... loading ...
محمد آصف
پاکستان کی تاریخ کا ہر باب قائداعظم محمد علی جناح کے وژن، فیصلوں اور قیادت کے بغیر نامکمل ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد، باوقار اور منظم ریاست کا خواب قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور اصولی جدوجہد کی دین تھا۔ ان کا وژن محض جغرافیائی علیحدگی تک محدود نہ تھا بلکہ وہ ایک ایسی اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے خواہاں تھے جہاں انصاف، مساوات، رواداری، آئین کی بالادستی، آزادیٔ اظہار اور اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں۔ آج پاکستان کو درپیش چیلنجز سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، ادارہ جاتی کمزوریاں اور سماجی تقسیم ہمیں قائداعظم کے وژن کی اہمیت اور اس کی عملی تطبیق کی فوری ضرورت یاد دلاتے ہیں۔ ایک مضبوط، پرامن، باوقار اور ترقی پسند پاکستان کا حقیقی راستہ اسی بنیاد میں موجود ہے جو قائداعظم نے اپنے خطابات، بیانات اور جدوجہد کے ذریعے واضح کی۔
قائداعظم کا وژن سب سے پہلے اصولی سیاست اور کردار کی پاکیزگی سے جڑا تھا۔ وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے اور ہمیشہ سچائی، دیانت اور اصول کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے ۔ ان کے نزدیک کوئی فیصلہ وقتی فائدے کے تحت نہیں بلکہ اصولی بنیادوں پر ہونا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر فورم پر صاف الفاظ میں کہتے تھے کہ قومیں کردار سے بنتی ہیں۔ قائداعظم کی زندگی کا ہر لمحہ ثابت کرتا ہے کہ وہ شخصی مفادات، ذاتی رنجشوں یا وقتی معاہدوں کے بجائے ہمیشہ ایک طویل المدتی اور پائیدار وژن رکھتے تھے ۔ اگر آج پاکستان اس اصولی سیاست کو معیار بنا لے تو نہ صرف سیاسی بحران ختم ہوسکتا ہے بلکہ معاشرتی اعتماد بھی بحال ہوسکتا ہے ۔
قائداعظم کا اگلا پہلو جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر غیر متزلزل یقین تھا۔ وہ بارہا کہہ چکے تھے کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کی امانت عوام کے پاس ہوگی اور ان کے نمائندے پارلیمنٹ کے ذریعے ریاست کا نظام چلائیں گے ۔ ان کے نزدیک ایک اصولی جمہوری ریاست ہی عوامی حقوق کا تحفظ کرسکتی ہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ادارے اپنی محددودات میں رہ کر کام کریں، قانون سب کے لیے برابر ہو اور آئین ریاست کا اعلیٰ ترین فیصلہ ساز دستاویز ہو۔ آج جب پاکستان بار بار ادارہ جاتی کشمکش اور سیاسی انتشار کا شکار ہوتا ہے ، قائداعظم کے جمہوری وژن کی یاد اور بھی گہری ہو جاتی ہے ۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو پارلیمنٹ اور آئین کو حقیقی معنوں میں بالادستی دینا
ہوگی، جو قائداعظم کا بنیادی نظریہ تھا۔
قائداعظم کی ریاست کا تیسرا بڑا ستون سماجی انصاف اور معاشی برابری تھا۔ وہ ایک ایسی فلاحی ریاست کا خواب رکھتے تھے جہاں ہر شہری خواہ وہ امیر ہو یا غریب اسے تعلیم، صحت، روزگار اور عزتِ نفس کے تحفظ کی ضمانت ہو۔ تقسیمِ ہند کے بعد کے حالات میں جب لاکھوں مہاجر بے گھر تھے ، وسائل محدود تھے اور ریاست نو قائم تھی، قائداعظم نے ہمیشہ کہا کہ حکومت کا اولین فریضہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے ۔ ان کا تصورِ پاکستان ایک معاشی طور پر مضبوط اور خود کفیل ملک کا تھا جو نہ صرف اپنے عوام کو سہولیات دے بلکہ عالمی سطح پر وقار کے ساتھ کھڑا ہو۔ آج جب پاکستان معاشی بحرانوں کی زد میں ہے ، قائداعظم کے ترقیاتی وژن کی اہمیت دوگنا ہو جاتی ہے ۔
قائداعظم کی قیادت کا ایک اور نمایاں پہلو مذہبی رواداری اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ہر شہری مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرے اور ریاست کسی شہری کے ساتھ مذہبی بنیاد پر امتیاز نہ کرے ۔ 11 اگست 1947 کی تاریخی تقریر میں ان کا پیغام ایک ایسی ریاست کا تھا جہاں مسلمان آزاد ہوں مگر غیر مسلم بھی پوری آزادی، عزت اور قانونی تحفظ کے ساتھ رہیں۔ اس وژن کا مقصد ایک متحد، پرامن اور مضبوط معاشرہ تشکیل دینا تھا۔ آج پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دے تاکہ معاشرتی تقسیم کم ہو اور ریاستی استحکام بڑھے ۔
تعلیم بھی قائداعظم کے وژن کا لازمی حصہ تھی۔ وہ تعلیم کو نہ صرف تنویرِ ذہن بلکہ قومی ترقی کی بنیاد سمجھتے تھے ۔ وہ ہمیشہ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ تعلیم کے بغیر قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں جدید علوم، سائنس، ٹیکنالوجی، معاشیات اور
انتظامی صلاحیتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ ملک عالمی دنیا میں خود کو منوا سکے ۔ آج کے دور میں جب عالمی برادری ڈیجیٹل ترقی اور علم پر مبنی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے ، قائداعظم کا تعلیم پر زور ہمارے لیے اہم رہنمائی کا ذریعہ ہے ۔
قائداعظم کے وژن کا آخری پہلو ایک مضبوط، باوقار اور پرامن خارجہ پالیسی سے متعلق تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان عالمی برادری میں برابری، امن اور احترام کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے ۔ وہ کسی بھی بلاک کی سیاست یا جنگی ایجنڈے سے آزاد رہ کر اپنی قومی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرنے کے حامی تھے ۔ وہ بارہا کہتے تھے کہ پاکستان کا مفاد سب سے پہلے ہے اور اسی کے مطابق عالمی تعلقات کی بنیاد ہونی چاہیے ۔ آج جب پاکستان کو خطے میں سیاسی اور معاشی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے ، قائداعظم کی خارجہ پالیسی کا اصولی اور باوقار فلسفہ ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔
حاصل بحث یہ ہے کہ ، قائداعظم محمد علی جناح کا وژن ایک جامع، اصولی، اخلاقی اور عملی رہنمائی پر مبنی تصورِ ریاست تھا۔ یہ وژن پاکستان کو نہ صرف ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنا سکتا ہے بلکہ اسے عالمی سطح پر باوقار مقام دلانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔ پاکستان کے مسائل چاہے سیاسی ہوں، معاشی ہوں یا سماجی ان سب کا حل قائداعظم کے افکار اور وژن کی عملی تعبیر میں پوشیدہ ہے ۔ آج پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ قومی وحدت، اصولی سیاست، آئینی بالادستی،معاشی انصاف، مذہبی رواداری اور جدید تعلیم کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل کرے ۔ یہی راستہ وہ ہے جس کی طرف قائداعظم نے اپنی قوم کی رہنمائی کی اور یہی راستہ آج بھی پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔
٭٭٭