وجود

... loading ...

وجود

مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل

پیر 22 دسمبر 2025 مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل

ریاض احمدچودھری

مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے پالیسی فیصلوں کا ایک سلسلہ مقامی آبادی بالخصوص مسلم اکثریت کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ناقدین ان اقدامات کو نوآبادیاتی منصوبے کا حصہ قرار دیتے ہیں جن کا مقصد علاقے میں انصاف ، وقار اور ثقافتی شناخت کو مجروح کرنا ہے۔ریزرویشن پالیسیوں میں حالیہ ترامیم بھی تنازعات کا باعث بن گئی ہیں۔ان تبدیلیوں سے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں اوپن میرٹ کی نشستیں تقریبا 60% سے کم کر کے 40% کر دی گئی ہیں جبکہ اہلیت کا دہرا معیار متعارف کرایا گیا ہے جس سے مقامی امیدواروں کو مزید نقصان پہنچا ہے۔
اوپن میرٹ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ریزرویشن رپورٹ کو لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری سے پہلے جاری کیا جائے۔انہوں نے اسے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بغیر کیا گیا فیصلہ قرار دیا۔میڈیکل انٹرنیز کے ساتھ امتیازی سلوک کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں جنہیں یومیہ 410 روپے کا وظیفہ ملتا ہے جو بھارت کے کسی بھی علاقے سے سب سے کم ہے اور ہسپتال کی کینٹین میں ایک وقت کا کھانا پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے۔ اس وظیفے کو بڑھانے کی تجویز گیارہ مہینوں سے تعطل کا شکار ہے اور اسے حال ہی میں بغیر کسی وضاحت کے مسترد کر دیا گیا جس سے کشمیری نوجوانوں کے لیے پیشہ ورانہ مواقع کو روکنے کی منظم کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
نائب تحصیلدار کے عہدوں کے لیے قابلیت کے معیار کے طور پر اْردو کو ہٹائے جانے کے بعد ثقافتی اور لسانی خدشات بھی شدت اختیار کر گئے ہیں جسے سماجی کارکن لسانی عصبیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ یہ فیصلہ کشمیری بولنے والے امیدواروں کو لسانی فائدے سے محروم کرنے کے لئے لیا گیا کیونکہ مقامی انتظامی ریکارڈ اردو زبان میں ہے اور یہ ثقافتی شناخت کو مٹانے کی طرف بھی ایک قدم ہے۔ریزرویشن کی یکطرفہ پالیسیاں ، انٹرنیز کا معاشی استحصال اور اردو کو نظرانداز کرنے جیسے مسائل کو بہت سے لوگ مقامی آبادی کو بے اختیار کرنے کی ایک وسیع حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی زیرِقیادت حکومت عدم مساوات کو فروغ دے رہی ہے اور علاقے میں آبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں کو ہوا دے رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں اور وہ شفافیت اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔بھارت کا شاندار آئین ملک کے ہر ایک باشندے کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اور اسی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے تعلیم اور روزگار سے منسلک ہر ایک ادارہ اور ان اداروں کی ذیلی شاخائیں بلا لحاظ مذہب و مسلک اور رنگ و نسل ہر فرقے کے ہر فرد کو نہ صرف مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ مواقع کو حاصل کرنے میں ہر فرد کی مدد اور رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ملک میں مسلمانوں کے حقوق اور تعلیم و روزگار کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد کا بھی یہی واویلا ہے کہ مسلمان وقت کے تقاضوں کو بھانپ کر اور جدید تعلیم اور روزگار کے وسیلوں اور معیارات کو سمجھ کر اپنے بچوں کو پڑھائیں اور جو لوگ اس قابل نہیں کہ وہ پڑھائی کا خرچہ اٹھاسکیں, ان کے لئے مسلم سماج کے امیر لوگ آگے آئیں اور پچھڑے ہوئے طبقے کے بچوں کے لئے تعلیم کا بندوبست کریں۔
بھارت کے حکمرانوں نے شروع دن سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ماتحت حکومت اور انتظامی نظام کا ڈھانچا کھڑا کر دیا۔ علاقے کے مسلمان لیڈروں کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے ان سے وعدہ کیا گیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے کو خودمختاری دے دی جائے گی۔ اس لیے مسلم کشمیری لیڈر بھارت کے حامی بن گئے۔ بھارت نے اپنے وعدے کو بھارتی آئین کے آرٹیکل370 میں شامل کیا لیکن یہ خودمختاری حقیقت میں نہیں دی گئی۔غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیرمیں کانگریس کے رہنما غلام احمد میر نے مقبوضہ علاقے اور بھارت بھر میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے امتیازی سلوک پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ حکومتیں آئینی طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی پابند ہیں۔ آئینی طور پر ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنائے، اپنی سرحدوں اور اقلیتوں کاتحفظ کرے۔ اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کے حقوق کا عالمی سطح پر تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ حقوق وراثت میں انہیں ملے ہیں اور آئین میں اس کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ فاروق عبداللہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی پسماندگی پرسخت تشویش کا اظہار کیا تھااور کہاتھا کہ بھارت میں مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ بھارت کے 24 کروڑ مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انہیں سمندر میں پھینکا جا سکتا ہے۔ بھارت کا آئین مذہب کی بنیاد پر مساوات اور عدم امتیاز کی ضمانت دیتا ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ وجود پیر 22 دسمبر 2025
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ

مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل وجود پیر 22 دسمبر 2025
مقبوضہ کشمیر سے کشمیری بے دخل

بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق وجود پیر 22 دسمبر 2025
بنگلہ دیش سے سیکھنے کے اسباق

پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار وجود اتوار 21 دسمبر 2025
پٹنہ واقعہ حجاب پر ہاتھ، وقار پر وار

مودی کے دور میں کالا دھن وجود اتوار 21 دسمبر 2025
مودی کے دور میں کالا دھن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر