... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
عمران خان اور بشریٰ بی بی صاحبہ کو ایک اور کیس میں ایک اور سزا دے دی گئی ہے، مگر عوام کے دلوں میں عمران خان کی محبت شاید بڑھتی ہی جا رہی ہے وہ ختم نہیں ہو رہی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔یقیناسزائیں دلوانے کی انتھک محنت میں یہ نظام مبارک باد کا مستحق ہے اور بڑی پلاننگ اور تیزی سے سزائیں سنائی جارہی ہیں، مگر پاکستانی عوام کے ذہن میں سوالات موجود ہیں جن کا جواب یہ نظام دینے سے قاصر ہے !اور شاید یہی اس نظام سے عوام کی نفرت کا سبب بھی ہے ۔سوچنا ہوگا کہ کیا نظام کے اس عمل سے قوم مستحکم ہو رہی ہے یا منتشر فیصلے ہی عوام کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں، جسے عوام دل سے قبول کرے ایسے فیصلے جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں مزید اس نظام کے خلاف نفرت بڑھ جائے ،وہ فیصلے نہ ملک و قوم کے لیے مفید ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عوام میں ان فیصلوں کو پزیرائی مل سکتی ہے۔
2022 میں جب عمران خان کی حکومت کا تختہ پلٹا تو اُس وقت سے لے کر آج کی تاریخ تک نیب کے 598 کیسز بند ہوئے ہیں، یعنی قانون میں ترمیم کرکے 598 نیب ریفرنسز بند کروائے گئے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ رقم تقریباً 150 ارب پاکستانی روپے بنتی ہے،15 ارب روپے کی کرپشن کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہے، کیا یہ کرپشن میں نہیں آتا اور کیا یہ چوری شدہ رقم قانونی ہوچکی ہے؟توشہ خانہ میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے علاوہ 21 بڑے سیاستدانوں کے نام تھے، کیا اُن 21 سیاستدانوں کو بھی 17,17 سالوں کی سزائیں ہوئی ہیں؟ کیا ان کے کیس بھی اسی تیزی سے چلائے جائیں گے یا انہیں بھی کٹہرے میں لایا جائے گا یا یہ ملک اسی طرح سے ایک ملک دو دستور کے طور پر چلتا رہے گا ،یہی سوال عوام کے ذہن میں اس نظام کے خلاف نفرت کا لاوا بن رہا ہے ،بات کسی سیاسی جماعت یا کسی شخصیت کی نہیں آئین اور قانون کی بالادستی کی ہے سیدھی سی بات ہے آئین اور قانون کے خلاف جو بھی کام کرے اسے سزا ہونی چاہیے، وہ 21 سیاستدان آج حکومت میں بڑے عہدوں پر ہیںتوشہ خانہ میں یہ سیاستدان شامل ہیں جنہوں نے تحائف کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھا ہے۔نواز شریف ،شہباز شریف (وزیرِ اعظم)،آصف زرداری (صدر)، مریم نواز (وزیرِ اعلیٰ پنجاب)، یوسف رضا گیلانی (چیئرمین سینیٹ)، شوکت عزیز ، راجہ پرویز اشرف (ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی)۔ اسحاق ڈار (وزیر خزانہ، ڈپٹی وزیر اعظم)،خواجہ آصف (وزیر دفاع)، بلاول بھٹو زرداری ،آصفہ بھٹو (ممبر اسمبلی)،طلحہ محمود (سینیٹر)،انوار الحق کاکڑ ، محمد اورنگزیب (ممبر اسمبلی)،احد چیمہ (وفاقی وزیر)، اعظم نذیر تارڑ (وفاقی وزیر)، مصدق ملک (وفاقی وزیر)،رانا ثناء اللہ، عطاء تارڑ (وفاقی وزیر)،جام کمال ،آمنہ بلوچ (فارن سکریٹری)اِن سب میں سے جس نے بھی غیر قانونی طور پر توشہ خانہ سے تحائف اپنے پاس رکھے ہیں، ان کا احتساب بھی عوام کی خواہش ہے ۔
1947 میں امیرالدین قدوائی نے پاکستان کا قومی پرچم بنایا اور 2019 میں اسی ریاست نے اس کے بے قصور پوتے کو 20 ماہ نیب کے ٹارچر سیل میں سڑایا،1906 میں نواب محسن الملک نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور 1960 میں اسی پاکستان میں ان کے نواسے حسن ناصر کو جنرل ایوب کے شکنجے میں ڈال کر مار دیا گیا،1921 میں حسرت موہانی مسلم لیگ کے تیرھویں صدر تھے اور 1995 میں ان کے پوتے کو دہشت گرد کا لیبل لگا کر ختم کر دیا گیا،1964 میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا گیا ،کردار کشی کی گئی بہتان لگائے گئے اور سرعام تذلیل کی گئی،1949 میں احمد چھاگلہ نے قومی ترانے کی دھن دی اور 1979 میں ضیاء کے پاکستان نے انہیں اور ان کے پورے خاندان کو ملک بدر کر دیا،1949 میں بیگم رعنا لیاقت علی نے ویمن نیشنل گارڈز بنائی اور 1951 میں اسی ریاست نے انہیں طوائف اور غدار قرار دیا،1940 میں اے کے فضل الحق نے قرارداد پاکستان پیش کی اور 1954 میں اسی شخص پر غداری کی مہر لگا دی گئی، 1947 میں کے ایچ خورشید نے کشمیر کے الحاق کے لئے جان لڑائی اور 1965 میں انہیں سڑکوں پر گھسیٹ کر جیلوں میں ڈالا گیا،1947 میں لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے اور 1951 میں انہیں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا پھر ان کی انکوائری رپورٹ بھی جلا دی گئی،1947 میں خواجہ ناظم الدین مسلم لیگ کے پہلے صدر تھے اور 1964 میں وہ بھی ریاستی فہرست میں غدار بن گئے،1947 میں سردار ابراہیم نے کشمیر کو پاکستان سے جوڑنے کی جدوجہد کی اور 2009 میں ان کے بیٹے کو غدار کہہ دیا گیا،1943 میں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں قرارداد لاہور پیش کی اور 1948 میں اسی شخص کو غدار بنا کر دیوار سے لگا دیا گیا،1940 میں بیگم سلمیٰ تصدق نے پاکستان کے لئے مہم چلائی اور 1960 میں ایوبی آمریت نے انہیں کرپٹ کہہ کر سیاست سے نکال باہر کیا،1946 میں میاں افتخارالدین نے مسلم گارڈز کے لئے اپنا گھر دے دیا اور 1960 میں انہیں بھی کرپشن کے فتوے سے نوازا گیا،1946 میں حسین شہید سہروردی نے مسلم گارڈز کا تربیتی مرکز بنایا اور 1960 میں انہیں غدار کہہ کر تاریخ سے مٹانے کی کوشش کی گئی،1945 میں والی قلات احمد یار خان نے قائداعظم کو سونے چاندی میں تولا اور 2006 میں ان کے پوتے کو جان بچا کر ملک چھوڑنا پڑا،1933 میں چودھری رحمت علی نے پاکستان کا نام دیا اور 1951 میں اس کا سب کچھ ضبط کر کے اسے در بدر کر دیا گیا،عبدالرب نشتر قائداعظم کا سچا سپاہی سب کچھ پاکستان پر قربان کر گیا اور اس کی نواسی ثانیہ نشتر کو عزت کے نام پر واپس بلا کر مایوس کر کے دوبارہ دھکیل دیا گیا، ہمیں بچپن سے رٹایا گیا کہ جی ایم سید غدار ہے مگر جب عقل جاگی تو پتہ چلا کہ سندھ اسمبلی سے قرارداد پاکستان منظور کروانے والا یہی شخص تھا مگر 1948 میں سچ بولنے کی سزا غداری بنی،ہم نے پڑھا مجیب الرحمن غدار تھا مگر تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ مسلم لیگ کے لئے سائیکل پر چندہ اکٹھا کرنے والا یہی انسان تھا،1947 میں مسلم اسٹوڈنٹ لیگ بنانے والا 1971 میں غدار ٹھہرا،فاطمہ جناح کا جمہوری ساتھی تھا، الیکشن جیتا پھر بھی اقتدار نہ ملا جیلیں ملیں قتل عام ہوا عورتوں کی بے حرمتی ہوئی اور آخرکار بنگالیوں نے غلامی ٹھکرا دی،ہم نے پڑھا حسین شہید سہروردی غدار تھا حالانکہ متحدہ بنگال چھوڑ کر پاکستان بنانے والا یہی شخص تھا،ہمیں کہا گیا اکبر بگٹی غدار تھا جبکہ بلوچستان کی مٹی گواہ ہے کہ بچپن میں پاکستان کے حق میں جرگہ کروانے والا محمد اکبر بگٹی تھا اور اسی کی بدولت بلوچستان پاکستان میں آیا،ڈاکٹر عبدالقدیر خان محسن پاکستان تھے مگر 2004 میں ایک آمر نے ان سے قوم کے سامنے معافی منگوائی انہیں قید رکھا اور خاموشی سے مٹی تلے اتار دیا، نواب آف بہاولپور جنہیں قائداعظم نے محسن پاکستان کہا ان کے وارثوں کو کوڑے اور جیلیں نصیب ہوئیں۔
آج عمران خان کے خلاف بھی وہی پرانا کھیل کھیلا جا رہا ہے،لے پالک میڈیا جھوٹ بیچ رہا ہے طاقتور تاریخ دہرا رہے ہیں۔عوام اب اندھی نہیں رہی، یہ سب ہتھکنڈے ناکام ہو چکے ہیں۔اب وقت ہے رٹایا گیا جھوٹ توڑا جائے اور اصل سچ کو عوام کے سامنے ننگا کر دیا جائے،یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے ۔
٭٭٭