وجود

... loading ...

وجود

دسمبر تُو نہ آیا کر

منگل 16 دسمبر 2025 دسمبر تُو نہ آیا کر

ب نقا ب /ایم آر ملک

اک اور برس جینے کا الزام ہم نے اپنے سر لے لیا ۔
سانحہ پشاور پر لکھنے بیٹھوں تو احساسات لفظوں کی صورت بکھر جاتے ہیں جنہیں میں سمیٹ نہیں پاتا ۔اندر کے موسم ان باہر کے موسموں سے کبھی مشروط نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھی باہر کے موسموں کو بھی غارت کر دیتے ہیں اور گریبان تو شاید ہے ہی اسی لئے کہ اسے جھنجھوڑا جاتا رہے۔
وہ مائیں جو خوشیوں کی راہ تکتی رہیں انتظار جن کامقدر ہو گیا بھلا کوئی اُن سے پوچھے کہ اِس سانحہ کے بعد گزرنے والا ہر لمحہ اُنہیں کتنے زخم اور ٹیسیں دے گیا مگر ان مائوں کا ذکر کون کرتا یہاں اب یہ چلن رہا ہی نہیں انسان ،انسان کا دارُو تھا اب درد بن گیا ہے ۔
وہ مائیں جو کہنے کو اِک آزاد فضا میں سانسیں لے رہی ہیں کیا زندگی کے عالم میں ایک بھی سانس لے پاتی ہیں جن کے لخت ِ جگرنے اپنے ماتھے پر ممتا کا بوسہ لے کر دہلیز پار کی اور پھر لوٹ کر نہ آیا ، جب بھی تصور آتا ہے ساری دلیلیں ،سارے جواز بے بسی اور لاچاری کے سامنے گھگھیاتے نظر آتے ہیں ۔ قلم لہو اُگلنے لگتا ہے ،لفظ لفظ خون میں ڈوب جاتا ہے۔کہتے ہیں کانچ کے برتن گھروں میں اور خواب آنکھوں میں زیادہ دیر سلامت نہیں رہتے ۔
رضی نے لکھا کہ یہ سقوطِ ڈھاکہ سے بڑا سانحہ ہے۔سچ کہتا ہے رضی !پشاور کی مائوں کے خواب بکھرے ، جب خواب بکھر جائیں تو اِن کی کِرچیاں دل سے لیکر روح تک اُتر جاتی ہیں یہ کرب کوئی ماں ہی جان سکتی ہے۔ جب روز و شب کی تلخیوں اور زندگی کی تڑپا دینے والی اذیتوں نے نس نس میں زہر بھر دیا ہو، روح بھی ممتا کے بوجھ سے جکڑ گئی ہو ۔ایسے میں حالات سے سمجھوتے آساں نہیں ہوا کرتے، اپنی ذات کو حالات کی ڈگر پر چلنے کیلئے قائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔پشاور کی مائوں کیلئے زندگی ہر قدم پہ امتحان بن گئی ہے کہ کرب میں وہ جو منزلیں طے کر رہی ہیں اُنہیں سوچ کر روح میں شگاف پڑ تے جا رہے ہیں ۔ اور پھر بہلاوے تو سطح آب پر اُبھرنے والے بلبلے کی صورت ہوتے ہیں ناں !
ہ ر ایمان ہے کہ رب مہربان کسی بھی انسان کو اُس کی برداشت سے بڑھ کر دُکھ نہیں دیتا ۔یہ سچ بھی ہے زخموں کو تازہ رکھنا شاید ہم لکھنے والوں کی عادت ہے۔لیکن شاید پشاور کی وہ مائیں ہی بہت باہمت ہیں اپنے لعل کھو کر بھی جن کی برداشت کی کوئی حد نہیں ۔خوش قسمتی اور بد قسمتی کے درمیان کتنا فاصلہ ہے یہ شاید آج تک کوئی بھی نہ جان سکا، یہ شاید پلک جھپکنے کا مرحلہ ہوتا ہے ۔اور انسان کو خبر نہیں ہو پاتی کہ وہ کب کس جزیرے میں اُترنے والا ہے ۔سوچنے بیٹھ جائیے تو اپنے ہی بخیئے ادھیڑے جاتے ہیں اور کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا، صرف اِک اُمید اور آس ہے جو جینے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ اس خوش فہمی میں مبتلا رکھتی ہے کہ شاید کبھی ہم جو اپنی مرضی سے جی نہیں سکتے تو اپنی مرضی کے مرنے کا ہی حق پاسکیں۔
انتظار جب اس خواہش کا ہو جو اپنی دسترس میں نہ ہو تو اس انتظار کی کوئی حد نہیں ہوا کرتی یہ تو مرتے دم تک ساتھ رہتا ہے ۔حقیقتیں کتنی تلخ کیوں نہ ہوں اُنہیں تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔شامیں لہو رنگ ہوں تو اُن کی نفی نہیں کی جاسکتی ،آنسو رواں دواں ہوں تو قہقہے لگانا مشکل ہوتا ہے، شاہراہ ِ زندگی میں کڑی دھوپ کا سامنا ہو تو سائے پناہ نہیں دیتے ،دھرتی ماں کی طرح ہوتی ہے اور اِس سے وفا کی راہیں آسان نہیں ہوا کرتیں ،ان مائوں نے دھرتی ماں کا خراج ادا کیا ، اُن کے شہید بچوں نے قائد کے پاکستان کی بقاء کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ پشاور سانحہ کی ایک ماں جیسے اپنے اکلوتے شہید بیٹے کیلئے کہ رہی ہو کہ ”آج تمہاری فرقت میں میری ہستی ویرانیوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے ،روح پر آبلے نمودار ہیں اور بیٹے تمہارے جانے کے بعد زندگی خاکستر ہو چکی ،زندگی کی اُمنگ دل سے ناطہ توڑ کر جانے کہاں کھو گئی ؟بیٹے تمہاری یادوں کی زہریلی ناگن میرا دامن تھام کر اپنے ساتھ جانے کو مجبور کر رہی ہے جہاں تک نظر جاتی سینکڑوں مائیں ہیں جن کے زندہ لاشے ایک دوسرے پر اپنا بوجھ گرائے سسک رہے ہیں ”۔
کسی ماں کا جب اس احساس پر سوچتا ہوں تو قارئین میرے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں ،درد ِ لازوال کے بستر پر نیند نہیں آتی،سوچ کے تکئے پر سر رکھے آنکھیں بند کر کے جاگتا رہتا ہوں اور بستر کم مائیگی ،بے بسی کی شکنوں سے بھر جاتا ہے ۔ سچ کو آئینوں میں تلاش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی یہ تمغے کی صورت رکھتا ہے کہ اسے آپ نے سینے میں سجا لیا تو آپ سچائی کے دعویدار ہو گئے ۔ میں اُن سے مخاطب ہوں جو اسلام کے ٹھیکیدار بن کر اسلام جیسے پاکیزہ مذہب کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے ، اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جن کے مدرسے خود کش بمباروں کی نرسریاںہیں ،وہ مولوی جو 80کے عشرے میں بوری اپنے کندھوں پر اُٹھا کر گندم کی اُٹھائی کے موقع پر چھوٹے زمینداروں سے گندم کی بھیک مانگتا تھا ،اب اُس کے پاس تین تین لینڈ کروزر ہیں اور وہ اپنے علاقے کا سب سے بڑا غنڈہ ہے۔ اسلام سلامتی کا نام ہے کیا ان نو دولتیئے مولویوں کے من کے کسی گوشے میں اُس سلامتی کی رمق باقی ہے ؟
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں! وجود منگل 16 دسمبر 2025
ٹرمپ بڑے پیمانے پہ کچھ کرنا چاہتے ہیں!

نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں وجود منگل 16 دسمبر 2025
نئے فلو ویرینٹ کے بڑھتے خدشات اور ہماری ذمّہ داریاں

دسمبر تُو نہ آیا کر وجود منگل 16 دسمبر 2025
دسمبر تُو نہ آیا کر

مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر