... loading ...
جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے
دنیا میں چند ممالک وہ ہیں جہاں پر نوجوانوں کی آبادی سکڑ رہی ہے، جبکہ بوڑھوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ان میں جاپان میں گزشتہ سال کے دوران آبادی میں ریکارڈ 9لاکھ سے زائد افراد کی کمی واقع ہوئی ہے جو ملک کو درپیش مسلسل کم شرح پیدائش کے بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے ۔جاپانی وزیر اعظم نے اس صورتحال کو ایک خاموش ایمرجنسی قرار دیا اور لچکدار دفتری اوقات کار اور مفت ڈے کیئر جیسی خاندان دوست پالیسیوں کے ذریعے اس رجحان کو روکنے کے اقدامات کا وعدہ کیا ہے۔ صرف جاپان ہی نہیں بلکہ ڈنمارک فن لینڈ ،جرمنی اور دیگریورپین ممالک ایسے ہی بحران کا سامنا کر رہے ہیں ۔
پاکستان ان خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے ۔حالیہ اعداد و شمارکے مطابق ملک کی 60فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے ۔یہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہو سکتا ہے اگر اس کودرست سمت دی جائے لیکن بدقسمتی سے موجودہ حالات نوجوانوں کے لیے پریشان کن ہیں ۔ہر سال صرف 20لاکھ نوجوان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں جو کہ موجودہ آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہے۔ اس کے برعکس نوجوانوں میں بے روزگاری ،ذہنی دباؤ اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے جو ایک خطرناک سماجی رجحان بن چکا ہے۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق صرف 2024میں 7لاکھ 27ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ملک روزگار کی تلاش میں گئے اور 2025کی پہلی ششماہی میں ہی مزید 3لاکھ 36 ہزار افراد ہجرت کر چکے ہیں جس رفتار اور تیزی سے پاکستانی نوجوان بیرون ملک جا رہے ہیں اگر دنیا ان کے لیے ویزوں کے حصول کو آسان کر دے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں آبا و اجداد کی قبریں ہی رہ جائیں گی۔ 1947کے بعد اب ایک بڑی ہجرت مشاہدے میں آرہی ہے جب ملک کے باصلاحیت افراد ملک کو خدا حافظ کہتے ہیں تو پیچھے ناکارہ لوگوں کا صرف بوجھ باقی رہ جاتا ہے۔ یہ بوجھ معیشت کی ترقی میں کوئی خاص کردار ادا کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی یا معاشی عدم استحکام کے گرداب میں پھنسنے سے قبل ہی ملک کی اشرافیہ جو بے حساب مال و متاع رکھتی ہے، اپنے بچوں اور سرمائے سمیت بیرون ملک سکونت اختیار کر لیتی ہے۔ جسے کیپیٹل ڈرین کہا جا سکتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کوئی خطہ اس وقت تک ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں شامل نہیں ہو سکتا جب تک اس ملک کا انسانی سرمایہ اپنے آبائی ملک میں رہنے کو فوقیت نہ دے ۔اب ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ انسان اپنا آبائی ملک کیوں چھوڑتا ہے وہ ملک جہاں اس کی پیدائش ہوئی بچپن کی یادیں گلی کوچوں سے وابستہ ہوں جہاں اس کے سارے دوست احباب موجود ہوں کیا اس ملک سے ہجرت سہل ہوگی۔ پاکستانیوں کی ہجرت کے پیچھے بہت سی اندرونی اور بیرونی عوامل کار فرما ہو سکتے ہیں جن میں سیاسی رسہ کشی ،ڈیفالٹ کی افواہیں، معیشت کی زبو ںحالی ،افراطِ زر کی بڑھتی شرح نیز اس کے برعکس بیرونی ممالک جاب مارکیٹ میں ہینڈسم سیلری پیکیج کی دستیابی شامل ہیں۔ بیرون ملک جانے والوں سے اگر پوچھا جائے کہ وہ کیوں جا رہے ہیں تو ایسے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کے حالات کی ایسی ڈراؤنی تصویر کشی کرتے ہیں کہ گویا ان کا یہاں دم گھٹ رہا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ جتنی مہارت ان میں موجود ہے اس کا آوٹ پٹ انہیں نہیں ملتا ۔ان کی عزت ہی نہیں ہے ۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں روزگار کی تلاش میں ہاتھ میں ڈگری لیے نوجوانوں کا گراف بہت زیادہ ہے لیکن نوکریاں نہیں دی جاتیں جو نوجوان تعلیم مکمل کر لیتے ہیں ان کو دو یا تین مہینے کی انٹر شپ کے نام پر بھی دھوکہ دیا جاتا ہے۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ نوجوان ڈنکی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔یہ جانتے ہوئے کہ اس سستے اور شارٹ کٹ راستے کے ذریعے ان کے مرنے کے 90سے 95فیصد خدشات ہوتے ہیں۔ بعض بے رحم انسانی اسمگلرز ایجنٹس ان نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے کنٹینرز میں بھر کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ اکثر نوجوان جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ،چند جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں اور جو بچ بچا کر یورپ پہنچ جاتے ہیں انہیں ویزا جیل زبان اوراسائلم مناسب روزگار جیسے مسائل گھیر لیتے ہیں۔
پاکستان کا بجٹ دیکھا جائے تو اس کا دیو ہیکل حصہ داخلی اور بیرونی قرضہ جات کی واپسی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے جبکہ ایک اور بڑا حصہ ڈیفنس سسٹم لے جاتا ہے ۔باقی رقم پاکستان کے سرمایہ دار طبقے پر سبسیڈیز ،ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کی شکل میں تقسیم کر دی جاتی ہے ۔ رہی سہی کسر معمول کے ریاستی اخراجات پوری کر دیتے ہیں۔ صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر، لائیو اسٹاک، عوامی فلاح و بہبود، ایگریکلچر اور روزگار کی خرابی کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی پیسہ بچتا ہی نہیں کہ روزگار کے مواقع پیداکر سکیں۔ حکومت ان بحرانوں کو حل کرنے کے بجائے ہجرت کرنے والوں کو لگام دینے میں مصروف ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے نے بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں میں سے 51000کو جہازسے آف لوڈ کر دیا۔ شرمناک بات یہ ہے کہ اس سال سعودی عرب نے 24 ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کی وجہ سے ڈیپورٹ کیا ۔دبئی نے 6 ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگتے پر ملک سے نکال دیا جبکہ آذربائجان نے ڈھائی ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگنے پرڈیپورٹ کیا ۔یہی نہیں اس کے علاوہ قطر، انڈونیشیا ،سایپرس، نائجیریا، برطانیہ کے علاوہ ملیشیا نے بھی پاکستانیوں کو بھیک مانگتے ہوئے پکڑ کر ڈیپورٹ کیا ۔تصور کریں 24ہزار پاکستانی کمبوڈیا گئے جس میں سے 12 ہزار واپس نہیں آئے ۔المیہ دیکھیں چار ہزار پاکستانی ٹورسٹ ویزے پہ برما گئے، ان میں سے ڈھائی ہزار واپس نہیں آئے جبکہ دوسری طرف ایتھوپیا اور زمبیا کے ذریعے پاکستانی غیر قانونی طریقے سے یورپین ممالک جا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر پاکستانی یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں جب انسان کو بنیادی حقوق سے محروم کر دیا جائے۔ اس کی کی بنیادی ضروریات اس سے دور کر دی جائیں ۔انصاف اس کو نہ ملے ،امید کے دروازے سب اس پر بند ہو جائیں ۔جب حالات اتنے گمبھیر ہو جائیں کہ سانس لینا مشکل ہو تو بھیک مانگنا بھی مجبوری بن جاتا ہے اور کمبوڈیا اور ایتھوپیا جیسے ملک جانا بھی مجبوری بن جاتا ہے۔ کاش حکومت پاکستان اس بحران پر گہری نظر ڈالے اور اس مسئلے کا حل نکالے ۔اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ سوچے کہ آخر ہم اس سے نیچے کہاں جائیں گے پوری دنیا میں ہمارا مذاق اڑا رہا ہے۔
٭٭٭