... loading ...
بے نقاب /ایم آر ملک
کیا جمہوری اورسیاسی مباحث میں ”ہائبرڈ نظام” کی اصطلاح کی کوئی گنجائش ہے ۔ دنیا میں کسی جمہوری ملک کی پالیسی سازی میں اداروں، انتظامی عناصر یا اسٹیبلشمنٹ کا کردار نظر آتا ہے۔شخصی خواہشات کے گرد گھومنے والے مفادات پر مبنی نظام کو تجزیہ کار”ہائبرڈ نظام” سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس اصطلاح کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ریاست ایک ایسے ماڈل کے تحت چل رہی ہے جہاں طاقتور قوتیں منتخب سیاسی قیادت کے مینڈیٹ پر شب خون مار کر اقتدار کی بساط پر من پسند مہروں کو مسلط کرکے عوامی امنگوں کے برعکس اپنا کھیل کھیلتی ہیں ،پارلیمنٹ ، عدلیہ عضو معطل ہوکر رہ جاتی ہے ،جعلی پارلیمنٹ میں بیٹھے غیر منتخب نمائندے طاقت ور عناصر کی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے فیصلہ سازی میں حصہ لیتے ہیںاور آئین سے متصادم ترامیم جنم لیتی ہیں ۔ اسے ہم طاقت کے بل بوتے پر ریاستی عناصر اور ان کے کھیل میں شامل حکمرانوں کا امتزاج کہہ سکتے ہیں ۔
ہائبرڈ نظام کے خدوخال سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے محض ایک لیبل نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک مکمل ساختیاتی ماڈل کے طور پر دیکھا جائے۔ اس ماڈل میں سب سے نمایاں خصوصیت طاقت کی ہوتی ہے۔ یعنی اقتدار ایک ایسی قیادت کے پاس ہوتا ہے،جس کی خصوصیت محض طاقت ہوتی ہے ۔طاقتور قوت کے کردار سے ایک مضبوط اور برقرار اثر موجود رہتا ہے۔ سیاست دان عوامی نمائندگی کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں، مگر ہائبرڈ نظام میں ایسا نہیں ہوتا وہاں مفادات کو سامنے رکھ کر کسی نہ کسی صورت میں فیصلہ سازی ہوتی ہے ۔ ہائبرڈنظام
کاکردار کبھی مشاورتی نہیں ہوتا بلکہ طے شدہ اختیارات کے تحت ہوتا ہے جس کو براہِ راست کہا جاسکتا ہے۔ہائبرڈ نظام کی دوسری بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ اس میں جمہوری عمل کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔ جمہوریت کے نام پر ایسے ممالک جہاں انتخابات ہوتے ہیں، پارلیمان موجود ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں سرگرم رہتی ہیں،آزاد میڈیا بات کرتا ہے اور جمہوری ماحول بظاہر قائم دکھائی دیتا ہے۔ تاہم ہائبرڈ نظام میں فیصلے یا انتظامی معاملات عوامی نمائندوں کے بجائے ایسے ہاتھوں میں ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے نگرانی یا فیصلہ سازی کی مرتکز یہی قوت ہوتی ہے ۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہائبرڈ نظام خود کو ایک ایسے انتظام کی صورت میں پیش کرتا ہے جہاں نظم و ضبط اور سیاسی آزادی کا راستہ مسدود ہوتا
ہے۔ یعنی عوام کوبالجبر یہ احساس رہے کہ ان کے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ، ان کی رائے کااحترام ایسے نظام میں ماند پڑجاتا ہے ،اپنے طور پربظاہر طاقتور قوتیں یہ حکمت عملی نظام کو بکھرنے سے بچانے کیلئے اپناتی ہیں ۔ وہ سیاست دا ن جن کے سر پر طاقتورحلقوں کا ہاتھ ہوتا ہے بار بار تبدیل ہوتے ہیں ، اتحادی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، لیکن ریاستی پالیسی کا تسلسل برقرار رہتا ہے ۔ یہ تسلسل اسی ہائبرڈ ماڈل کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔
ہائبرڈ نظام کے منفی پہلو جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اس نظام میں سیاسی استحکام کو دھچکا لگتا ہے۔ خود ساختہ طاقت کے مراکز ریاست کو بحرانوں کے ایسے دھاگوں میں الجھا دیتے ہیں جن کے گنجھل کھل نہیں پاتے ۔ عوامی حمایت کے بغیر حکومت کا کردار متنازع رہتا ہے ۔حکومت کسی تنازع میں پھنس جائے تو انتظامی پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ہائبرڈ نظام میں فیصلہ سازی غیر متوازن ہوتی ہے۔ اسی طرح ہائبرڈ نظام میں بحرانوں کا سیلاب امڈ آتا ہے اس نظام کے پالن ہار تیز فیصلہ سازی کی راہ پر سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑتے ہیں ۔ خالص جمہوری نظام میں فیصلے زیادہ مشاورت کے تحت ہوتے ہیں، لیکن ہائبرڈ ماڈل میں انتظامی مشینری ایسے فیصلوں کو جنم دیتی ہے جن میں اسے عوامی تائیدحاصل نہیں ہوتی ۔ یوں ریاست بڑی تبدیلیوں یا خطرات کے وقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت کھودیتی ہے۔
جہاں تک عالمی مثالوں کا تعلق ہے، سیاسیات کی کتابوں میں کئی ممالک کا ذکر ہائبرڈ نظام کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔ ترکی، روس، مصر اور سنگاپور کو مختلف ادوار میں ہائبرڈ سیاسی ماڈل کی عملی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن ان ممالک میں جمہوری ادارے بھی موجود ہیں، انتخابات بھی ہوتے ہیں، ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہائبرڈ نظام کوجمہور کیلئے تباہ کن قرار دیا جاسکتا ہے جدید ریاستی ڈھانچے میں یہ ایک ، بحث طلب مطالعہ ماڈل ہے۔یوں یہ مفہوم سامنے آیا کہ جہاں غیر سیاسی ریاستی طاقتیں ایک ”ہائبرڈ نظام” کے تحت حکومتیں چلارہی ہوں وہاں انسانی حقوق کی پامالی ،عوامی رائے کا احترام دم توڑ دیتا ہے ،پاکستان میں اب یہی نظام رائج ہے۔ میڈیا کو مفادات پر لگا کر سچ کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے ،عدلیہ کو ذاتی خواہشات کا پابند بنا کر انصاف کے حصول کو مسدود کردیا گیا ،آزادی اظہارِ رائے جرم بن گئی ہے ۔
٭٭٭