس میں انتہائی باریک کاریگری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ

“ہم اس بات کی اُمید کرتے ہیں کہ حکومت برابر کا رویہ اختیار کرے گی‘ ان لوگوں کے لیے بھی جن کو بین الاقوامی مخالفت کے باوجود پاکستان میں پھانسی دی جارہی ہے۔”

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عاصمہ جہانگیر خود پاکستان میں ہونے والی پھانسیوں پر دُہرے معیار کی مرتکب کیوں ہورہی ہیں اور تمام پھانسیوں پر یکساں سوال اُٹھانے کے بجائے وہ محض اُن پھانسیوں کو کیوں زیربحث لارہی ہیں جس پر صرف بین الاقوامی مخالفت موجود ہے؟ یاد رہے کہ پاکستان میں جنہیں عسکریت پسند سمجھ کر پھانسیاں دی جارہی ہیں اور جو دیگر جرائم میں پھانسیاں پارہے ہیں ، اُن سب کے لئے ایک ہی جیسے قانونی مسائل موجود ہیں مگر انسانی حقوق کے قومی اور عا لمی ادارے خود دُہرے معیار کے شکار ہو کر اُن پھانسیوں کو موضوع تنقید بناتے ہیں جو دیگر جرائم سے متعلق ہوتی ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے اپنے تنقیدی تیر کو صرف بین الاقوامی کمان میں رکھ کر چلایا ہے۔ یہ بجائے خود دُہرا معیار اور انتہائی غیر مناسب رویئے کے زمرے میں آتا ہے۔

عاصمہ جہانگیر نے بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر تنقید کا اُسلوب بھی عجیب وغریب اختیار کیا ہے۔ اُن کا اس پر مؤقف یہ ہے کہ “بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کی وجہ سے وہاں مزید تقسیم پیدا ہوگی اور اس سے مستقبل میں سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔”

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں کے مکمل غیر قانونی ہونے کے سوال کو نظر انداز کرکے بنگلہ دیش میں اس کے ردِ عمل سے کیوں پریشان ہیں؟ بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی تقسیم اور وہاں کی سیاسی بے چینی کے معاملے میں تو وہ فکر مند دکھائی دیتی ہیں مگر خود اُن کے موقف سے پاکستان میں پیدا ہونے والی تقسیم اور ایک مستقل سیاسی بے چینی پر اُن کا دھیان کیوں نہیں جاتا؟

عجیب بات یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے بجائے اس پورے مقدمے کی قانونی حیثیت پر سوال اُٹھانے کے صرف ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے پر بات کی ہے۔ پوری دنیا میں یہ مقدمات اپنی پوری قانونی بحث میں ہدفِ ملامت بنے ہوئے ہیں۔ مگر عاصمہ جہانگیر نے اس معاملے کو بھی مدہم کرتے ہوئے محض اِسے صفائی کا موقع نہ ملنے تک محدود کر دیا ہے۔ پھر اِس کے لئے جو اُسلوب اختیار کیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے والے معاملے پر اپنی رائے دینے کے بجائے یہ کہا ہے کہ

” ملزمان کے ٹرائل کو مانیٹر کرنے والے انسانی حقوق کے تمام رضا کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمان کو صفائی کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔”

اس طرح عاصمہ جہانگیر نےصرف ملزمان کو صفائی کا موقع نہ ملنے تک محدود رہتے ہوئے بھی کی جانے والی انتہائی پوپلی تنقید کو دوسروں یعنی انسانی حقوق کے رضاکاروں کی رائے سے منسلک کر دیا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کی بنگلہ دیش کے معاملے میں اس درجہ احتیاط پاکستان کے کسی بھی معاملے میں نظر کیوں نہیں آتی؟

انھوں نے یہ بھی کہا کہ “ہم نے اس کی مذمت کی ہے اور اس حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں سے فوری رد عمل کی درخواست کی ہے۔”

سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش پر تنقید کے لئے اس قدر احتیاط کا مظاہرہ خود کیوں کر رہی ہیں ؟ اصل میں عاصمہ جہانگیر کا اصل مسئلہ بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیاں نہیں ہیں۔ بلکہ اُن کا اصل مسئلہ پاکستان میں ا س کا ردِ عمل ہے۔ اس لئے اُنہوں نے پھانسیوں پر پاکستانی ردِ عمل سے پہلے کسی قسم کی کوئی لب کشائی نہیں کی۔ اُنہوں نے اس پر جوبھی موقف اختیار کیا وہ پھانسیوں پر وفاقی وزیر داخلہ کے تاخیر سے آنےو الے ردِعمل کے بعد کیا ۔ چنانچہ اُن کا یہ مسئلہ “برائے وزن بیت” بنگلہ دیش پر عالمی اداروں کے اعتراض کے اظہار کے ساتھ بے نقاب ہو جاتاہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ
” بنگلہ دیش میں ہونے والی پھانسیوں پر خدشات کا اظہار کرنے سے پہلے حکمران پاکستان میں ہونے والی سزاؤں اور سعودی عرب میں پاکستانیوں کو دی جانے والی سزاؤں کے حوالے سے بات کریں۔”

