... loading ...
بے لگام / ستار چوہدری
جب سامنے والا کباڑیا ہوتو دلیل ترازو نہیں بنتی،تحقیق کاغذ کی طرح مسل دی جاتی ہے ،فلسفہ وزن نہیں رکھتا،اور تجربہ محض ایک پرانا لوہا ٹھہرتا ہے ۔وہ کان نہیں رکھتاصرف ریٹ پوچھتا ہے ،وہ لفظ نہیں سمجھتاصرف فائدہ تولتا ہے ۔جہاں معیار صرف چاپلوسی ہووہاں سچ
بدتمیزی کہلاتا ہے ،اور جو جتنا جھکے اتنا ہی معتبر مانا جاتا ہے ۔وہ ملک، وہ معاشرے آہستہ نہیںچیختے ہوئے مرتے ہیں،کیونکہ وہاں سوال جرم
ہے اور خاموشی وفاداری۔عدالت فیصلہ سنا دے تو وزرا کیوں نکل آتے ہیںعوام کو تسلی دینے ؟کیا انصاف کو بھی ترجمان کی ضرورت پڑ گئی
ہے؟ اگر سزا ٹھیک تھی تو پھر یہ وضاحتیں کیوں؟اگر فیصلہ مضبوط تھاتو یہ خوف کیوں بول رہا ہے ؟لگتا ہے ملک میںاندھیرا اجالاایک ہی
اسکرپٹ پر چل رہا ہے ،کردار بدلتے ہیںمکالمے وہی رہتے ہیںاور عوام ۔۔۔عوام کا واسطہ کباڑیئے سے پڑا ہے ،جو ضمیر نہیں خریدتاصرف
وزن دیکھتا ہے ،جو خواب نہیں سمجھتاصرف لوہا گنتا ہے ۔ایسے میںتحریر چیختی ہے مگر سنائی نہیں دیتی،کیونکہ شور سچ کا نہیںتالیاں چاپلوسی کی بجتی
ہیں۔جب سامنے والا کباڑیا ہو توآپ کی تحقیق،فلسفہ،تجربہ،دلیل،الفاظ،تحریر سب ردی ہے ۔۔
سوال یہ نہیں،مجیب الرحمٰن غدارتھا یا نہیں۔۔۔؟ سوال یہ ہے مجیب کے مدمقابل بھٹواگر وفادار تھا توپھر اسے کیوں تختہ دارپر لٹکایا گیا؟
جسٹس صفدر شاہ کی بھی ڈگری جعلی نکل آئی تھی۔ جسٹس جہانگیری،شکرکریں،وہ چاہتے تو انکی ولدیت بھی جعلی نکل سکتی تھی،یاں تو ختنے بھی
چیک کئے گئے تھے ۔ حمید گل سینہ تان کر فخر سے بتایا کرتے تھے انہوں نے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنائی تھی،عدالتیں
سزائیں سناتی ہے ،بے چارے وزرا ء قوم کو بتانے آتے تھے ،سزائیں ٹھیک ہیں،یہ آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔ 78سالہ تاریخ،
سپریم کورٹ میں اے آر کارلینئس اور بھگوان داس کے علاوہ کوئی تیسرا نظر نہیں آتا۔۔ اور ہمارے ” طاہر اشرفیوں ”کے مطابق یہ ” دوزخ ”
میں جائیں گے اور باقی ” عدل فروش ” جنت میں جائینگے ۔ جس کو پورا زمانہ گالی دے رہا ہو،آپ اسے گالی نہ دیں ،جس کو آپ گالی دے
رہے ہیں،زمانہ اس کو گالی نہیں دے رہا۔۔۔بس پھر۔۔اپنے آپ کی طرف دیکھ لیں،گریبان میں جھانک لینا۔
1751ء تا 1779ء ، کریم خان زند ایران کا ایک معروف حکمران اور زندیہ سلطنت کا بانی تھا۔ اس نے خود کو بادشاہ (شاہ) کہلوانے
کے بجائے ”وکیل الرعایا ” ( عوام کا نمائندہ ) کہا، جو اس کی سادگی اورعوام دوستی کی علامت ہے ، اس کے دور میں ایران میں نسبتاً امن،
انصاف اور خوشحالی رہی، شیرازکو اس نے علمی، ثقافتی اورتجارتی مرکز بنایا، اس نے بھاری ٹیکسوں، شاہانہ نمود و نمائش اورظلم سے اجتناب کیا۔
کریم خان زند کو ایران کی تاریخ میں ایک عادل، نرم خو اور عوام دوست حکمران کے طورپریاد کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد زندیہ سلطنت کمزور
ہوئی اور بالآخر قاجارخاندان اقتدار میں آگیا۔اندھیرا،اجالا ڈرامہ آپ نے دیکھا ہی ہوگا،ایس پی، ڈی ایس پی کو جھاڑ پلاتا ہے ،پھر ڈی
ایس پی،ایس ایچ او کو ڈانٹتا ہے ،پھرایس ایچ او،تھانیدار کی بے عزتی کرتاہے ،بات ڈائریکٹ حوالدار تک آجاتی ہے اور وہ پھرملزموں پر
رعب ڈالتا ہے ،ڈانٹ ہویا خوشامد اس کا سلسلہ بھی اندھیرا،اجالا ڈرامے کی طرح چلتا ہے ،وزرا، وزیراعظم کی،وزیراعظم اپنے ” باس ” کی
خوشامد کرتے ہیں،باس،وزیراعظم کو ڈانٹتے ہیں،وزیراعظم،وزرا کو اور پھر شامت عوام کی آجاتی ہے ۔ہم اٹھتے ہوئے سورج سے ملاتے
ہیں نگاہیںہم گزری ہوئی رات کا ماتم نہیں کرتے خوشامد سے کریم خان زند کا واقعہ یاد آگیا۔ایک دن کریم خان زند سے کہا گیا کہ باہر ایک
شخص مسلسل رو رہا ہے اور وہ آپ سے ملاقات کی اجازت طلب کر رہا ہے ۔کریم خان نے کہا، جب اس کا رونا بند ہو جائے تو اسے میرے
پاس لے آنا،کافی دیر رونے کے بعد وہ شخص خاموش ہوا اور کریم خان زند کے روبرو پیش ہو کر کہنے لگا کہ ،جناب !!میں نابینا پیدا ہوا تھا لیکن
جب میں آپ کے والد کی قبر پر حاضری دینے گیا تو وہاں سے شفا یاب ہو گیا اور اب میں دیکھ سکتا ہوں، یہ سن کر کریم خان نے حکم دیا کہ اس
شخص کی بینائی دوبارہ چھین لی جائے ، تاکہ وہ دوبارہ وہیں جا کر شفاحاصل کر سکے ، بادشاہ کے اردگرد موجود لوگوں نے کہا، جناب !! یہ آپ
کے باپ کی قبر پر حاضری سے شفا یاب ہوا ہے ، اپنے والد کے لیے اسے معاف کر دیں، کریم خان نے جواب دیا، میرے والد شفا بخش
کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔؟ میرے والد جب زندہ تھے تو درہ بولی سورخ میں چوری کیا کرتے تھے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کی قبر کہاں ہے ۔ میں
حاکم بنا تو اس تلوار کے زور پر بنا،میرے بادشاہ بننے کے بعد کچھ چاپلوس لوگوں نے ان کے لیے ایک مقبرہ بنوایا اور اس کا نام ابوالوکیل رکھ
دیا، اگر آج میں نے ایسے چاپلوس لوگوں کو راستہ دے دیا تو یہ ہمارا دین اور دنیا دونوں برباد کر دیں گے ۔غور کریں تو لگتا ہے کہ ہم ” اندھیرا،
اجالا ” ڈرامہ دیکھ رہے ہیں اور ہمارا واسطہ ایک کباڑیے سے پڑا ہے ۔
٭٭٭