... loading ...

ترکی چھ ماہ میں آج اپنے دوسرے اور اہم ترین انتخابات کے مرحلے سے گزر ے گا۔ ایک ایسے موقع پر جب ملک کئی بحرانوں کا سامنا کررہا ہے، یہ انتخابات ترکی کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ملک میں انتخابات کی تاریخ بہت پرانی ہے بلکہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں سب سے پہلے جدید انتخابات ترکی ہی میں ہوئے۔
موجودہ ترکی میں پہلے جدید انتخابات 1840ء میں اس وقت ہوئے جب یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ گوکہ اس کی صورت جدید دور سے کچھ مختلف تھی کیونکہ اس میں مقامی اراکین پارلیمان کو دیہی علاقوں میں مقرر کیا گیا تھا تاکہ وہ انتظامی اور امن و امان کے مسائل کا خیال رکھیں ۔ اس میں اجلاس مقامی گورنر یا ضلعی سربراہ کے ماتحت ہوتے تھے اور اس میں مقامی آبادی کے اراکین بھی شامل ہوتے تھے۔ نصف اراکین کا انتخاب مسلمانوں میں سے جبکہ نصف کا غیر مسلم آبادی سے ہوتا تھا۔ مزید برآں، غیر مسلم برادری کے دنیاوی امور کی نگرانی کے لیے کونسل بھی انتخابات کے ذریعے ہی منتخب ہوتی تھی۔
چند مورخین کہتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ میں اقلیتوں کو جو حقوق حاصل تھے، اس وقت کے یورپ میں اس کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔
پھر 1876ء میں ایک جدید آئین تشکیل دیا گیا اور سلطنت عثمانیہ ایک آئینی بادشاہت میں بدل گئی۔ منتخب اراکین کی پارلیمنٹ استنبول میں طلب کی گئی۔ بعد ازاں سلطان عبد الحمید ثانی نے پارلیمان کو معطل کردیا اور آئندہ انتخابات کا بھی خاتمہ کردیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ 1877ء کی ترک-روس جنگ میں شکست کا سبب پارلیمان تھی۔ بہرحال، وہ 30 سال تک مطلق العنان بادشاہ کی حیثیت سے برقرار رہے یہاں تک کہ 1908ء میں فوجی افسران کی بغاوت کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر آئینی بادشاہت بحال ہوئی اور ملک کا اقتدار جمعیت ِ اتحاد و ترقی نامی جماعت نے سنبھالا۔

سلطان عبد الحمید 1908ء میں آئین بحال کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں ترکی میں عثمانیوں کے اقتدار کا حتمی زوال شروع ہوگیا
عثمانی تاریخ کی پہلی باضابطہ پارلیمان کل 130 اراکین پر مشتمل تھی جن میں سے 80 مسلمان اور 50 غیر مسلم تھے لیکن 1908ء کی اس پارلیمان میں غیر مسلم اراکین کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا حالانکہ پارلیمان کے اراکین کی کل تعداد 280 ہوگئی تھی۔
نئے انتخابات میں سلطنت کے ان مردوں کو ہی ووٹ دینے کا اختیار حاصل تھا جو محصول دیتے تھے یا ملک میں جائیداد رکھتے تھے۔ اس میں ایک رکن 50 ہزار افراد کی نمائندگی کرتا تھا جس کے لیے انتخاب کا عمل دو مرحلوں میں ہوتا تھا۔ پہلے مرحلے میں ہر 500 ووٹر ایک ثانوی مختار کو چنتے تھے جبکہ دوسرے میں ثانوی مختار مل کر پارلیمان کے اراکین کا انتخاب کرتے تھے۔ دو مرحلہ انتخابات کا یہ نظام 1946ء تک امریکا میں نافذ العمل رہا بلکہ یورپ میں بھی لگ بھگ اسی طرح انتخابات ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ محصولات ادا نہ کرنے والے یا ملکیت نہ رکھنے والوں کو یورپ میں بھی ووٹ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ یعنی “انتخابی کھیل” صرف صاحبانِ ثروت اور شاہی خاندان کے افراد ہی کھیل سکتے تھے۔
بہرحال، 1908ء سے سلطنت عثمانیہ میں جدید سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آنے لگا۔ 1912ء کے انتخابات سے قبل جمعیت اتحاد و ترقی نے کافی عوامی حمایت کھوئی لیکن اپنا ووٹ بچانے کے لیے اس نے عوام پر مختلف طریقے سے دباؤ ڈالا یہاں تک کہ مخالفین کو ووٹ دینے کے خواہشمند افراد کو جمعیت کے افراد نے مارا پیٹا بھی۔ یوں 1912ء کے انتخابات سے ملک واحد جماعت کی آمریت کے چنگل میں پھنس گیا۔ ترک تاریخ میں انہیں “ڈنڈا بردار انتخابات” کہا جاتا ہے۔
جب 1918ء میں جمعیت کو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو ایک مرتبہ پھر انتخابات ہوئے۔ عثمانی سلطنت کے بچے کچھے حصے اب ایک کثیر جماعتی جمہوریت تھے، جس میں ایک سوشلسٹ جماعت تک شامل تھی۔ آزاد خیال فکر جڑیں پکڑ چکی تھی لیکن انقرہ سے اٹھنے والی قوم پرست تحریک نے اپنے پیروکاروں کے علاوہ کسی کو 1919ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا۔ سلطنت عثمانیہ کی آخری جنرل اسمبلی 23 اپریل 1920ء کو انقرہ منتقل ہوئی کیونکہ استنبول دشمن کے قبضے میں تھا۔ جب مصطفیٰ کمال کو اندازہ ہوا کہ وہ ترکی کے بارے میں اپنے بڑے وژن کو ایک نسبتاً جمہوری پارلیمان کے ساتھ پورا نہیں کرسکتے تو انہوں نے 1923ء میں پارلیمان ہی معطل کردی۔ انہوں نے اپنے ہی منتخب کردہ نائب اراکین کے ساتھ مل کر نئی پارلیمان تشکیل دی اور خود صدر بن بیٹھے۔ ترکی میں جمہوریت کا قیام اور دیگر “انقلابی” تبدیلیاں اسی پارلیمان کے ہاتھوں رونما ہوئیں۔

اتاترک کا عہد مطلق العنان جمہوریت کی زریں مثال تھا
نئے اراکین جمہوری خلق پارٹی کے رکن تھے، جس کی قیادت خود مصطفیٰ کمال کے ہاتھ میں تھی۔ انتخابات ضرور ہوئے لیکن کوئی مخالف جماعت تھی ہی نہیں۔ سب کو انہی افراد کو ووٹ دینا تھا، جنہیں حکومت نے منتخب کیا تھا۔ بالفاظ دیگر یہ صدر کے منتخب کردہ افراد کے لیے عوامی تصدیق حاصل کرنے کا عمل تھا۔ اسے آپ سوویت یونین کے سیاسی ماحول جیسا کہہ سکتے ہیں۔ 1935ء میں ترکی میں عورتوں کو بھی حق رائے دہی دیا گیا اور حکومت کی منتخب کردہ 17 خواتین پارلیمان میں پہنچیں۔
مخالفین کو خوش کرنے کے لیے حکومت نے 1943ء میں ہر صوبے میں اضافی امیدوار بھی کھڑا کیا۔ لیکن یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ ترکی نے عالمی جنگ میں حصہ تو نہیں لیا تھا لیکن غربت نے ملک کو جکڑ لیا تھا اور امریکی امداد کے حصول کے لیے جمہوری خلق پارٹی کے صدر عصمت انونو کو ایک کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ انہیں جمہوری انتخابات پر رضامندی دکھانی پڑی حالانکہ وہ خود جمہوریت پسند نہیں تھے۔
1945ء میں جمہوری خلق پارٹی کے مخالف کے طور پر ڈیموکریٹ پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن 1946ء کے انتخابات ہو بہو 1912ء جیسے ہی تھے۔ جمہوری خلق پارٹی کے مقررہ گورنر، ضلعی سربراہ، میئر اور صوبائی سربراہان نے جمہوری خلق پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے عوام پر دباؤ ڈالا۔ کئی مقامات پر ہنگامے پھوٹے۔ فاتح کا تعین پہلے سے کیا جاچکا تھا، اس لیے ووٹ گننے تک کی نوبت نہ آئی۔ اس کے باوجود یہ بدترین انتخابات ملک کی جمہوری تاریخ میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے کیونکہ یہ پہلے انتخابات تھے جہاں عوام نے براہ راست اراکین کا انتخاب کیا۔ پھر جمہوری خلق پارٹی کی حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1950ء کے بعد سے یہ جماعت کبھی اکثریت کے ساتھ اختیار حاصل نہیں کرسکی۔

ترکی میں 1979ء کے انتخابات سیاہی والے انتخابات کہلاتے ہیں
بارہا فوج اور افسر شاہی کی مداخلت کے باوجود انتخابات ترکی کے سیاسی منظرنامے کا اہم حصہ بن چکے تھے۔ 1961ء میں انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ جس کے تحت ہر سیاسی جماعت کو پارلیمان میں اتنی نمائندگی ملی، جتنے اس نے انتخابات میں ووٹ حاصل کیے۔ اس نظام میں اتحاد ناگزیر ہوگیا۔ پھر 1980ء کی فوجی بغاوت کے بعد ایسا نظام ترتیب دیا گیا جو اتحادوں اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میں داخل ہونے سے روک دے۔ سیاسی جماعتیں جو 10 فیصد ووٹ حاصل نہیں کرتیں، ان کو آج بھی پارلیمان میں نمائندگی نہیں دی جاتی۔
بار بار ووٹ بھگتانے والے عناصر کی سرکوبی کے لیے 1979ء کے انتخابات میں رائے دہندگان کے ہاتھوں ایسی سیاہی استعمال کی گئی جو کئی دنوں تک نہیں مٹتی تھی۔ اس لیے یہ انتخابات ترکی میں “سیاہی والے انتخابات” کے طور پر مشہور ہیں۔
ماضی قریب میں انتخابات میلے ٹھیلے اور جنگ کا سا سماں پیش کرتے تھے، گو کہ اب وہ پہلی والی رونقیں نہیں لیکن موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ترکی کے ان انتخابات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ حکومت کس کی ہے اور فیصلے کون کر رہا ہے، آئین کیخلاف قانون سازی کی جائے گی تو اس کا مطلب بغاوت ہوگا،اسٹیبلشمنٹ خود کو عقل کل سمجھتی رہی ،سربراہ جمعیت علمائے اسلام عمران خان سے ملاقاتوں کی اجازت نہ دینا جمہوری ملک میں افسوس ناک ہے، میں تو یہ سوال اٹھاتا ہوں وہ گ...
سہیل آفریدی اور ان کے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے،تفتیشی افسر پیش سینئر سول جج عباس شاہ نے وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف درج مقدمے کی سماعت کی خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف ریاستی اداروں پر گمراہ کن الزامات اور ساکھ متاثر کرنے کے کیس میں عدم حاضری پر عدالت ن...
حکومت ایک نیا نظام تیار کرے گی، وزیرِ داخلہ کو نئے اختیارات دیے جائیں گے، وزیراعظم تشدد کو فروغ دینے والوں کیلئے نفرت انگیز تقریر کو نیا فوجداری جرم قرار دیا جائیگا،پریس کانفرنس آسٹریلوی حکومت نے ملک میں نفرت پھیلانے والے غیر ملکیوں کے ویزے منسوخ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔...
حملہ آور کا تعلق حیدرآباد سے تھا، ساجد اکرم آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعدجائیداد کے معاملات یا والدین سے ملنے 6 مرتبہ بھارت آیا تھا،بھارتی پولیس کی تصدیق ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن کا سفر کیا،گودی میڈیا کی واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں، بھارتی میڈی...
سہیل آفریدی، مینا آفریدی اور شفیع اللّٰہ کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جا رہی ہے عدالت نے متعدد بار طلب کیا لیکن ملزمان اے ٹی سی اسلام آباد میں پیش نہیں ہوئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا سہیل آفریدی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کردی گئی۔اسلام آباد کی انسدادِ...
سور کے سر اور اعضا رکھ دیے گئے، قبرستان کے دروازے پر جانوروں کی باقیات برآمد مسلم رہنماؤں کا حملہ آوروں کی میتیں لینے اوران کے جنازے کی ادائیگی سے انکار آسٹریلیا کے بونڈی بیچ پر حملے کے بعد سڈنی میں موجود مسلمانوں کے قبرستان کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا ہے۔جنوب مغربی س...
سڈنی دہشت گردی واقعہ کو پاکستان سے جوڑے کا گمراہ کن پروپیگنڈا اپنی موت آپ ہی مرگیا،ملزمان بھارتی نژاد ، نوید اکرم کی والدہ اٹلی کی شہری جبکہ والد ساجد اکرم کا تعلق بھارت سے ہے پاکستانی کمیونٹی کی طرف سیساجد اکرم اور نوید اکرم نامی شخص کا پاکستانی ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ، حملہ ا...
پاکستان کے بلند ترین ٹیرف کو در آمدی شعبے کے لیے خطرہ قرار دے دیا،برآمد متاثر ہونے کی بڑی وجہ قرار، وسائل کا غلط استعمال ہوا،ٹیرف 10.7 سے کم ہو کر 5.3 یا 6.7 فیصد تک آنے کی توقع پانچ سالہ ٹیرف پالیسی کے تحت کسٹمز ڈیوٹیز کی شرح بتدریج کم کی جائے گی، جس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی سلیبز...
میں قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں میری ڈگری اصلی ہے، کیس دوسرے بینچ کو منتقل کردیں،ریمارکس جواب جمع کروانے کیلئے جمعرات تک مہلت،رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی...
سکیورٹی فورسز کی کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کارروائی، اسلحہ اور گولہ بارود برآمد ہلاک دہشت گرد متعدد دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔آئی ایس پی آر سکیورٹی فورسز کی جانب سے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کلاچی میں خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشن میں 7 دہشت گرد مارے گئے۔آئی ایس...
کراچی رہنے کیلئے بدترین شہرہے، کراچی چلے گا تو پاکستان چلے گا، خراب حالات سے کوئی انکار نہیں کرتاوفاقی وزیر صحت کراچی دودھ دینے والی گائے مگر اس کو چارا نہیں دیاجارہا،میں وزارت کو جوتے کی نوک پررکھتاہوں ،تقریب سے خطاب وفاقی وزیر صحت مصطفی کما ل نے کہاہے کہ کراچی رہنے کے لیے ب...
ملک میں مسابقت پر مبنی بجلی کی مارکیٹ کی تشکیل توانائی کے مسائل کا پائیدار حل ہے تھر کول کی پلانٹس تک منتقلی کے لیے ریلوے لائن پر کام جاری ہے،اجلاس میں گفتگو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں (ڈسکوز) اور پیداواری کمپنیوں (جینکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کر...