... loading ...
منظر نامہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
ہوائی اڈے پر امتحان بھارت کی کمزور معیشت کا اعتراف ہے ۔ترقی کے نعروں کے سائے میں بیروزگار نوجوان نسل مودی حکومت کی ناکامی ہے ۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سب سے بڑا روزگار کا سوال پس منظر میں سرحدوں پر اسلحہ، شہروں میں بیروزگار نوجوان اور معاشی بحران موجود ہے ۔جب کسی ریاست میں نوجوانوں کو نوکری کے لیے ہوائی اڈے کی رن وے پر امتحان دینا پڑ جائے تو یہ صرف ایک خبر نہیں رہتی بلکہ پورے نظام کے لیے ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے ۔ بھارت کی ریاست اوڑیشہ میں نیشنل گارڈ کی محض 187 اسامیوں کے لیے تقریباً 8000امیدواروں کی موجودگی نے اس سوال کو نہایت تلخ انداز میں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت واقعی اپنے نوجوانوں کو باعزت روزگار دینے میں کامیاب ہو پائی ہے یا نہیں۔ امتحان کے لیے کسی تعلیمی ادارے یا امتحانی مرکز کے بجائے ہوائی اڈے کے رن وے کا انتخاب خود اس بحران کی شدت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے ، جہاں نوجوان مستقبل کی اڑان کے خواب لیے کھڑے تھے مگر حقیقت میں وہ امتحان دے رہے تھے ، اڑان بھرنے کے لیے نہیں بلکہ محض زندہ رہنے کے لیے ۔یہ واقعہ محض انتظامی مجبوری کا نتیجہ نہیں بلکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی علامت ہے ، جو برسوں سے اعدادوشمار میں تو موجود ہے مگر اب تصویروں اور ویڈیوز کی صورت میں بھی دنیا کے سامنے آ چکی ہے ۔
بھارتی معیشت کو دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شمار کیا جاتا رہا ہے ، مگر اس چمکتی ہوئی تصویر کے پیچھے چھپی سچائی یہ ہے کہ روزگار کے مواقع آبادی کی رفتار سے کم بڑھ رہے ہیں۔ لاکھوں نوجوان ہر سال تعلیمی اداروں سے نکل کر روزگار کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں، مگر ان کے لیے دستیاب نوکریاں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 187 اسامیوں کے لیے 8000 امیدوار قطار میں کھڑے نظر آئے ، اور ہر امیدوار کے حصے میں صرف مایوسی اور غیر یقینی مستقبل آیا۔بھارتی حکومت کی پالیسیوں پر اگر سنجیدگی سے نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ترجیحات کا توازن بگڑ چکا ہے ۔ مودی حکومت نے برسوں سے ترقی کے نعروں، میک اِن انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا جیسے منصوبوں کو نمایاں کیا، مگر ان منصوبوں کے ثمرات عام نوجوان تک پہنچنے میں ناکام رہے ۔ صنعتی ترقی کے دعوے اپنی جگہ، مگر جب صنعتیں خود آٹومیشن کی طرف بڑھ رہی ہوں اور انسانی محنت کی ضرورت کم سے کم ہوتی جا رہی ہو تو روزگار کے نئے مواقع کیسے پیدا ہوں گے ؟ اس بنیادی سوال کا جواب حکومتی پالیسیوں میں کہیں نظر نہیں آتا۔دوسری جانب دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حکومت کی توجہ ملکی فلاح و بہبود کے بجائے جنگی جنون پر مرکوز ہوتی جا رہی ہے ۔ ہر سال دفاع کے لیے مختص کی جانے والی رقوم میں اضافہ ہو رہا ہے ، جبکہ تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبے اسی رفتار سے ترقی نہیں کر پا رہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کروڑوں نوجوان نوکری کی تلاش میں دربدر ہوں، وہاں دفاعی اخراجات کو ترقی کا پیمانہ بنا کر پیش کرنا عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے ۔
نوجوان سوال کر رہے ہیں کہ کیا سرحدوں کی حفاظت اس وقت زیادہ اہم ہے یا ان گھروں کی، جہاں بیروزگاری نے چولہا ٹھنڈا کر دیا ہے ؟اڑیشہ کا یہ واقعہ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ کسی ایک ریاست یا ایک محکمے تک محدود نہیں یہ پورے بھارت میں پھیلے ہوئے اس بحران کی علامت ہے جس میں سرکاری نوکریاں آخری سہارا بن چکی ہیں۔ نجی شعبہ یا تو محدود مواقع فراہم کر رہا ہے یا پھر ایسی شرائط عائد کر رہا ہے جو عام نوجوان کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔ نتیجتاً ہر سرکاری اشتہار ایک میلے کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، جہاں ہزاروں امیدوار چند نشستوں کے لیے قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف نوجوانوں کے ذہنی دباؤ میں اضافے کا باعث بن رہی ہے بلکہ سماجی بے چینی اور عدم استحکام کو بھی جنم دے رہی ہے ۔مودی حکومت کی معاشی حکمتِ عملی پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے اقدامات نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا، جو بھارت میں روزگار کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے تھے ۔ جب یہ کاروبار کمزور پڑے تو لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ، اور نئی بھرتیوں کا عمل تقریباً رک سا گیا۔ اس کے برعکس حکومت نے ان فیصلوں کو کامیابی کے طور پر پیش کیا، مگر زمینی حقائق اوڑیشہ کے ہوائی اڈے کی رن وے پر کھڑے نوجوانوں کی صورت میں سامنے آ گئے ۔
عوام کی بدحالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اب اپنی ڈگریوں کی نوعیت کو نظرانداز کر کے کسی بھی سرکاری نوکری کے لیے درخواست دینے پر مجبور ہیں۔ انجینئر، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ امیدوار ایک ہی لائن میں کھڑے ہیں، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ نجی شعبے میں استحکام نہیں اور سرکاری نوکری ہی واحد محفوظ راستہ ہے ۔ یہ رجحان کسی بھی معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ، جہاں صلاحیتوں کا درست استعمال نہ ہو رہا ہو۔اس پورے منظرنامے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بیروزگاری کے مسئلے کو سنجیدگی سے تسلیم کرنے کے بجائے اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ جنگی نعروں، قوم پرستی اور بیرونی خطرات پر گفتگو میں مصروف ہے ، جبکہ نوجوانوں کے روزگار کا سوال پس منظر میں چلا جاتا ہے ۔ اوڑیشہ کا واقعہ اگرچہ ایک لمحاتی خبر کے طور پر پیش کیا گیا، مگر درحقیقت یہ اس خاموش چیخ کی نمائندگی کرتا ہے جو بھارتی نوجوان برسوں سے بلند کر رہے ہیں۔اگر بھارت واقعی ایک مضبوط اور خوشحال قوم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ دفاعی طاقت اپنی جگہ اہم ہے ، مگر اس سے زیادہ اہم وہ انسانی طاقت ہے جو کسی بھی ملک کی اصل بنیاد ہوتی ہے ۔ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے بغیر ترقی کے دعوے محض کاغذی ثابت ہوں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو صنعت سے جوڑا جائے ، چھوٹے کاروباروں کو سہارا دیا جائے ، اور ایسی معاشی پالیسیاں بنائی جائیں جو محض اعدادوشمار نہیں بلکہ حقیقی زندگیوں میں بہتری لائیں۔ جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے ، اڑیسہ کی رن وے پر ہونے والا امتحان محض ایک واقعہ نہیں بلکہ آنے والے وقت کی ایک جھلک بنا رہے گا، جہاں نوجوان یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ اڑان بھریں یا امتحان دیتے رہیں۔مودی حکومت کو آئینہ دکھانا لازمی ہے تا کہ وہ پاکستان کے خلاف ہرہ سرائی اور جنگی جنون کی بجائے اپنی عوام کے بارے میں سوچے امن قائم کرے ۔
٭٭٭