... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔
امریکہ سے
آج کل دنیا بھر کے اخبارات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان خاموش معاہدوں کا تذکرہ جاری ہے۔ آخر کب تک پاکستان کی نظر امریکہ پر لگی رہے گی۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان 19مئی 1954 کو باہمی دفاع کے ایک معاہدے پر کراچی میں دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ نے پاکستان آرمی کو فوجی ساز و سامان اور تربیت دینے پر اتفاق کیا تھا ۔دونوں ممالک کے درمیان اس معاہدے پر دستخط سے پہلے اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی فوجی ساز و سامان کی درخواست پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ابتدائی اختلافات اور غلط فہمیوں کے بعد امریکی محکمہ دفاع نے آخر کار 1955 میں پاکستانی بری افواج کی چار انفنٹری اور ڈھائی آرمرڈ ڈویژنز کو امریکی ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان سے لیس کر دیا جس کی تفصیل امریکہ پاکستان کے دفاعی تعلقات پر لکھی جانے والی متعدد کتابوں اور ڈی کلاسیفائی ہونے والی سرکاری دستاویزات میں درج ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ملکی افواج کو فوجی ساز و سامان اور تربیت کی اصل ضرورت تھی۔ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اس وقت کی حکومت اس حالت میں نہیں تھی کہ اپنی فوج کو ہتھیار اور فوجی ساز و سامان فراہم کر سکتی یا محدود مالی وسائل کے سبب اس نوعیت کی فوجی ضروریات کو پورا کرپاتی۔ پاکستان آرمی کے اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان امریکہ کے ساتھ دفاعی تعلقات کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ میں سرکاری افسروں کی دفتری سست روی کے باعث ہتھیاروں کی فراہمی جیسے مسائل کو وہ اکثر و بیشتر چٹکیوں میں حل کروا دیتے تھے۔ پاکستان مسلح افواج کے ہتھیاروں اور ساز و سامان کے لیے امریکہ محکمہ دفاع کی طرف سے ابتدا میں جو فنڈز فراہم کیے گئے تھے وہ پاکستانی حکومت کی توقع سے کہیں کم تھے ۔ایوب خان کی طرف سے بھرپور اور مسلسل لابی کرنے کی وجہ سے امریکہ نے اس ضمن میں مختص کیے گئے فنڈز میں اضافہ کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ایوب خان نے ابھی مارشل لا نافذ نہیں کیا تھا۔
پاکستان کو فوجی امداد کے امریکی فیصلے کے اعلان سے ایک روز قبل صدر آئزن ہاور نے انڈین وزیراعظم نہرو کو ایک خط بھیجوایا جس میں نہرو کو یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد انڈیا کے خلاف نہیں اور امریکہ کی دی گئی فوجی مدد کو استعمال کرتے ہوئے اگر پاکستان نے کوئی جارحیت اختیار کی تو امریکہ ایسی کسی بھی جارحیت کو ناکام بنانے کے لیے فوری مناسب اقدام اٹھائے گا ۔یاد رہے کہ اس سے قبل وزیر اعظم نہرو نے آئزن ہاور کی انڈیا کی اسی طرح کی فوجی مدد کی پیشکش مسترد کر دی تھی۔ انڈین پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے نہرو نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ایشیائی امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ تاہم اپنے خطاب میں انہوں نے امریکی صدر پر سخت تنقید کا انداز نہیں اپنایا اور یہ کہا کہ مجھے یقین ہے آئزن ہاور انڈیا کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ۔بعد ازاں دہلی میں امریکی سفارت خانے کے ڈی کلاسیفائی ہونے والے کیبلز کے مطابق امریکی سفیر سے نجی گفتگو میں نہرو نے کہا تھا کہ انڈیا میں قلیل مقدار میں انتہا پسند مسلمان رہتے ہیں جن کو امید ہے کہ فوجی امداد سے مسلمان دوبارہ انڈیا پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔ امریکہ کی سفارتکاری پر ممتاز ترین تاریخ نویس رابرٹ میک موہن نے اپنی کتاب قرب وجوار میں سرد جنگ میں کوریا کی جنگ کو مشرقی وسطیٰ میں امریکہ کی سیکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے ازسرنو جائزے کی بڑی وجہ کے طور پر پیش کیا ہے اور اس تبدیلی کا سب سے پہلا فائدہ پاکستان کو ہوا ۔امریکہ کی قیادت میں مغربی دنیا نے سوویت یونین کو جا رح اور بے قابو فوجی طاقت کے طور پر دیکھنا شروع کیا ۔یورپ کے اندر بے چینی موجود تھی۔ جبکہ امریکی فوجیں مغربی اور مشرقی یورپ کی سرحدوں پرسوویت بری افواج کے سامنے موجود تھیں ۔امریکہ کا اندازہ تھا کہ سوویت یونین کی سرحد کے قریب سب سے زیادہ خطرے کا محاذ مشرقی وسطیٰ ہے جو سوویت جارحیت کے نتیجے میں محفوظ نہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے عرب ممالک ترقی پذیر تھے جن کے پاس فوجی ہتھیار اور افرادی قوت موجود نہیں تھی کہ وہ سوویت یونین کی طرف سے چڑھائی کرنے پر اپنا دفاع کر سکتے۔ مشرقی وسطیٰ کے عرب ممالک سوویت یونین کے خلاف قابل بھروسہ فوجی قوت نہیں ہو سکتے تھے۔ اس صورتحال میں امریکی فوجی اور جنگی حکمت عملی بنانے والوں کی نظریں پاکستان پر جم گئیں جو جنوبی ایشیا کی ایک اُبھرتی ہوئی مسلم قوت تھی جہاں کے لوگوں کی جنگی بہادری کی روایات بھی تھیں اور وہ سوویت یونین کے اتنے قریب بھی تھا کہ جہاں سے سوویت سرحد کے اندربمباری بھی کی جا سکتی تھی اور نگرانی کرنے کے لیے جاسوسی کی کارروائیاں بھی ممکن تھیں ۔امریکی فوج خارجہ پالیسی کے حکمت کاروں نے مشرقی وسطیٰ کے دفاعی ڈھانچے میں پاکستان کو مستقل مقام دینے کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پھر پاکستانی افواج کو اسلحہ سے لیس کرنا شروع کیا۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان سمیت اس وقت کی پاکستانی سویلین قیادت واشنگٹن میں ہونے والی بحث اور غور و فکر سے اچھی طرح آگاہ تھی کہ امریکی پالیسی سازوں کے حلقوں میں پاکستان کو مشرقی وسطیٰ میں سوویت جا رحیت کے خلاف فرسٹ لائن آف ڈیفنس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان دنوں پاکستانی بری افواج نے مغربی فوجی طاقتوں کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کی تھیں جن میں مشرقی وسطیٰ تیل کے کنوؤں یا تنصیبات کو سوویت یونین کے قبضے سے واپس لینے کے عمل کو دُہرایا گیا تھا۔ اس تمام عرصے کے دوران امریکی کھل کر پاکستان کو فنڈز دے رہے تھے اور پاکستان کی مسلح افواج کو ہتھیاروں سے لیس بھی کر رہے تھے اور یہ سب وہ مشرقی وسطیٰ کے دفاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے کر رہے تھے۔
1950کی دہائی میں امریکی فوجی منصوبہ سازوں کے ذہن پر پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع چھایا ہوا تھا۔ اس زمانے کی امریکی پالیسی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کے خیال میں کراچی اور لاہور کے علاقوں میں موجود امریکی بمبار طیارے بڑی آسانی سے مشرقی وسطیٰ کے تیل کی تنصیبات اور سوویت علاقوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس زمانے میں عام خیال یہ تھا کہ خطے میں کسی فوجی مہم جوئی یا فوجی تنازع میں پاکستان کو شرکت دار بنانے کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔ سوویت یونین کے خلاف 1950میں جب پاکستان امریکی فوجی شراکت دار بنا تو اس وقت یہ بہت زیادہ تھی۔ امریکہ سے ہتھیار لینے کے بعد بھارت کے ساتھ معاملات بہتر بنانے کے امکانات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ خطے میں کشیدگی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہو گیا اور کشمیر کا مسئلہ لا حل ہو گیا۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں میڈیا اور رائے عامہ مشرقی سرحد سے لاحق خطرات پر متفق تھے اور انڈیا سے پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے غیر ملکی فوجی امداد کے حصول کے حامی تھے اور ایوب خان امریکہ سے فوجی ہتھیاروں کے حصول کے لیے سب سے زیادہ پیش پیش تھے۔ امریکہ سے فوجی امداد حاصل کرنے کی سفارتی کوششوں میں وہ سر فہرست تھے۔ پینٹاگون کی بیوروکریسی کے سست رویے کے بارے میں پاکستانی حکام بطور خاص فکر مند تھے اور اس ضمن میں امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی خواہش سے آگاہ کیا گیا کہ پاکستان آرمی کو اسی تیزی کے ساتھ ہتھیار فراہم کیے جائیں جیسا کہ ایک اور مسلمان ملک ترکی کے معاملے میں کیا گیا تھا ۔ان دنوں ترکی کو بھی امریکہ کی جانب سے فوجی امداد کی فراہمی جاری تھی۔ ایوب خان اس وقت بے حد پریشان ہوئے جب امریکہ نے 1954 کے سال میں ابتدائی طور پر پاکستان کی مسلح افواج کے لیے 29.5ملین ڈالر کی رقم کا اعلان کیا اس رقم میں آرمی کے لیے29.5ملین بحریہ کے لیے پانچ اور فضائیہ کے لیے آٹھ ملین ڈالر کی رقم شامل تھی۔ پاکستان ڈیفنس پالیسی کے مطابق پاکستان میں امریکی فوجی نمائندوں سے تفصیلی بات چیت کے بعد ایوب خان بڑے دلبر داشتہ اوردل شکستہ تھے۔ ایوب خان نے اس وقت کے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ اگر پاکستان کو مزید رقم نہ ملی جیسا کہ امریکی فوجی نمائندے نے عندیا دیا تھا تو پاکستان کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ قطعی طور پر نہ کرنا ہی بہتر ہوگا ۔1955کے وسط میں پینٹاگون نے تخمینہ لگایا کہ پاکستان کو امریکی فوجی پروگرام کی کل لاگت ابتدائی تخمینہ کے مطابق 171ملین ڈالر نہیں بلکہ 300ملین ڈالر ہوگی۔ ایوب خان کی کوششوں اور لابی کے بعد امریکی فوجی امدادی پروگرام کی رقم 450ملین ڈالر تک بڑھا دی گئی ۔پاکستانی اشرافیہ کا اس معاملے پر اتفاق نہیں تھا کہ امریکی فوجی امداد پاکستان کے فائدے میں ہوگی یا نہیں ۔ایک بڑی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چلانا اور اس کے اخراجات کو برقرار رکھنا جو امریکی فوجی امداد کے حصول کے لیے ضروری تھی پاکستانی حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔اس وقت کے وزیر خارجہ چوہدری محمد علی نے امریکی حکام کے ساتھ اپنی ملاقات میں اس پہلو کونمایاں کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان نے فوجی ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان کے معیار کے لحاظ سے انڈیا پر یقینا ایک سبقت توحاصل کی لیکن یہ تھوڑے ہی عرصے کے لیے تھی کیونکہ ایک طرف وزیراعظم نہرو کی قیادت میں انڈین حکومت نے فوری طور پر ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے روس سے رابطہ کیا تو دوسری جانب جیسے ہی 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو امریکہ نے پاکستان پر پابندی لگا دی۔ حکومت پاکستان امریکہ کے ساتھ جو خاموش معاہدے کر رہی ہے۔ انہیں ماضی کے تجربوں سے کچھ سیکھنا ہوگا یہ خاموش معاہدے کہیں مہنگے نہ پڑ جائیں۔
٭٭٭