وجود

... loading ...

وجود

نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

منگل 16 دسمبر 2025 نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر شاداب احمد صدیقی

موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کے باعث دنیا اس وقت ایک نئے فلو ویرینٹ H3N2 کے باعث بے چینی اور خدشے کی زد میں ہے۔ سرد ہوا میں نمی کے ساتھ پھیلنے والا یہ وائرس بزرگوں ، بچوں ، کمزور مدافعت رکھنے والے افراد اور مستقل بیماریوں میں مبتلا لوگ اس اچانک ابھرتے خطرے کے سامنے زیادہ حساس دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت اور ماہرین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ یہ صرف ایک موسمی فلو نہیں بلکہ ایک ایسا ویرینٹ ہے جو تیزی سے پھیلتا ہے ، جس پر قابو پانے کے لیے بروقت احتیاط اور اجتماعی ذمہ داری ناگزیر ہے ۔ دنیا کے کئی ممالک میں اسکول بند کرنے کی تجاویز زیرِ غور ہیں، جبکہ وائرس کے پھیلاؤ، شدت اور شرحِ متاثرین میں اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ ہماری معمولی سی غفلت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ایچ 3 این 2 بنیادی طور پر انفلوئنزا وائرس کا ایک ذیلی ویرینٹ ہے جو برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے ، مگر اس بار اس میں آنے والی جینیاتی تبدیلیوں نے اسے زیادہ متحرک اور تیزی سے پھیلنے والا بنا دیا ہے ۔ جدید تحقیق کے مطابق یہ ویرینٹ ناک، گلے اور سانس کی نالی کو بہت تیزی سے متاثر کرتا ہے ، جس کی وجہ سے بخار، جسم درد، کھانسی، زکام، گلے کی خراش، کمزوری اور کبھی کبھار سانس لینے میں دشواری جیسے اثرات سامنے آتے ہیں۔ H3N2جیسے ویرینٹس نسبتاً آسانی سے حملہ آور ہو رہے ہیں اور ان کا دورانیہ بھی عام موسمی فلو سے طویل ہو سکتا ہے ۔
دنیا بھر میں وائرس کے پھیلاؤ کے اعداد و شمار تشویش ناک رفتار دکھا رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران فلو نما امراض میں اضافہ 20فیصد سے 35فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے ، جبکہ اسپتالوں میں داخل ہونے والے بزرگ مریضوں کی تعداد میں بھی 15فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ شدت دو وجوہات کے باعث بڑھ رہی ہے :پہلی یہ کہ H3N2کا پھیلاؤ تیز ہے ، دوسری یہ کہ اس کے خلاف قدرتی مدافعت ابھی پوری طرح مضبوط نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ صحت عامہ کے ادارے عالمی سطح پر الرٹ جاری کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس ویرینٹ کی سنگینی کو نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔
ایچ 3 این 2 وائرس کیوں پھیلتا ہے ؟ اس کا جواب انسانی سماجی رویوں اور وائرس کی ساخت میں پوشیدہ ہے ۔ یہ ویرینٹ ہوا میں موجود باریک ذرات کے ذریعے پھیل سکتا ہے ، چھینک، کھانسی یا ہاتھ ملانے سے منتقل ہو سکتا ہے ، اور بند کمروں میں کئی گھنٹے فضا میں معلق رہ کر متاثرہ شخص کے نہ ہونے کے باوجود دوسروں تک پہنچ سکتا ہے ۔ سرد موسم وائرس کو دیر تک فعال رکھتا ہے جبکہ گرم کپڑوں، ہیٹرز اور کمروں کی بندش کی وجہ سے ہوا کا تبادلہ کم ہوتا ہے ، جس سے وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیے ماہرین چاہتے ہیں کہ گھروں، دفاتر اور اسکولوں میں ہوا کی نکاسی بہتر رکھی جائے تاکہ وائرس کے اثرات کم کیے جا سکیں۔اسکول بند کرنے کی تجاویز بھی اسی تناظر میں سامنے آ رہی ہیں کیونکہ بچے وائرس کے تیز پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برسوں میں اسکول جانے والے بچوں میں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح 40فیصد تک رہی ہے ، جو بالغ افراد کی نسبت زیادہ ہے ۔ بچوں میں علامات ہلکی ہو سکتی ہیں اسی لیے خاص طور پر ایسے گھروں میں جہاں پہلے سے بیمار یا ضعیف افراد رہتے ہوں، بچوں کی صحت اور معمولات پر اضافی توجہ ضروری ہو گئی ہے ۔
ایچ 3 این 2 کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ یہ محض عام فلو ہی ہے جو چند دن میں خود ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ اگرچہ اصولی طور پر یہ انفلوئنزا خاندان ہی کا حصہ ہے ، لیکن ویرینٹ کی شدت، مدافعتی ردِعمل میں کمی اور موسم کے اثرات اسے زیادہ خطرناک بناتے ہیں۔ کئی ممالک میں ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جہاں مریضوں کو نمونیہ، سانس کی تکلیف اور طویل بحالی کے مسائل کا سامنا ہوا۔ بزرگ افراد میں فلو کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیاں اسپتال میں داخلے اور اموات کے خطرات کو بھی بڑھا سکتی ہیں، جنہیں ماہرین کے مطابق معمولی سمجھ لینا ایک بڑی غلطی ہوگی۔احتیاطی تدابیر ہی اس وبا کے مقابلے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔ ہاتھوں کی صفائی، کھانسی یا چھینک کے دوران منہ ڈھانپنا، ماسک کا استعمال، رش والی جگہوں سے گریز، بیمار ہونے کی صورت میں آرام اور گھر میں رہنا، اور کمرے کی ہوا کی نکاسی بہتر رکھنا وہ بنیادی عوامل ہیں جو وائرس کے پھیلاؤ کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ فلو ویکسین کی افادیت پر بھی ماہرین زور دے رہے ہیں کیونکہ سالانہ فلو ویکسین وائرس کے اثرات کو کم کر سکتی ہے ، خاص طور پر ان افراد میں جن کی عمر زیادہ ہو یا جنہیں پہلے سے کوئی دائمی مرض لاحق ہو۔ ویکسین نہ صرف بیماری کی شدت کم کرتی ہے بلکہ اسپتال داخلے کے امکانات میں بھی واضح کمی لاتی ہے ۔ساتھ ہی اپنی قوتِ مدافعت کو بہتر رکھنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ، جس کے لیے نیند پوری کرنا، متوازن غذا لینا، پانی زیادہ پینا اور ذہنی دباؤ کم رکھنا بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ اکثر لوگ بیماری کو ہلکا سمجھ کر انتظار کرتے ہیں کہ یہ خود ختم ہوجائے گی، لیکن تاخیر صورتحال کو بگاڑ سکتی ہے ۔ ہلکی علامات بھی اگر 48گھنٹے سے زیادہ برقرار رہیں یا سانس میں دشواری محسوس ہو تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ۔
عالمی سطح پر وائرس کا پھیلاؤ رکنے کا کوئی واضح امکان فی الحال دکھائی نہیں دے رہا، لیکن اس کی شدت کو کم کرنا بالکل ممکن ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتیں بروقت فیصلے کریں، صحت کے ادارے درست رہنمائی فراہم کریں، اور عوام اپنی ذمے داریوں کا احساس کریں۔ اسکولوں، دفاتر اور بازاروں میں انتظامیہ بہتر صفائی اور آگاہی کو یقینی بنائے ، جبکہ لوگ علامات چھپانے ، بیماری میں باہر نکلنے اور معمولی بخار کو نظر انداز کرنے کی غلطیوں سے گریز کریں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھنا، بیمار افراد کو آرام دینا، گھروں میں بزرگوں کی خصوصی حفاظت کرنا اور طبی مشورے پر عمل کرنا ایک ایسا سلسلہ ہے جو اجتماعی طور پر ہی حفاظت کا راستہ بنا سکتا ہے ۔دراصل وائرس روکنے کے لیے عملی اقدامات کا آغاز گھر سے ہوتا ہے ، اور معاشرتی سطح تک بڑھتا ہے ۔ یہی سلسلہ مضبوط ہو تو نہ اسکول بند کرنے کی نوبت آئے گی اور نہ اسپتالوں پر بوجھ بڑھے گا۔ اس لیے وقت کا تقاضا ہے کہ احتیاط کو معمول بنایا جائے ، روزمرہ زندگی میں حفظانِ صحت کے اصول شامل کیے جائیں، ویکسین سے گریز نہ کیا جائے ، کمروں کی ہوا کو تازہ رکھا جائے اور بیماری کی کسی علامت کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو اس نئی وبائی لہر کو کمزور کر کے ہمیں ایک محفوظ اور صحت مند سماج کی طرف لے جا سکتا ہے ۔اپنی خوراک پر بھرپور توجہ دیں اور سردی سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں! وجود منگل 16 دسمبر 2025
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں وجود منگل 16 دسمبر 2025
نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

دسمبر تُو نہ آیا کر وجود منگل 16 دسمبر 2025
دسمبر تُو نہ آیا کر

مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر