... loading ...
محمد آصف
بنگلہ دیش ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں میں معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے حوالے سے قابلِ تعریف کارکردگی دکھا رہا ہے ۔ یہ ملک ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ محدود وسائل، بڑھتی ہوئی آبادی اور قدرتی آفات کے باوجود حکمت عملی، مستقل مزاجی اور اجتماعی کوشش سے ترقی کے راستے کو نہ صرف روشن کیا جا سکتا ہے بلکہ عوام کی زندگیوں میں حقیقی تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے۔ بنگلہ دیش نے غربت کے خاتمے ، تعلیم، خواتین کے حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور صحت کے شعبے میں کئی اقدامات کیے ہیں، جو دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں بنگلہ دیش کی معیشت سے سیکھنا چاہیے ۔ اگرچہ یہ ملک وسائل میں محدود ہے اور صنعتی ترقی کی رفتار کچھ کم تھی، لیکن انہوں نے مائیکرو فائنانس اور چھوٹے کاروباروں کے ذریعے مقامی لوگوں کو خود کفیل بنانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ مشہور مائیکرو فائنانس اسکیمیں جیسے گرامین بینک نے لاکھوں لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کے ذرائع قائم کر سکیں۔ اس سے نہ صرف غربت میں کمی آئی بلکہ خواتین کی معیشتی شرکت اور خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوا۔ اس بات سے سبق ملتا ہے کہ چھوٹے قدم اور مقامی سطح پر مضبوط اقدامات بھی بڑی سماجی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش نے نمایاں کام کیا ہے ۔ یہاں کے تعلیمی منصوبے ، خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دینے والے پروگرام، معاشرتی ترقی اور اقتصادی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوئے ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم کے برابر مواقع دینے سے نہ صرف تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوا بلکہ خواتین کے شعور، خود اعتمادی اور خاندان کے معیارِ زندگی میں بھی بہتری آئی۔ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک اہم سبق ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری معاشرے کی طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری ہے ، اور لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہر قوم کی فلاح کا ضامن ہے ۔
صحت کے شعبے میں بھی بنگلہ دیش نے قابلِ تعریف اقدامات کیے ہیں۔ ویکسینیشن پروگرام، ماں اور بچے کی صحت کے لیے مہمات، اور دیہی علاقوں میں بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے منصوبے اس بات کا ثبوت ہیں کہ کم وسائل کے باوجود منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ذریعے بڑے پیمانے پر اثر ڈالا جا سکتا ہے ۔ بنگلہ دیش نے ماحولیاتی تبدیلیوں، بارش کے سیلاب، اور سمندری طوفان جیسے قدرتی آفات کے دوران اپنی عوام کی حفاظت کے لیے منصوبہ بندی اور بروقت اقدامات کیے ، جس سے انسانی جانوں اور معیشت کو نقصان کم ہوا۔ اس سے سبق ملتا ہے کہ قدرتی آفات کے لیے تیار رہنا، ہنگامی ردعمل اور سماجی شعور پیدا کرنا ہر ملک کے لیے لازمی ہے ۔
ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے بھی بنگلہ دیش ہمیں اہم اسباق دیتا ہے ۔ ملک نے درخت لگانے ، پانی کے وسائل کا بہتر انتظام، اور فضائی آلودگی کم کرنے کے اقدامات کیے ہیں۔ پانی کی نکاسی، بارش کے پانی کا استعمال اور زراعت میں پائیدار طریقے اپنانا یہاں کی حکومت اور مقامی کمیونٹیز کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدود وسائل کے باوجود اگر منصوبہ بندی ہو اور سماجی شعور پیدا کیا جائے تو ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سماجی سطح پر بھی بنگلہ دیش کے اقدامات قابلِ تقلید ہیں۔ خواتین کی حقوق، دیہی معاشرت کی بہتری، اور غربت کے خاتمے کے پروگرام ایک ماڈل کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مقامی کمیونٹیوں کو خود کفیل بنانے ، معاشرتی تعاون بڑھانے اور سماجی انصاف کے اصولوں پر کام کرنے کے ذریعے یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کر پائے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرتی شعور، تعاون اور مساوات پر مبنی پالیسیاں ترقی کی بنیاد رکھتی ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی میں حکومتی شفافیت، مقامی کمیونٹی کی شمولیت اور بین الاقوامی تعاون بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک نے عالمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کی، مالی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کیا اور مقامی لوگوں کو منصوبوں میں شامل کیا۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ترقی صرف مالی وسائل کے استعمال کا نام نہیں بلکہ منصوبہ بندی، شفافیت اور عوامی شمولیت کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہے ۔
حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو ایشین ٹائیگرزکی صف میں شامل کیا جی ڈی پی تقریبا 8 تک پہنچ گئی، ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بوسٹ دیا، برآمدات بڑھائیں، غربت کو 31 سے 18 فیصد پر لے آئیں، 96 فیصد ملک میں بجلی پہنچا دی، تعلیم اور صحت میں انقلاب آ گیا، انفراسٹرکچر میں نمایاں تبدیلیاں لے آئیں، پدما بریج جیسے میگا پراجیکٹس چلائے لیکن۔۔ اس کے برعکس جمہوری اقدار کا قتل کیا، اپوزیشن کو دبایا، مخالف سیاسی رہنماؤں کو جیل میں ڈالا، عقوبت خانے بنائے ، میڈیا پر قدغن لگائی، مکمل ڈکٹیٹرشپ چلائی ۔جب عوام جاگے تو وہی فوج جس کا چیف حسینہ واجد کو عزیز تھا وہی ججز جن کے ذریعے اس نے مخالفین کو سزائیں دلوائیں سب اس کے خلاف ہو گئے ، اسے بھارت بھاگنا پڑا، اپنی زمین اس کے لیے تنگ ہو گئی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت اور آئین کا گلا گھونٹ کے اقتصادی ترقی کر لیں اور باقی جو مرضی کرتے رہیں ان کے لئے حسینہ واجد کی سزائے موت میں کھلی نشانیاں ہیں۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ محدود وسائل، قدرتی مشکلات اور بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود مستقل مزاجی، حکمت عملی اور اجتماعی کوشش سے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر پاکستان، بنگلہ دیش کے تجربات سے سبق لے کر اپنی پالیسیوں میں اصلاحات، عوامی شمولیت اور پائیدار ترقی کے اصول شامل کر سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کا یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قیادت، عوامی شعور اور اجتماعی محنت کے امتزاج سے ہی کسی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور عوام کی زندگی میں
حقیقی تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔
٭٭٭