... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
18دسمبربین الاقوامی پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریس کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم سب کو مل کر ہجرت کرنے والوں کے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور ہجرت کے عمل کو محفوظ، منظم اور باعزت بنانا چاہیے۔ ہجرت ایک عالمی حقیقت ہے جس میں لاکھوں افراد جنگوں، قدرتی آفات اور اقتصادی بحرانوں کے باعث اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو فرد کی زندگی کو نئی سمت دے سکتا ہے اور عالمی معیشت و معاشروں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے طویل عرصے تک دنیا کے سب سے بڑے پناہ گزینوں کے بحران کا سامنا کیا ہے اور اس بحران کو بہتر طریقے سے منظم کرنے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔ 1979 سے لے کر اب تک پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی ہے جنہوں نے اپنے وطن میں جاری جنگ اور افراتفری سے بچنے کے لیے پاکستان کی سرحدوں کا رخ کیا۔ افغانستان میں جاری جنگ کے دوران پاکستان نے نہ صرف پناہ گزینوں کو پناہ دی بلکہ ان کے لیے خوراک، صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات زندگی فراہم کیں۔ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی نے پاکستان کے وسائل پر دباؤ ڈالا، مگر پاکستانی عوام اور حکومت نے ہمیشہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے بھی ایک منظم منصوبہ بنایا۔ پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل اس بات کا غماز تھا کہ نہ صرف پاکستان نے انہیں پناہ دی بلکہ ان کے لیے ایک محفوظ اور باعزت واپسی کو بھی یقینی بنایا۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل جب باقاعدہ طور پر شروع ہوا تو انھیںاپنے وطن واپس جانے کے لیے تمام ضروری سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اس عمل کے دوران پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیے مکمل تعاون کیا تاکہ وہ اپنے وطن واپس جا کر بہتر زندگی شروع کر سکیں۔حکومت پاکستان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ افغان پناہ گزینوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو اور ان کی واپسی ایک منظم اور محفوظ طریقے سے ہو۔ واپسی کے دوران انہیں ضروری دستاویزات فراہم کیے گئے اور ان کے لیے واپس جانے کے انتظامات کیے گئے تاکہ وہ اپنے وطن میں نئے سرے سے زندگی شروع کر سکیں۔ یہ عمل عالمی سطح پر ایک مثال کے طور پر دیکھا گیا کہ کس طرح پاکستان نے پناہ گزینوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کے وطن واپس جانے کے لیے بھی ایک باعزت اور محفوظ راستہ فراہم کیا۔
شام کی پناہ گزین لڑکی یسریٰ مردینی کی کہانی بھی یہی سکھاتی ہے کہ پناہ گزین صرف مشکل حالات میں مبتلا افراد نہیں ہوتے بلکہ ان کے اندر وہ صلاحیتیں، عزم اور جرات ہوتی ہے جو دنیا کو نئی روشنی دے سکتی ہیں۔ یسریٰ مردینی نے اپنے سفر میں ایک غیر معمولی کارنامہ انجام دیا، سن 2015 میں یسریٰ اور اس کی بہن سارا نے شام سے یورپ کے لیے کشتی پر سفر شروع کیا۔اچانک سمندر میں کشتی کا انجن بند ہو گیا اور کشتی آگے بڑھنا رک گئی۔سمندر کی منہ زور لہریں کشتی کو انجان سمت دھکیلنے لگیں ،کشتی میں کوئی چپو بھی نہیں تھا کہ اسے منزل کی جانب بڑھایا جاسکے۔ کشتی میںاٹھارہ افراد سوار تھے جنھیں تیراکی نہیں آتی تھی۔ یسری اور اس کی بہن کو تیراکی آتی تھی ،دونوں بہنوں نے تیراکی کرتے ہوئے کشتی کو منزل کی جانب دھکیلنا شروع کردیا۔کئی گھنٹے تیراکی کے بعد یسری اور اس کی بہن نے اپنی جرات اور ہمت سے کشتی کو ایک ساحل تک پہنچا دیایوں کشتی میں سوار 18 افراد کی جان بچ گئی۔اس بہادری پر یسریٰ کو یو این ایچ آر سی آرکی خیر سگالی سفیر مقرر کیا گیا۔بعدازاں یسریٰ مردینی نے ریو ۔اولمپکس اور ٹوکیو۔ اولمپکس میں بھی حصہ لیا اور تیراکی کی عالمی چیمپیئن بن گئی۔ یسریٰ کی یہ سچی کہانی بتاتی ہے کہ پناہ گزینوں کے اندر وہ توانائی ہوتی ہے جو نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ترقی کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔ پناہ گزینوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کے لیے محفوظ، منظم اور باعزت راستوں کی فراہمی عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ہر پناہ گزین کی زندگی میں استحکام آ سکے اور ان کی مہارتیں، محنت اور عزم عالمی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
٭٭٭