... loading ...
منظر نامہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
پٹنہ کا واقعہ بھارتی سیاست کا اخلاقی دیوالیہ پن ہے ۔ریاستی اسٹیج پر مذہبی آزادی کی بے حرمتی اور طاقت کے سائے میں عورت کی تذلیل ہے ۔حجاب پر حملہ جمہوریت کی توہین ہے ۔انسانی تاریخ کے کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایک فرد یا ایک واقعے تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے سماج کے اخلاقی چہرے کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ایک سرکاری تقریب کے دوران پیش آنے والا واقعہ بھی ایسا ہی لمحہ ہے ، جہاں اقتدار کے نشے میں ڈوبا ایک منتخب وزیر اعلیٰ، ایک باحجاب مسلمان خاتون ڈاکٹر کے ذاتی اور مذہبی وقار کو سرِعام چیلنج کرتا نظر آیا۔ یہ واقعہ محض ایک فرد کے نامناسب رویے کا مسئلہ نہیں بلکہ اس منظم فکری روش کا عکاس ہے جو آج کے بھارت میں مذہبی آزادی، انسانی حقوق اور خواتین کے احترام کو بتدریج کمزور کر رہی ہے ۔ ڈاکٹر نصرت پروین کے ساتھ پیش آنے والا یہ سلوک ایک علامت ہے ، ایک وارننگ ہے ، اور ایک سوال ہے کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک واقعی اپنے آئینی وعدوں پر قائم ہے ۔سرکاری تقریب کا ماحول بظاہر رسمی تھا، جہاں تقرری نامے تقسیم کیے جا رہے تھے ، مگر اس اسٹیج پر طاقت کا توازن یکطرفہ تھا۔ ایک طرف ریاست کا طاقتور ترین منصب، اور دوسری طرف ایک خاتون ڈاکٹر، جو اپنی پیشہ ورانہ اہلیت کے اعتراف کے لیے آگے بڑھی تھی۔ اسی لمحے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا وہ عمل سامنے آیا جس نے تقریب کو تضحیک، خوف اور شرمندگی کی تصویر میں بدل دیا۔ ایک باحجاب خاتون کے نقاب کی طرف اشارہ کرنا اور پھر اسے کھینچ کر ہٹانے کی کوشش، محض بدتمیزی نہیں بلکہ عورت کے جسم، اس کے لباس اور اس کی مذہبی شناخت پر جبر کی واضح مثال ہے ۔ پہلی کوشش کی ناکامی کے بعد دوبارہ ایسا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ حرکت کسی غلط فہمی یا لاعلمی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے عدم احترام کا اظہار تھی۔ڈاکٹر نصرت پروین کی سرِعام تضحیک دراصل اس پورے بیانیے کو تقویت دیتی ہے جس میں مسلم شناخت کو مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ بھارت میں گزشتہ برسوں کے دوران حجاب، داڑھی، مساجد، مدارس اور مسلم ناموں کو سیاسی ہدف بنایا گیا ہے ۔ ایسے میں ایک وزیر اعلیٰ کا یہ رویہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ریاستی طاقت اب غیر جانبدار نہیں رہی بلکہ ایک خاص نظریے کے تابع ہو چکی ہے ۔ یہ نظریہ مذہبی تنوع کو خطرہ اور مسلم موجودگی کو مسئلہ سمجھتا ہے ، اور اسی سوچ کے تحت خواتین کے لباس تک کو سیاسی علامت بنا دیا گیا ہے ۔
ہیومین رائٹس کونسل آف پاکستان کا ردِعمل محض رسمی بیان نہیں بلکہ ایک اصولی موقف ہے جو عالمی انسانی حقوق کے دائرے میں پوری طرح درست اور قابلِ دفاع ہے ۔ کسی بھی عورت کے لباس کو زبردستی چھیڑنا، بالخصوص جب وہ لباس اس کی مذہبی شناخت سے جڑا ہو،
انسانی وقار کی سنگین پامالی ہے ۔ یہ عمل خواتین کے تحفظ، مساوات اور مذہبی آزادی سے متعلق ان عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے جن پر اقوام متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے معاہدے قائم ہیں۔ بھارت خود کو انہی معاہدوں کا پابند قرار دیتا ہے ، مگر زمینی حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے ۔یہ واقعہ اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہے کہ یہ کسی گلی یا ہجوم میں نہیں بلکہ ایک سرکاری تقریب میں پیش آیا، جہاں کیمرے موجود تھے ، انتظامیہ موجود تھی، اور ریاست کی نمائندگی ہو رہی تھی۔ اگر ایسے ماحول میں ایک مسلمان خاتون محفوظ نہیں تو عام حالات میں اس کی سلامتی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے ۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس معاملے کو انفرادی بدسلوکی سے اٹھا کر ریاستی رویے کے دائرے میں لے آتا ہے۔ دلچسپ اور معنی خیز پہلو یہ ہے کہ اس واقعے پر ردِعمل صرف سیاسی یا انسانی حقوق کی تنظیموں تک محدود نہیں رہا بلکہ سابق بالی ووڈ اداکارہ زائرہ وسیم جیسی شخصیات نے بھی کھل کر اس کی مذمت کی۔ زائرہ وسیم کا یہ کہنا کہ اقتدار اور طاقت کسی کو عورت کی ذاتی حدود پامال کرنے کا حق نہیں دیتے ، دراصل اس پورے مسئلے کا اخلاقی خلاصہ ہے ۔ یہ بیان اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ حجاب یا نقاب کسی بحث کا موضوع نہیں بلکہ ایک فرد کا ذاتی اور مذہبی حق ہے ، جس پر ہاتھ ڈالنا سراسر جبر ہے ۔بھارتی سیاسی حلقوں میں بھی اس واقعے پر تنقید سامنے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ضمیر ابھی مکمل طور پر مردہ نہیں ہوا۔ کانگریس کا اسے شرمناک قرار دینا اور راشٹریہ جنتا دل کا وزیر اعلیٰ کے رویے اور ذہنی حالت پر سوال اٹھانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ معاملہ محض مذہبی نہیں بلکہ اخلاقی اور سیاسی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنقید محض بیانات تک محدود رہے گی یا واقعی احتساب کی کسی صورت میں بدلے گی۔
مسلم خواتین کے خلاف امتیازی رویہ بھارت میں کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندیاں، سرکاری دفاتر میں امتیازی سلوک، اور سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہمات ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔ ڈاکٹر نصرت پروین کا واقعہ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے ، جس میں عورت کی پیشہ ورانہ شناخت کو اس کے مذہبی لباس کے نیچے دبا دیا جاتا ہے ۔ یہ طرزِعمل نہ صرف مسلم خواتین بلکہ پورے سماج کے لیے خطرناک ہے ، کیونکہ جب ریاست کسی ایک گروہ کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کرتی ہے تو کل کوئی اور گروہ بھی اس کی زد میں آ سکتا ہے ۔اس پس منظر میں غیر مشروط معافی کا مطالبہ محض رسمی نہیں بلکہ اخلاقی، قانونی اور انسانی تقاضا ہے ۔ معافی کے ساتھ ساتھ شفاف تحقیقات، ذمہ داری کا تعین اور متاثرہ خاتون کو مکمل تحفظ دینا ناگزیر ہے ۔ اگر ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کی گئی تو یہ خاموشی خود ایک جرم بن جائے گی، جو آنے والے وقت میں مزید جبر کو جنم دے گی۔آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی عورت کے نقاب، دوپٹے یا لباس پر ہاتھ ڈالنا محض ایک لمحاتی حرکت نہیں بلکہ ایک پورے نظریے کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ نظریہ اگر بروقت روکا نہ گیا تو جمہوریت محض ایک لفظ رہ جائے گی اور انسانی حقوق محض کاغذی وعدے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور خود بھارت کے باشعور شہری اس رویے کے خلاف واضح اور مضبوط موقف اختیار کریں، مذہبی آزادی کو واقعی آزادی سمجھا جائے ، خواتین کے وقار کو ناقابلِ سودے بازی اصول مانا جائے ، ریاستی طاقت کو اخلاقی حدود کا پابند بنایا جائے ، اور ایسے تمام اقدامات کیے جائیں جو آئندہ کسی ڈاکٹر نصرت پروین کو اس ذلت سے دوچار ہونے سے بچا سکیں، کیونکہ خاموشی جبر کو طاقت دیتی ہے اور مزاحمت ہی انسانیت کو زندہ رکھتی ہے ۔
٭٭٭