وجود

... loading ...

وجود

ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال

پیر 15 دسمبر 2025 ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال

بے نقاب /ایم آر ملک

کیا جمہوری اورسیاسی مباحث میں ”ہائبرڈ نظام” کی اصطلاح کی کوئی گنجائش ہے ۔ دنیا میں کسی جمہوری ملک کی پالیسی سازی میں اداروں، انتظامی عناصر یا اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظر آتا ہے۔شخصی خواہشات کے گرد گھومنے والے مفادات پر مبنی نظام کو تجزیہ کار”ہائبرڈ نظام” سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ریاست ایک ایسے ماڈل کے تحت چل رہی ہے جہاں طاقتور قوتیں منتخب سیاسی قیادت کے مینڈیٹ پر شب خون مار کر اقتدار کی بساط پر من پسند مہروں کو مسلط کرکے عوامی امنگوں کے برعکس اپنا کھیل کھیلتی ہیں ،پارلیمنٹ ، عدلیہ عضو معطل ہوکر رہ جاتی ہے ،جعلی پارلیمنٹ میں بیٹھے غیر منتخب نمائندے طاقت ور عناصر کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فیصلہ سازی میں حصہ لیتے ہیںاور آئین سے متصادم ترامیم جنم لیتی ہیں ۔ اسے ہم طاقت کے بل بوتے پر ریاستی عناصر اور ان کے کھیل میں شامل حکمرانوں کا امتزاج کہہ سکتے ہیں ۔
ہائبرڈ نظام کے خدوخال سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے محض ایک لیبل نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک مکمل ساختیاتی ماڈل کے طور پر دیکھا جائے۔ اس ماڈل میں سب سے نمایاں خصوصیت طاقت کی ہوتی ہے۔ یعنی اقتدار ایک ایسی قیادت کے پاس ہوتا ہے،جس کی خصوصیت محض طاقت ہوتی ہے ۔طاقتور قوت کے کردار سے ایک مضبوط اور برقرار اثر موجود رہتا ہے۔ سیاست دان عوامی نمائندگی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، مگر ہائبرڈ نظام میں ایسا نہیں ہوتا وہاں مفادات کو سامنے رکھ کر کسی نہ کسی صورت میں فیصلہ سازی ہوتی ہے ۔ ہائبرڈنظام
کاکردار کبھی مشاورتی نہیں ہوتا بلکہ طے شدہ اختیارات کے تحت ہوتا ہے جس کو براہِ راست کہا جاسکتا ہے۔ہائبرڈ نظام کی دوسری بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ اس میں جمہوری عمل کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ جمہوریت کے نام پر ایسے ممالک جہاں انتخابات ہوتے ہیں، پارلیمان موجود ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں سرگرم رہتی ہیں،آزاد میڈیا بات کرتا ہے اور جمہوری ماحول بظاہر قائم دکھائی دیتا ہے۔ تاہم ہائبرڈ نظام میں فیصلے یا انتظامی معاملات عوامی نمائندوں کے بجائے ایسے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے نگرانی یا فیصلہ سازی کی مرتکز یہی قوت ہوتی ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہائبرڈ نظام خود کو ایک ایسے انتظام کی صورت میں پیش کرتا ہے جہاں نظم و ضبط اور سیاسی آزادی کا راستہ مسدود ہوتا
ہے۔ یعنی عوام کوبالجبر یہ احساس رہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ، ان کی رائے کااحترام ایسے نظام میں ماند پڑجاتا ہے ،اپنے طور پربظاہر طاقتور قوتیں یہ حکمت عملی نظام کو بکھرنے سے بچانے کیلئے اپناتی ہیں ۔ وہ سیاست دا ن جن کے سر پر طاقتورحلقوں کا ہاتھ ہوتا ہے بار بار تبدیل ہوتے ہیں ، اتحادی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، لیکن ریاستی پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے ۔ یہ تسلسل اسی ہائبرڈ ماڈل کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔
ہائبرڈ نظام کے منفی پہلو جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اس نظام میں سیاسی استحکام کو دھچکا لگتا ہے۔ خود ساختہ طاقت کے مراکز ریاست کو بحرانوں کے ایسے دھاگوں میں الجھا دیتے ہیں جن کے گنجھل کھل نہیں پاتے ۔ عوامی حمایت کے بغیر حکومت کا کردار متنازع رہتا ہے ۔حکومت کسی تنازع میں پھنس جائے تو انتظامی پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہائبرڈ نظام میں فیصلہ سازی غیر متوازن ہوتی ہے۔ اسی طرح ہائبرڈ نظام میں بحرانوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اس نظام کے پالن ہار تیز فیصلہ سازی کی راہ پر سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑتے ہیں ۔ خالص جمہوری نظام میں فیصلے زیادہ مشاورت کے تحت ہوتے ہیں، لیکن ہائبرڈ ماڈل میں انتظامی مشینری ایسے فیصلوں کو جنم دیتی ہے جن میں اسے عوامی تائیدحاصل نہیں ہوتی ۔ یوں ریاست بڑی تبدیلیوں یا خطرات کے وقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھودیتی ہے۔
جہاں تک عالمی مثالوں کا تعلق ہے، سیاسیات کی کتابوں میں کئی ممالک کا ذکر ہائبرڈ نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ ترکی، روس، مصر اور سنگاپور کو مختلف ادوار میں ہائبرڈ سیاسی ماڈل کی عملی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن ان ممالک میں جمہوری ادارے بھی موجود ہیں، انتخابات بھی ہوتے ہیں، ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہائبرڈ نظام کوجمہور کیلئے تباہ کن قرار دیا جاسکتا ہے جدید ریاستی ڈھانچے میں یہ ایک ، بحث طلب مطالعہ ماڈل ہے۔یوں یہ مفہوم سامنے آیا کہ جہاں غیر سیاسی ریاستی طاقتیں ایک ”ہائبرڈ نظام” کے تحت حکومتیں چلارہی ہوں وہاں انسانی حقوق کی پامالی ،عوامی رائے کا احترام دم توڑ دیتا ہے ،پاکستان میں اب یہی نظام رائج ہے۔ میڈیا کو مفادات پر لگا کر سچ کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ،عدلیہ کو ذاتی خواہشات کا پابند بنا کر انصاف کے حصول کو مسدود کردیا گیا ،آزادی اظہارِ رائے جرم بن گئی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال

وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار وجود پیر 15 دسمبر 2025
وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار

مودی سرکار کی سفاکی وجود پیر 15 دسمبر 2025
مودی سرکار کی سفاکی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر