وجود

... loading ...

وجود
وجود

دنیا ٹیلی ویژن سے افتخار احمد فارغ: الیکشن سیل میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے!

اتوار 18 اکتوبر 2015 دنیا ٹیلی ویژن سے افتخار احمد فارغ: الیکشن سیل میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے!

iftikhar-ahmed

پاکستان کے مرکزی ذرایع ابلاغ کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ چنانچہ یہاں ہر چیز غیر یقینی ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی چکاچوند دنیا میں تو روز نیے نیے شگوفے پھوٹتے ہیں۔ اب نیا کھڑاگ خود کھڑاگ کھڑے کرنے کے شوقین مشہور ٹی وی میزبان افتخار احمد کے متعلق ہی کھڑا ہوا ہے۔افتخار احمد نے دنیا ٹی وی سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اُنہوں نے اپنے “ٹوئیٹ ” میں یہ کہا ہے کہ اُن کے لیے یہ ایک تاریخی تجربہ تھا۔ مگر دنیا ٹی وی کے اندرونی حالات کو جاننے اور سمجھنے والے بخوبی آگاہ ہے کہ وہاں آدمی کے لیے کوئی تجربہ نہیں ہوتا بلکہ خود آدمی دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کے لیے ایک تجربہ ہوتا ہے۔ زیادہ بہتر الفاظ میں دنیا ٹی وی کی انتظامیہ کے لیے خو دافتخار احمد ایک تاریخی تجربہ ثابت ہوئے ہوں گے۔

دنیا ٹیلی ویژن سے ہی “مستعفی” ہونے والے ایک اور میزبان سمیع ابراہیم نے استعفے کی اندرونی وجوہات آشکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افتخار احمد 11 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے قائم سیل کے نگران تھے۔ یہ سیل کل اکیاون افراد پر مشتمل تھا ۔ مگر وہ اس میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے ۔ اور نتائج دینے میں دیگر ٹیلی ویژن کے مقابلے میں کوئی پہل کاری نہیں کر سکے۔

وجود ڈاٹ کام کو اپنے ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ افتخار احمد کے مراسم ٹی وی انتظامیہ سے پہلے ہی خراب ہو چکے تھے۔ افتخار احمد جیو سے وابستہ تھے۔ جہاں اُن کے معاملات جیو کے مالکان سے خراب ہوگیے تھے۔(یہاں اس کی تفصیلات کی ضرورت نہیں) اس دوران میں مصنوعی اور ناقابل عمل دعووؤں کے ساتھ ابھرنے والے ایک نیے میڈیا ہاؤس “بول “کے لیے اُنہوں نے اڑان بھری۔ جیو کے مالک میر شکیل الرحمان ایک سال سے اپنے ہی ملازمین کے دباؤ کے شکار تھے اور بول کے آنے کے باعث تنخواہوں میں اضافوں سے اپنے چمکتے ملازمین کو مسلسل روک رہے تھے۔افتخار احمد جیو میں بھی الیکشن سیل کے نگران ہوتے تھے۔جہاں اُن کے مسائل جیو کے ایک اور منفرد میزبان سہیل ورائچ سے رہتے تھے۔ سہیل ورائچ جو اپنی مخصوص آواز کے زیروبم اور رُکتے رڑکتے لہجے کے باعث دنیا کے کسی بھی ٹیلی ویژن کے کسی بھی پیمانے پر پورے نہیں اُتر سکتے تھے، پاکستان میں نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ سب سے زیادہ اُن کی آواز کی پیروڈی بھی کی گئی۔ مگر اس کے باوجودیہ ایک سچ ہے کہ وہ کسی بھی نوع کے انتخابات پر سب سے زیادہ گہری نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے انتخابات کے اسرارورموز اور حلقوں کی سیاست کو خوب سمجھتے ہیں۔ افتخار احمد اس باب میں قدرے کمزور ثابت ہوتے رہے ہیں۔ مگر وہ الیکشن سیل کے معاملات کی نگرانی اپنے پاس رکھنے میں جیو میں کامیاب رہتے تھے۔ جیو ایک وسیع تر نیٹ ورک کے علاوہ پاکستانی سیاست کو سمجھنے کی پاکستان جتنی ہی تاریخ کا حامل ایک ایسا ادارہ ہے جس سے ہر ٹیلی ویژن نیٹ ورک مقابلہ کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے افراد کو توڑ لینے سے وہ بھی جیو پر سبقت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس باب میں وہ یہ نظرانداز کر جاتے ہیں کہ یہ ایک ادارتی عمل ہے اور مسلسل مشق کا نتیجہ ہے۔ جس میں افراد ایک “برانڈ” کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ مگر وہ حتمی اثر ڈالنے یا پیدا کرنے والی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیو کو سمجھنے میں ناکامی کے باعث دوسرے ٹیلی ویژن نیٹ ورک مسلسل ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ دنیا ٹی وی کے سارے تجربات اسی سوچ کا نتیجہ ہے جس میں اُن کی تازہ ناکامی افتخار احمد کی صورت میں سامنے آئی ہے۔افتخار احمد کی ساری گونج گمک جیو کا نتیجہ تھی۔ بول نے ان ناموں کو خریدتے ہوئے یہ بات فراموش کردی اور اب دنیا بھی بول کے راستے آتے ہوئے ان جیو کے میزبانوں سے وہی اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے جو جیو پر سبقت کے حوالے سے بہت پُرانی ان میں موجود ہیں۔

دنیا ،ٹیلی ویژن اور اخبارات کی دنیا میں پھلنے پھولنے کے باوجود ابھی تک ایک اداری جاتی شکل میں نہیں ڈھل سکا

دنیا میں افتخار احمد کا معاملہ اس حوالے سے زیادہ بھیانک ہے کہ وہ دنیا کے اپنے مزاج اور ادارتی نمونے کے تحت ایک سیمسٹر بھی پورا نہ کرسکے۔ اور صرف دو ماہ سے بھی کم عرصے میں ادارے سے نکال باہر کیے گئے۔ اگر چہ افتخار احمد نے دنیا سے استعفی دیا ہے۔ مگر اس کی تفصیلات سے اندازا ہوتا ہے کہ دراصل معاملہ کیا ہوا ہے؟

افتخار احمد کو دنیا کی انتظامیہ نے ضمنی انتخابات کے اگلے روز یعنی 12 اکتوبر کو طلب کیا اور اُن سے پوچھا کہ وہ الیکشن سیل سے نتائج میں سبقت کیوں نہیں لے سکے؟ پھر اُن کے دیئے گیے نتائج غلط بھی ثابت کیوں ہوتے رہے؟ اُن پر ایک الزام یہ بھی لگایا گیا کہ اُنہوں نےاکیاون رکنی الیکشن سیل میں اپنے صاحبزادے سمیت زیادہ تر رشتہ داروں کو بھرتی کیوں کیا؟ظاہر ہے کہ افتخارا حمد نے الزامات کی وضاحت کے بجائے استعفے کا راستا چنا۔

ان الزامات کو دیکھنے کے دو زاویئے ہیں۔ پہلا زاویہ تو یہ ہے کہ افتخار احمد اپنے مشہو ر پروگرام جوابدہ میں پاکستان کے تقریباً تمام اہم سیاست دانوں سے اُن کے اقتدار کے زمانے میں اقرباپروری کے بارے میں سوالات کرتے رہے ہیں۔ مگرجب اُنہیں ایک “چھوٹے” ادارے کے نہایت “چھوٹے لوگوں “کے درمیان ایک” چھوٹے سے عرصے” کے لیے بہت ہی “چھوٹے سے اختیارات “ملے تو وہ خود بھی اقرباپروری کے شکار ہوئے۔ جب ایک الیکشن سیل کے قیام میں اقرباپروری سے وہ خود کو بچا نہیں پاتے تو پھر الیکشن کے بعد آنے والے اپنے زیادہ بڑے اقتدار میں سیاست دان خود کو کیسے بچا پائیں گے؟ یہ معاملہ قوت کے بارے میں رائج اس تصور کے عین مطابق ہے کہ کم طاقت کم خرابیوں کو جنم دیتی اور زیادہ طاقت زیادہ بڑی خرابیوں کو جنم دیتی ہے۔

افتخار احمد کی حد تک تو اس معاملے کا یہ زاویہ ہے مگر خود دنیا ٹیلی ویژن کی انتظامیہ کے لیے ایسے الزامات کسی اور پر لگانا اس لیے موزوں نہیں ہے کہ وہ دن رات ، اور نیچے سے اوپر تک سارے کام خود اسی طرح کرتے ہیں۔ دنیا کی ادارہ جاتی بناؤٹ میں یہ الزامات افتخار احمد کے ساتھ مخصوص نہیں کیے جاسکتے۔ دنیا کی انتطامیہ نے یہ ادارہ کسی اُصول پر چلانے کے بجائے اسے محض اپنی خواہشات ، سفارشات اور تعلقات کی آکاس بیل سے باندھے رکھا ہے۔ جس میں افراد کا آنا جانا اور اُن کی قیمت کا مول تول ایک منڈی کی طرح لگا رہتا ہے۔وجود ڈاٹ کام سے دنیا ٹی وی کی انتظامیہ میں اوپر کی سطح پر کام کرنے والے ایک اہم ترین سابق افسر نے کہا کہ “مجھے لگتا ہے کہ افراد کو لانے اور نکال باہر کرنے میں دنیا کی انتظامیہ کے لیے کوئی نفسیاتی تسکین کا سامان بھی ہوتا ہے۔” جب اُن سے پوچھا گیا کہ نفسیاتی تسکین سے اُن کی کیا مراد ہے؟ تو اُن کا جواب تھا کہ “وہ افراد جو کبھی آپ کے لیے بہت اہم اور ناقابل رسا رہے ہو اگر دولت کے بل بوتے پر آپ کے رحم وکرم پر آجائیں تو اُن کو لانا اور لے جانا بس قربانی کے جانو ر کی طرح کا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ”

شاید اسی وجہ سے دنیا ٹی وی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا معاملہ بھی عارضی دنیا کی طرح ہے۔عارضی دنیا کی واحد یقینی چیز اُس کی غیر یقینیت ہے ۔ اسی طرح دنیا ٹی وی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ بہرحال افتخار احمد کے معاملے نے دوباتیں ایک بار پھر ثابت کیں :

اول:دنیا ،ٹیلی ویژن اور اخبارات کی دنیا میں پھلنے پھولنےکے باوجود ابھی تک یہ ایک ادارہ جاتی شکل میں نہیں ڈھل سکا اور یہ تاحال افراد کو لانے اور فارغ کرنے کے لیے جانچ پڑتال کے ایک معیار ی نظام کی تشکیل میں ناکام رہا ہے۔ اس باب میں کانا پھوسی اور خواہشات کی پیروی ہی واحد محرک ہے۔

ثانیاً: جیو ٹیلی ویژن میں ایک عرصہ تک کام کرنے والے افراد کے جسم کہیں پر بھی چلے جائیں ، اُن کی روح جیو ٹیلی ویژن کے اندر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔


متعلقہ خبریں


حکومت کاگندم بحران کی جامع تحقیقات سے گریز وجود - پیر 06 مئی 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے ’ہر قیمت پر کسانوں کے مفادات کا تحفظ‘کرنے کا عہد کیا ہے ، جبکہ وفاقی حکومت میگا اسکینڈل کی جامع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے ۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے درآمدات میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے...

حکومت کاگندم بحران کی جامع تحقیقات سے گریز

سعودی وفد کادورہ پاکستان، 10ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے متوقع وجود - پیر 06 مئی 2024

سعودی تجارتی وفد سرمایہ کاری کے باہمی تعاون کیلئے پاکستان پہنچ گیا۔ سعودی عرب کے نائب وزیر سرمایہ کاری ایچ ای ابراہیم المبارک کی قیادت میں 50ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطحی تجارتی وفد پاکستان پہنچا۔ سرمایہ کاروں کے وفد کے دورہ پاکستان کے دور ان 10 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے معاہدوں ...

سعودی وفد کادورہ پاکستان، 10ارب ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے متوقع

اسرائیلی فوج کی طولکرم ،رفح میں وحشیانہ کارروائیاں ،8 فلسطینی شہید وجود - پیر 06 مئی 2024

اسرائیلی فوج کی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں ، طولکرم میں مزید5 فلسطینی شہید کردئیے ، رفح میں ماں دو بچوں سمیت شہید جبکہ3 فلسطینی زخمی ہو گئے ۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر طولکرم کے قریب ایک قصبے میں رات کو کارروائی کے دوران 5 فلسطینیوں ک...

اسرائیلی فوج کی طولکرم ،رفح میں وحشیانہ کارروائیاں ،8 فلسطینی شہید

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر