... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
ہم ایک عجیب کیفیت کا شکار ہیں۔ نہیں معلوم دکھوں کی پوٹلی کب تک ہم کندھوں پر اٹھائے برہنہ پا چلتے رہیں گے؟ شاید اس کارگہ ہستی میں موجود بے ہنروں کی خود آزمائیاں ہمیں ہمیشہ ایسے المیوں اور دکھوں کی اسیر رکھیں، جو ہمارے گرد پوری طرح حصار کھینچے ہوئے ہیں۔
تین برس سے زیادہ عرصہ ہوتا ہے، سیاست دانوں کی باہمی رنجشوں اور شخصی مفادات نے پوری قوم کو نفسیاتی دبائو میں ڈال رکھاہے۔ اس پر مستزاد ملکی معیشت کو نا قابل تلافی نقصان ہے اور ان دو دنوں سے بھی زیادہ اقتدار کی دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے سیاسی عدم بلوغت کا اظہار ہے، جو دنیا بھر میں ہمارے لیے جگ ہنسائی کا ذریعہ ہے۔ کچھ عالمی واقعات کو دیکھ لیجے تو اندازہ ہوتا ہے، ہم سفارتی سطح پر کس بری طرح تنہائی کا شکار ہیں۔ امریکا اور چین کے ساتھ معاملات تو خیر ایک خاص فضا میں بنتے ہیں، دوسرے ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کی کی ہٹ دھرمی اور ہماری سفارتی ناکامی یا ہمارے سفارت کاروں کی سرد مہری بہت کچھ بتاتی ہے۔ ملک کے اندر موجود بے شمار مسائل ایسے ہیں، جن پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے لیکن معلوم ایسا ہوتا ہے مقتدر حلقوں ، ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی ترجیح یہ ملک اور اس کے مسائل نہیں ہیں۔ ہر دو جماعتوں میں موجودہر سیاست دان اپنی ذات کے خول میں یوں گھرا ہے جیسے اس سے نکلے گا تو ہوا ہو جائے گا۔
خیبر پختونخواہ کا وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی دس بار پارٹی لیڈر سے ملاقات کی ناکام خواہش لیکر لوٹا ہے اور تو اور عمران خان کی بہنوں کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں ،گزشتہ روز رات گئے عمران خان کی بہنوں علیمہ خانم ،عظمیٰ خانم ،نورین خانم کے ساتھ راولپنڈی کی فعال ورکر عظمیٰ نقوی خواتین کی کثیر تعداد اور سینکڑوں ورکروں کے ساتھ اپنے بنیادی حق کیلئے بیٹھی رہیں لیکن ملاقات کی اجازت نہیں ،پاکستان میں چونکہ جمہوری حکومت موجود نہیں تاہم موجودہ حکومت چاہتی تو عمران خان کے بنیادی مطالبات کو مان کر اس مسئلے کو ہی جڑ سے اکھاڑسکتی تھی لیکن وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے ،ایسانہیں کیا۔عوام کے بنیادی حقوق معطل ہیں ،عدالتوں کا کوئی وجود نہیں ،عوام کے قدم قدم پر ہونے والی ناانصافی پر لاوہ پک رہا ہے ،اور حکمران ریاستی پولیس کی طاقت کے ذریعے عوام سے ان کا بنیادی حق احتجاج بھی چھین چکے ہیں ،وہ طاقت کے نشے میں اس بات سے بے خبر ہیںکہ ایک روز ایک ایسی تحریک جنم لے گی جو سب کچھ بہاکر لے جائے گی ۔ اس کے اثرات جلد یا بدیر ظاہر ہو جائیں گے، ظاہر ہے،پنجاب میں جو کچھ عوام کے ساتھ ہورہا ہے اس سے ن لیگ کا ورکر بھی بدظن ہوچکا ہے اور اب کوئی ورکر بھی خوش دلی سے مقامی قیادت کی جانب نہیں بڑھتا۔عمران خان کے ساتھ آج بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو حکومت کے ساتھ پینگیں بڑھا کر احتجاج کی راہ ترک کر چکے ہیں ، یہ وہی لوگ تو ہیں، جنھوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اوراب تحریک انصاف کی چھتری تلے موجود ہیں۔ ممبران صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی اپنے اپنے کاروبار لے کر خوش ہیں ،وہ پر تعیش زندگیاں گزاررہے ہیں۔ انھیں کسی بھی طرح دو وقت کی روٹیوں کے لیے دنیا سے لڑنا نہیں پڑتا۔ دوسری جانب عدلیہ ہے جس کا گلا 26ویںاور 27ویں ترامیم کے ذریعے گھونٹ دیا گیا ہے ۔ اب تحریک انصاف لے پالک عدلیہ سے اس بات کی متقاضی ہے اسے انصاف ملے ۔ خواہشوں پر تو پہرے نہیں بٹھائے جاسکتے۔ جہاں برسراقتدار طبقہ اپوزیشن کے خلاف من چاہے فیصلوں پر خوشیوں کے شادیانے بجائے اور انصاف پسند منصفوں کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنائے ، وہاں قانون کی سربلندی خواب کے سوا کچھ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ملکی مسائل کا کوئی فوری حل ممکن ہی نہیں ،پاکستانی معاشرے میں فساد ،اخلاقی انحطاط ،بد عنوانی ،خیانت اور ظلم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ نظام کی تبدیلی کے بغیر انصاف ممکن نہیں ، ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور ملک میں سیاسی عدم استحکام کے باعث نہ معیشت سنبھل رہی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل میں کمی ہورہی ہے غربت کا گراف ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔
٭٭٭