عاصمہ جہانگیر خود پاکستان میں ہونے والی پھانسیوں پر دُہرے معیار کی مرتکب کیوں ہیں ۔ وہ تمام پھانسیوں پر یکساں سوال اُٹھانے کے بجائے محض اُن پھانسیوں کو زیربحث لارہی ہیں جس پر صرف بین الاقوامی مخالفت موجود ہے؟

یہ عجیب وغریب موقف بھی عاصمہ جہانگیر کی پیچیدہ اور پُرتضاد شخصیت کا پورا عکاس ہے۔ ایک طرف وہ پاکستانی حکومت پر یہ اعتراض اُٹھا رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے بجائے اپنے گھر کی فکر کرے اور دوسری طرف وہ اُسی سانس میں یہ مشورہ دے رہی ہیں کہ پاکستان سعودی عرب میں ہونے والی سزاؤں پر بات کرے۔ جو اُصول یعنی “پہلے گھر میں دیکھنے کا ” بنگلہ دیش کے حوالے سے لاگو ہوتا ہے ، وہی اُصول سعودی عرب پر بات نہ کرنے کے لئے کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ گویا عاصمہ جہانگیر کو بنگلہ دیش میں ہونے والی سزاؤں پر تو اس لئے اعتراض ہے کہ گھر کی فکر نہیں مگر سعودی عرب میں گھر کی فکر نہ کرتے ہوئے بات کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ اس عجیب وغریب اور پراز تعصب ملغوبہ ذہنیت کے باعث ہی وہ پھر یہ سوال اُٹھاتی ہے کہ

“کیا یہ دو بنگلہ دیشی ان لوگوں سے زیادہ اہم ہیں جو پاکستان میں رہتے ہیں اور اس کا جواب اگر ہاں میں ہے تو حکومت جواب دے کہ کیوں اور آخر کب تک؟”

بس یہی سوال اُن سے سعودی عرب کے مسئلے پر جوں کا توں پوچھا جاسکتا ہے۔ مگر اب یہ کون پوچھے؟

عاصمہ جہانگیر نے تسلیم کیا کہ “سزائے موت دیئے جانے والے دونوں افراد کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، لیکن ایسے ہی ٹرائل کا سامنا پاکستان کی فوجی عدالتوں میں اُن افراد کو بھی کرنا پڑتا ہے جن پر دہشتگردی کے الزامات ہیں۔ ہم سزائے موت اور غیر منصفانہ ٹرائل کے خلاف ہیں، چاہے وہ پاکستان میں ہو یا بنگلہ دیش میں ہو۔”

عاصمہ جہانگیر کا یہ موقف ایسا ہے جو خود عاصمہ جہانگیر کے شدید ترین مخالفین بھی دبے لفظوں میں اپنی اپنی محفلوں میں رکھتے ہیں۔ مگر آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد پیدا ہونے والے مخصوص ماحول کے باعث اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ پاکستان کے عوامی حلقوں میں اس ضمن میں بعض ٹھوس سوالات پائے جاتے ہیں ، جن پر سرکاری اور فوجی دونوں حلقوں میں سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کوئی بھی مطلب غیر قانونی اقدامات کاسرکاری لائسنس نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اس پر بات ہورہی ہیں مگر افسوس ناک طور پر پاکستان کے اندر اس پر غور کا کوئی ماحول پیدا نہیں ہورہا۔ لہذا عاصمہ جہانگیر نے یہ بات کسی بھی نیت سے کہی ہو مگر اس حد تک قابل ِ غور ہے کہ ” اگر پاکستانی حکومت سزائے موت اور ٹرائل کے غیر منصفانہ طریقہ کار کے خلاف ہے تو اسے فوجی عدالتوں کے ٹرائل کی جانب بھی دیکھنا چاہیے۔”

بدقسمتی سے عاصمہ جہانگیر اپنے مخصوص طرزِ فکر کے باعث وسیع تر عوامی حلقوں میں ایک ایسی منفی شخصیت کے طور پر لوگوں کے تجربے میں ہیں کہ اُن کے جزوی طور پر کسی درست موقف کو بھی اُن کی مجموعی نیت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی یہی سمجھا جاتا ہے ۔ تاہم بنگلہ دیش کے تناظر میں جن پھانسیوں کے حوالے سے وہ کچھ زیادہ بولنے کو تیار نہیں اور پاکستان کے اندر ہونے والی پھانسیوں پر وہ مشتعل ہیں ، اُس کے حوالے سے اُن پر ایک جائز سوال یہ بھی بنتا ہے کہ اُنہوں نے بنگلہ دیش میں اسی تنازع سے الجھے ایک ایوارڈ کو اپریل 2013ء میں وصول کیا تھا اور اس ایوارڈ کو وصول کرتے ہوئے بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد سے نہایت گرمجوشی سے گلے بھی ملی تھی، تب عاصمہ جہانگیر اور حامدمیر ایک بنگلہ دیشی ٹیلی ویژن پر ایک ساتھ مدعو تھے، اُس ٹیلی ویژن انٹرویو میں حامد میر بنگلہ دیشی حکومت کو نہایت شرمناک طور پر مشرقی پاکستان کے دور میں تب کے اُن رہنماوؤں کو سزا دینے اور جنگی مقدمات میں سزا دینے کا پرجوش مطالبہ کر رہے تھے، تو انسانی حقوق کی اس علمبردار اور معروف وکیل عاصمہ جہانگیر نے وہاں چپ کیوں سادھے رکھے تھیں؟کیا عاصمہ جہانگیر اِسےبھی ایک انتہائ غیر مناسب رویئے سے تعبیر کریں گی؟


متعلقہ خبریں


انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری وجود - جمعه 03 مئی 2024

سندھ کابینہ نے رینجرز کی کراچی میں تعیناتی کی مدت میں 180 دن کے اضافے کی منظوری دے دی۔ترجمان حکومت سندھ نے بتایا کہ رینجرز کی کراچی میں تعیناتی 13 جون 2024 سے 9 دسمبر 2024 تک ہے ، جس دوران رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت اختیارات حاصل رہیں گے ۔کابینہ نے گزشتہ کابینہ ا...

رینجرز تعیناتی کی مدت میں 180 دن کا اضافہ، سندھ کابینہ کی منظوری

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی وجود - جمعه 03 مئی 2024

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی انتخابات میں کامیابی کے لیے بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی دے رہے ہیں ۔ دی وائر کے مطابق بی جے پی نے آفیشل انسٹاگرام ہینڈل کے ذریعے مودی کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مودی کہتے ہیں کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ ہندؤں کی جائیداد اور دولت م...

انتخابی حربے، مودی کی بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کو دھمکی

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار وجود - جمعه 03 مئی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کسی بھی صورت غزہ میں جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا معاہدہ تسلیم نہیں جس میں جنگ کا خاتمہ شامل ہو۔اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس نے جنگ ...

نیتن یاہو کا جنگ بندی تسلیم کرنے سے انکار

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی وجود - جمعه 03 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر شرقی نے بتایا کہ جے یو آئی کو ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ پر جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایس ایس پی ایسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بڑے عوامی اجت...

جمعیت علماء اسلام کو کراچی میں جلسے کی اجازت نہیں ملی

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ کوئی بات ہوگی تو سب کے سامنے ہوگی اور کوئی بات چیت کسی سے چھپ کر نہیں ہوگی،بانی پی ٹی آئی نے نہ کبھی ڈیل کی ہے اور نہ ڈیل کے حق میں ہیں، یہ نہ سوچیں کہ وہ کرسی کیلئے ڈیل کریں گے ۔میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گن...

عمران خان نے بات چیت کا ٹاسک دیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے پی

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا وجود - جمعرات 02 مئی 2024

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف طلبہ کے احتجاج کا سلسلہ دنیا بھر کی جامعات میں پھیلنے لگا۔امریکا، کینیڈا، فرانس اور آسٹریلیا کی جامعات کے بعد یونان اور لبنان کی جامعات میں بھی طلبہ نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کیا۔امریکی جامعات میں احتجاج کا سلسلہ تیرہویں روز بھی...

فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف طلبہ کا احتجاج یونان اور لبنان تک پہنچ گیا

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غزہ میں مظالم کے خلاف اسرائیل کی مبینہ حمایت کرنے والی کمپنیوں کے بائیکاٹ کی مہم میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ معروف امریکی فوڈ چین کے ایف سی نے ملائیشیا میں اپنے 100 سے زائد ریستوران عارضی طور پر بند کرنیکا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملائیشیا میں امریکی فوڈ چین کی فرنچائز کم...

کے ایف سی بائیکاٹ جاری، ملائیشیا میں 100سے زائد ریستوران بندکرنے پر مجبور

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز وجود - جمعرات 02 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔لاہور میں فلسطین کانفرنس سے خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ یہاں بلاوجہ شہباز شریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی...

پتا نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟فضل الرحمان کا کیپٹن صفدر کے خطاب پر طنز

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف وجود - جمعرات 02 مئی 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، ہم سب مل کر پاکستان کو انشااللہ اس کا جائز مقام دلوائیں گے اور جلد پاکستان اقوام عالم میں اپنا جائز مقام حاصل کر لے گا۔لاہور میں عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنی ذاتی رہائش گاہ پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ ا...

کرپشن کا ملک سے خاتمہ ہونے والا ہے ، شہباز شریف

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں وجود - جمعرات 02 مئی 2024

غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کے رہنما راجوری اور پونچھ میں مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سنگھ پریوار کے حمایت یافتہ امیدوار کو ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق 1947میں جموں خطے میں ہن...

ووٹ دیں یا1947 جیسی صورتحال کیلئے تیار رہیں،بی جے پی کی مسلمانوں کو دھمکیاں

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر