... loading ...
معصوم مرادآبادی
‘وندے ماترم’ کا ایک سو پچاس سالہ جشن بی جے پی نے یہ سوچ کرمنایا تھا کہ وہ اس کے ذریعہ کانگریس اور مسلمان دونوں پر ایک ساتھ حملہ آور ہوکر انھیں کٹہرے میں کھڑا کردے گی، لیکن یہ داؤں بھی الٹا ہی پڑا۔ ‘وندے ماترم’ پر دس گھنٹہ طویل بحث کے دوران جب پارلیمنٹ میں اپوزیشن ممبران نے حکمراں جماعت سے یہ تیکھا سوال پوچھا کہ جب مجاہدین آزادی وندے ماترم گاتے ہوئے جیل جارہے تھے ،تب ان کے آباء واجداد کہاں تھے ؟ کیا وہ آرایس ایس کے کسی ایک لیڈر کا نام بتاسکتے ہیں جوآزادی کی تحریک میں ‘وندے ماترم’ گاتا ہوا جیل گیا ہو؟ اس پر حکمراں جماعت کے ارکان بغلیں جھانکتے ہوئے نظر آئے ۔ ظاہر ہے اس ملک کی آزادی کی تحریک میں سنگھ پریوار کا کوئی کردار نہیں ہے مگر وہ آج خود کو سب سے بڑا محب وطن اور دیش بھکت سمجھتے ہیں، لیکن ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اصل محب وطن وہ ہیں جن کے اجداد نے آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سینے پر گولیاں کھائیں۔’وندے ماترم’ کا معاملہ حکمراں طبقہ کی طرف سے اس لیے اٹھایا گیا تھا کہ ملک کو درپیش بحرانوں کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے ۔
دراصل جب کبھی ملک میں کوئی سنگین بحران پیدا ہوتا ہے تو بی جے پی سرکاراس سے توجہ ہٹانے کے لیے کوئی دوسرا راگ الاپنے لگتی ہے ۔
اب یہی دیکھئے نا کہ جس وقت شہری ہوابازی کے میدان میں ملک سنگین بحران سے گزررہا تھا اور ہوائی جہازوں کے لاکھوں مسافرملک کے مختلف ہوائی اڈوں پر دیواروں سے سرٹکرارہے تھے تو حکومت ‘وندے ماترم’ کے ڈیڑھ سوسال پورے ہونے کا جشن اس انداز میں منارہی تھی، گویا اس وقت ملک کو درپیش سب سے اہم مسئلہ یہی ہو۔ گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران ملک کی سب سے بڑی ایئر لائن ‘انڈیگو’ کی ایک دونہیں پوری پانچ ہزار فلائٹیں رد ہوئیں اور ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے دس لاکھ مسافرمسلسل احتجاج کرتے رہے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ اپنا ہی راگ ہی الاپتی رہی۔
اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس حکومت میں جوابدہی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے ۔ کوئی اور ملک ہوتا تو کم سے کم اب تک شہری ہوا بازی کا وزیر مستعفی ہوگیا ہوتا اور حکومت عوام سے معافی مانگتی، لیکن اس معاملے میں تو افسوس تک ظاہر نہیں کیا گیا۔ سب کچھ انڈیگو ائیرلائنز کے اوپر ڈال دیا گیا۔ بلاشبہ اس بحران کی ذمہ دار انڈیگو ائیرلائن تھی مگر اس ملک میں ایک شہری ہوا بازی کی وزارت بھی ہے جس کاکام ہوائی سفر کو آسان بنانا ہے ، مگر اس وزارت نے اپنے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں لی۔دراصل بڑے سے بڑا حادثہ یا بحران اس حکومت کے ماتھے پر شکن کا سبب نہیں بنتا۔ اسے معلوم ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر آسانی سے اپنی جان بچائی جاسکتی ہے یا پھر اس کے لیے جواہر لال نہرو یا پھر کسی روایتی دشمن کو ذمہ دار قراردیاجاسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ‘وندے ماترم’کے ڈیڑھ سوسال مکمل ہونے پر جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس پر مباحثہ ہوا تو وزیراعظم نے اس کا آغاز کرتے ہوئے اپنی تان پنڈت جواہر لال نہرو پر توڑی۔وزیراعظم نے لوک سبھا میں ‘وندے ماترم’ کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہونے پر کہا کہمحمدعلی جناح نے 15/اکتوبر 1937کو لکھنؤ میں وندے ماترم کی مخالفت کی، پانچ دن بعد نہرو نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کو بھیجے گئے خط میں لکھا کہ ‘وندے ماترم کا ‘آنند مٹھ’پس منظر مسلمانوں کو مشتعل کرسکتاہے ۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ‘بنکم چند کے صوبے میں 1937 میں کانگریس کے کلکتہ اجلاس میں ‘وندے ماترم’ کا جائزہ لیا گیا۔26/اکتوبر 1937کو کانگریس نے ‘وندے ماترم’ کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ کانگریس مسلم لیگ کے سامنے جھکی اور منہ بھرائی کی راہ اپنائی۔ اس لیے اسے ملک کی تقسیم کے لیے بھی جھکنا پڑا۔اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے کہا کہ یہ نہرو نہیں بلکہ بی جے پی کے بانی شیاما پرشاد مکھرجی تھے جنھوں نے بنگال میں مسلم لیگ کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔
وزیراعظم کا یہ بیان یوں تو ان کی نہرو مخالف مہم کا ایک حصہ ہے ، لیکن جہاں تک منہ بھرائی کا سوال ہے تو سبھی جانتے ہیں کہ بنکم چندر
چٹوپادھیائے کا لکھے ہوئے اس گیت کا ایک حصہ مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کے خلاف ہے ۔ اس میں وطن کو معبود کا درجہ دیا گیا ہے اور
مسلما ن خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کرسکتا۔اس حصہ میں لکشمی، سرسوتی اور درگا کی پرستش کے الفاظ ہیں۔یہ شرکیہ الفاظ مسلمانوں
کے عقیدے سے ٹکراتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کے دور میں مسلمانوں نے اس گیت کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ چونکہ اس وقت ہندو اور مسلمان کاندھے سے کاندھا ملاکر آزادی کی تحریک چلارہے تھے اور ان حالات میں ان کے مذہبی عقائد سے کھلواڑ کرنا اس تحریک کو نقصان پہنچانے کے مترادف تھا، لہٰذا اس گیت کے متنازعہ حصوں کو الگ کرکے صرف شروع کے دوبند گائے گئے ۔ اس وقت آئین ساز اسمبلی اور قومی ترانہ کمیٹی نے بھی شروع کے دوبندوں کو قومی ترانے کے طورپر منظور کیا تھا۔بنکم چند چٹرجی نے 1875میں اس گیت کے
دوبند لکھے تھے ۔1882میں اس میں چار اور بند جوڑ کر انھیں اپنے متنازعہ ناول آنند مٹھ میں شائع کیا۔اس ناول میں کئی جگہ مسلم مخالف جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ناول نگار بنیادی طورپر انگریزوں کا ایسا ہی ہم نوا تھا جیسا کہ اس دور میں آرایس ایس کے لوگ تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جب راجیہ سبھا میں عام آدمی پارٹی کے سرکردہ رکن سنجے سنگھ نے پوچھا کہآرایس ایس کے ایسے چار لوگوں کے نام بتائے جائیں جوآزادی کی تحریک میں جیل گئے ہوں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کے پچاس برسوں تک ناگپور میں قومی پرچم تک نہیں لہرایا گیا اور آج وندے ماترم کی بات کی جارہی ہے ۔سنجے سنگھ کے اس بیان پر ایوان میں سناٹا چھاگیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ بی جے پی نے وندے ماترم کا موضوع جہاں ایک طرف انڈیگو بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے اچھالا ہے وہیں دوسری طرف اس کی نگاہ مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات پر ہے ۔ ‘وندے ماترم’ لکھنے والے بنکم چندر چٹوپادھیائے کا تعلق بنگال ہی سے تھا
اور وہ برٹش سرکار کے ملازم تھے ۔انھوں نے 1857میں یہ متنازعہ گیت لکھا تھا جو بعد میں ان کے ناول ‘آنند مٹھ’ میں شامل کیا گیا۔بی جے پی کو اس وقت اس گیت کی یاد اس لیے آئی ہے کہ اگلے برس مغربی بنگال میں اسمبلی چناؤ ہونے والے ہیں اور اس بار وہ ممتا بنرجی کا تختہ پلٹنے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگارہی ہے ۔بی جے پی بنگال کو فرقہ وارانہ منافرت کی آگ میں جھونک کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتی ہے۔ اسی سلسلہ میں گزشتہ 6دسمبر کو مرشد آباد میں نام نہاد بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ۔ اس کا اعلان ترنمول کانگریس کے ممبر اسمبلی ہمایوں کبیر نے کیا تھا، لیکن بعد کو ممتا بنرجی نے یہ کہتے ہوئے انھیں اپنی پارٹی سے برطرف کردیا کہ ہر مذہب میں میرجعفر موجود ہیں۔ دراصل جس بھونڈے انداز میں نام نہاد بابری مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے ، اس سے پہلے ہی مرحلے میں یہ واضح ہوگیا کہ یہ ایک سیاسی کھیل ہے اور اس کی پشت پر بی جے پی ہے جو الیکشن سے پہلے بنگال میں فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکاکر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتی ہے ۔ اس نام نہاد مسجد کی تعمیر کے لیے لوگ کئی کلو میٹر پیدل چل کر اینٹیں لے کر پہنچے تو مجھے ایودھیا میں رام جنم بھومی مکتی آندولن کی یاد آئی۔ وہاں اسی انداز میں نام نہاد شردھالو رام شلائیں لے کر نکلتے تھے ۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہمایوں کبیر نے مسجد کے سنگ بنیاد کا اعلان کیا تھا لیکن انھوں نے وہاں ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں جیسے نظر آنے والے کچھ زرخرید مولویوں سے فیتا کٹوایا جبکہ فیتا کاٹنے کی رسم کسی چیز کے افتتاح کے موقع پر ادا کی جاتی ہے ۔
اب آئیے ایک نظر ہمایوں کبیر کے پس منظر پر ڈالتے ہیں۔ ہمایوں کبیر کے بی جے پی کے ساتھ پرانے رشتے ہیں اور وہ2019 کا لوک سبھا الیکشن بی جے پی کے ٹکٹ پر لڑکر ہارچکے ہیں۔بعد کو وہ ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے تھے ۔ اس بار انھیں ترنمول سے ٹکٹ ملنے کی امید نہیں تھی اس لیے انھوں نے بی جے پی کے اشتراک سے ایک ایسا کام کیا جس کے ذریعہ وہ دولت اور شہرت دونوں ایک ساتھ حاصل کرسکیں۔سناہے کہ نام نہاد بابری مسجد پر تین سوکروڑ روپے کی رقم خرچ ہوگی۔ یہ رقم کہاں سے آئے گی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنی تجوری کا منہ کھول رکھا ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ بابری مسجد ایودھیا میں واقع تھی اور اسے گہری سازش کے تحت 6 دسمبر1992کو منہدم کردیا گیا تھا۔ اس انہدام نے بی جے پی کو وہ طاقت بخشی جس کے بل پر وہ آج ملک کے اقتدار پر قابض ہے ۔ اب وہ مغربی بنگال کا الیکشن جیتنے کے لیے ایک نام نہاد بابری مسجد تعمیر کرارہی ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ بی جے پی اقتدار کی خاطر مسجد منہدم بھی کرسکتی ہے اور تعمیر بھی کرواسکتی ہے ۔بابری مسجد اس کے لیے فائدے کا سودا ہے ۔