وجود

... loading ...

وجود

ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

منگل 16 دسمبر 2025 ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

امریکہ سے
۔۔۔۔۔۔
جاوید محمود

وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے ہی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے متعلق بات کرتے ہوئے امریکہ میں ان کی موجودگی کو حملہ قرار دیا تھا۔ انہوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کو اسے سرحد سیل کرنے کا حکم دیا تھا ۔اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا اعلان بھی کیا تھا لیکن دنیا کی سب سے بڑی غیر ملکی آبادی والے ملک امریکہ میں امیگریشن کیا کردار ادا کرتی ہے اور اگر وہاں تارکین وطن نہ ہوتے تو کیا ہوتا ۔فرض کیجیے کہ تارکین وطن کو امریکہ سے مکمل طور پر بے دخل کر دیا جاتا ہے تو امریکہ کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور یہ واضح طور پر سکڑ جائے گی۔ 2023 میں امریکہ میں تارکین وطن کی آبادی لگ بھگ 4کروڑر80لاکھ کی ریکارڈ سطح سے زیادہ تھی جو امریکہ کی مجموعی ابادی کا 14.3فیصد ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ 60لاکھ تارکین وطن کا تعلق میکسیکو سے ہے ۔اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے امریکہ میں تارکین وطن افراد کی تعداد 28 لاکھ جبکہ چین 25لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے ۔اگرچہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پر باتیں ہوتی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ آمد تارکین وطن کے لیے بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتا نامو بے کو غیر قانونی تارکین وطن کو رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کا کہنا ہے کہ وہاں پہلے سے موجود مرکز کی توسیع کی جائے گی، ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ سنبھالے گی ۔صدر ٹرمپ کی جانب سے ملک سے 10 لاکھ افراد کے قریب ایسے تارکین وطن کو نکالنے کا بھی اعلان کیا ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکہ کے وہ شہر رکاوٹ بن سکتے ہیں جنہیں تارکین وطن کی پناہ گاہیں قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے لاس اینجلس نیویارک ہیوسٹن شکاگو اور اٹلانٹا جیسے شہر شامل ہیں ،جہاں بنا قانونی دستاویز والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگر حصوں کی نسبت نقل مکانی کے لیے زیادہ دوست نوازہیں ۔ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو شہر سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کو حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کا آغاز کیا اوراس کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔اس قسم کی کارروائیاں اٹلانٹا ڈینور میامی اور سین اینٹونیو میں بھی شروع ہو گئی۔ اگر کوئی شخص کسی معقول دستاویزات کے بغیر ان پناہ گاہ کہے جانے والے شہر میں رہ رہا ہے تو وہ اپنی امیگریشن کی حیثیت کو ثابت کیے بغیر حکام کے ساتھ معاملات میں آسانی کی توقع کر سکتا ہے لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وفاقی ایجنٹ بھی اس معاملے میں اپنا کام نہیں کر سکیں گے۔ اگر کسی بغیر دستاویز والے شخص کو کسی جرم کی وجہ سے حراست میں لیا جاتا ہے اور امیگریشن حکام کو اس کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو انہیں اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حق حاصل ہے ۔وہ کاروباری ادارے یا عوامی مقامات کے ساتھ ساتھ نجی گھروں میں بھی چھاپے مار سکتے ہیں۔ دور حاضر میں امریکہ میں صحیح معنوں میں کوئی بھی شہر ایسا نہیں ہے جو کہ حقیقتاً پناہ گاہ ہو اور جہاں آئی سی ای جیسی وفاقی ایجنسیاں ملک بدری کے لیے داخل نہ ہو سکیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ کوئی شخص بغیر دستاویزات کے وہاں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر سکتا ہے اور اسے ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ بہرحال ٹرمپ اور دیگر ریپبلیکن سیاست دانوں کی جانب سے بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کی پناہ گاہ کہہ جانے والے شہروں میں ڈیموکریٹک حکومتوں کی جانب سے مبینہ تحفظ فراہم کیے جانے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ گاہ کہے جانے والے شہر امیگریشن ایجنسیوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس سے وفاقی حکومت سے وسائل کے حصول کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں ۔اپنے دوسرے دور میں ٹرمپ نے دفترمیں پہلے دن امیگریشن سے متعلق کئی انتظامی احکامات پر دستخط کیے جس میں ایک قانون کو منسوخ کرنا شامل تھا جس میں وفاقی ایجنٹوں کو گرجا گھروں اسکولوں اور ہسپتالوں میں بغیر دستاویز والے تارکین وطن کی تلاش کی ممانعت تھی ۔یہ وہ مقامات ہیں جنہیں پہلے حساس سمجھا جاتا تھا اور انہیں امیگریشن چھاپوں سے مستثنیٰ سمجھا جاتا تھا ۔ٹام ہومن بغیر دستاویزات والے تارکین وطن کے خلاف حکمت عملی بنانے والوں میں سے ایک ہیں اور انہیں ٹرمپ نے بارڈر زار کا عہدہ دیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ بغیر دستاویزات والے افراد کو تلاش کرنے اور پکڑنے کی کارروائی سب سے پہلے شکاگو میں ہوئی جب سے صدر ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ یہ کارروائیاں صرف ان لوگوں تک محدود نہیں رہیں گی، جن کے خلاف پہلے سے کارروائیاں چل رہی ہیں بلکہ اس کا اطلاق تمام ایسے لوگوں پر ہوگا جن کے پاس معقول دستاویزات نہیں تاکہ لاکھوں لوگوں کو بے وطن کرنے کا ہدف پورا کیا جا سکے۔ اس وقت اتنا خوف ہے کہ ایک چرچ نے ہسپانوی زبان کا استعمال بند کر دیا کہ کہیں لاطینی تارکین وطن کو ایجنٹوں کے ذریعے نشانہ نہ بنایا جائے ۔شگاگو کے ایک بہت ہی میکسیکن اور لاطینی محلے ٹٹل ولج میں لوگ خوفزدہ ہیں جہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سردی کے موسم کے بعد وہاں سڑکوں پرمعاشی سرگرمیاں اور لوگوں کی موجودگی کم ہے ۔بہرحال اگر آئی سی ای والے آتے ہیں تو چھاپوں کو روکنے کے لیے بہت کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ابھی تک اس سے بہت مختلف پیمانے پر کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔یہاں تک کہ وائٹ ہاؤس میں ڈیموکریٹک انتظامیہ کے دور میں بھی نقل مکانی کے ماہر کہتے ہیں کہ جو بائیڈن اورباراک اوباما سمیت ہر دور میں ملک بدریاں ہوئی ہیں جو بڑے پیمانے پر تھیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ زیادہ جارحیت کے ساتھ تیز رفتاری سے اور بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
٭٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں! وجود منگل 16 دسمبر 2025
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں وجود منگل 16 دسمبر 2025
نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

دسمبر تُو نہ آیا کر وجود منگل 16 دسمبر 2025
دسمبر تُو نہ آیا کر

مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر