... loading ...
امریکہ سے
۔۔۔۔۔۔
جاوید محمود
وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے ہی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے متعلق بات کرتے ہوئے امریکہ میں ان کی موجودگی کو حملہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کو اسے سرحد سیل کرنے کا حکم دیا تھا ۔اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا اعلان بھی کیا تھا لیکن دنیا کی سب سے بڑی غیر ملکی آبادی والے ملک امریکہ میں امیگریشن کیا کردار ادا کرتی ہے اور اگر وہاں تارکین وطن نہ ہوتے تو کیا ہوتا ۔فرض کیجیے کہ تارکین وطن کو امریکہ سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا جاتا ہے تو امریکہ کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور یہ واضح طور پر سکڑ جائے گی۔ 2023 میں امریکہ میں تارکین وطن کی آبادی لگ بھگ 4کروڑر80لاکھ کی ریکارڈ سطح سے زیادہ تھی جو امریکہ کی مجموعی ابادی کا 14.3فیصد ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ 60لاکھ تارکین وطن کا تعلق میکسیکو سے ہے ۔اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے امریکہ میں تارکین وطن افراد کی تعداد 28 لاکھ جبکہ چین 25لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔اگرچہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پر باتیں ہوتی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد تارکین وطن کے لیے بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتا نامو بے کو غیر قانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے سے موجود مرکز کی توسیع کی جائے گی، ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ سنبھالے گی ۔صدر ٹرمپ کی جانب سے ملک سے 10 لاکھ افراد کے قریب ایسے تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکہ کے وہ شہر رکاوٹ بن سکتے ہیں جنہیں تارکین وطن کی پناہ گاہیں قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے لاس اینجلس نیویارک ہیوسٹن شکاگو اور اٹلانٹا جیسے شہر شامل ہیں ،جہاں بنا قانونی دستاویز والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی نسبت نقل مکانی کے لیے زیادہ دوست نوازہیں ۔ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو شہر سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کا آغاز کیا اوراس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔اس قسم کی کارروائیاں اٹلانٹا ڈینور میامی اور سین اینٹونیو میں بھی شروع ہو گئی۔ اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وفاقی ایجنٹ بھی اس معاملے میں اپنا کام نہیں کر سکیں گے۔ اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو انہیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے ۔وہ کاروباری ادارے یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔ دور حاضر میں امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتاً پناہ گاہ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ بہرحال ٹرمپ اور دیگر ریپبلیکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی پناہ گاہ کہہ جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ تحفظ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں ۔اپنے دوسرے دور میں ٹرمپ نے دفترمیں پہلے دن امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے جس میں ایک قانون کو منسوخ کرنا شامل تھا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں اسکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویز والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی ۔یہ وہ مقامات ہیں جنہیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انہیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا ۔ٹام ہومن بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے خلاف حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک ہیں اور انہیں ٹرمپ نے بارڈر زار کا عہدہ دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ بغیر دستاویزات والے افراد کو تلاش کرنے اور پکڑنے کی کارروائی سب سے پہلے شکاگو میں ہوئی جب سے صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ کارروائیاں صرف ان لوگوں تک محدود نہیں رہیں گی، جن کے خلاف پہلے سے کارروائیاں چل رہی ہیں بلکہ اس کا اطلاق تمام ایسے لوگوں پر ہوگا جن کے پاس معقول دستاویزات نہیں تاکہ لاکھوں لوگوں کو بے وطن کرنے کا ہدف پورا کیا جا سکے۔ اس وقت اتنا خوف ہے کہ ایک چرچ نے ہسپانوی زبان کا استعمال بند کر دیا کہ کہیں لاطینی تارکین وطن کو ایجنٹوں کے ذریعے نشانہ نہ بنایا جائے ۔شگاگو کے ایک بہت ہی میکسیکن اور لاطینی محلے ٹٹل ولج میں لوگ خوفزدہ ہیں جہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سردی کے موسم کے بعد وہاں سڑکوں پرمعاشی سرگرمیاں اور لوگوں کی موجودگی کم ہے ۔بہرحال اگر آئی سی ای والے آتے ہیں تو چھاپوں کو روکنے کے لیے بہت کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پر کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دور میں بھی نقل مکانی کے ماہر کہتے ہیں کہ جو بائیڈن اورباراک اوباما سمیت ہر دور میں ملک بدریاں ہوئی ہیں جو بڑے پیمانے پر تھیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ زیادہ جارحیت کے ساتھ تیز رفتاری سے اور بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