وجود

... loading ...

وجود

مودی کا کرپٹ دور حکومت

اتوار 07 دسمبر 2025 مودی کا کرپٹ دور حکومت

ریاض احمدچودھری

کرپٹ اور رشوت خور مودی کے دور میں بھارت میں کرپشن کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال ملتی ہے۔ سفاک مودی اور اڈانی، امبانی گٹھ جوڑ نے بھارت کے عوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ مالی کرپشن، ادارہ جاتی تباہی، بدعنوانی، مذہبی تقسیم، سیاسی انتقام، بلڈوزر کلچر اور نفرت بھارت کی پہچان بن چکی ہے۔مودی کے دور حکومت میں کرپشن مسلسل بڑھ رہی ہے اور کوئی اس کا پوچھنے والا نہیں۔ نفرت، تقسیم، مذہبی تعصب اور سماجی کرپشن حکومتی سرپرستی میں عام ہو چکی ہے۔ بھارت میں معاشی، سماجی، مذہبی، عدالتی، انتخابی، ادارہ جاتی اور ماحولیات تک ہر شعبہ کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ جریدے میں یہ بھی کہا گیا کہ روسی تیل کی خریداری سے فائدہ عوام کو نہیں بلکہ امبانی اور اڈانی جیسے بڑے سرمایہ داروں کو ہوا ہے۔ مزید براں ہنڈن برگ رپورٹ میں کہا گیا اڈانی گروپ پر بڑے فراڈ اور دھوکہ دہی کے باوجود SEBI نے انہیں بچایا۔ دوسری جانب واشنگٹن پوسٹ میں بھی انکشاف ہوا کہ بھارتی وزارت خزانہ نے ایل آئی سی کو تقریباً 4 ارب ڈالر اڈانی گروپ میں لگانے پر مجبور کیا۔
بھارتی میڈیا مکمل طور پر سرکار کے زیر اثر ہے۔ بھارتی سرکاری ادارے ، قومی اثاثے اور زمینیں اونے پونے نجی گروپوں کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ امبانی اور اڈانی کی دولت 2014 کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے جبکہ بھارت کا ہنگر انڈیکس 55 سے گر کر 102 ہو گیا ہے۔ امیری اور غریبی کا فرق انتہائی بڑھ گیا ہے۔ اوپر کے 10 فیصد لوگ ملک کی 80 فیصد دولت پر قابض ہیں۔نریندر مودی کے 11 سالہ دورِ اقتدار میں کرپشن اور کالے دھن کے الزامات بھارت پر ایک بار پھر عالمی سطح پر سوالیہ نشان بن کر ابھرے ہیں۔ سوئس بینکوں میں بھارتی خفیہ رقوم میں ریکارڈ اضافہ سامنے آیا ہے، جس نے مودی حکومت کی شفافیت اور احتساب کے دعوؤں پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔اکنامک ٹائمز اور سوئس بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں بھارتی رقوم تین گنا بڑھ کر 37,600 کروڑ روپے تک پہنچ گئیں۔ بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی نان بینک کلائنٹس کی رقم 6 فیصد بڑھ کر 650 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔
بھارتی سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بااثر کاروباری شخصیات نے گزشتہ دہائی میں سوئس بینکوں کا سہارا لیتے ہوئے بیرون ملک کالا دھن چھپایا۔ 2جی اسکینڈل، کوئلہ مافیا اور دیگر بدنام زمانہ کیسز اس بات کے شواہد فراہم کرتے ہیں کہ کالا دھن سوئٹزرلینڈ منتقل ہوتا رہا ہے۔سوئس حکام کا کہنا ہے کہ وہ 2019 سے بھارت کو ہر سال مشکوک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کر رہے ہیں اور سینکڑوں کیسز میں ڈیٹا بھارت کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود کالے دھن میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال بھارت کے ترقیاتی فنڈز کو چوری کرنے کے مترادف ہے۔ بیرونی بینکوں میں چھپی ہوئی دولت مودی سرکار کے کرپشن کے خلاف دعووں کو جھٹلا رہی ہے اور ملک کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔اکنامک ٹائمز کا کہنا تھا کہ بینکوں میں بھارتی رقم کا بڑا حصہ بینکوں اور اداروں کے ذریعے رکھا گیا ہے تاہم سوئٹزرلینڈ 2019 سے بھارت کو مشکوک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کر رہا ہے۔ سوئس حکام کے مطابق سینکڑوں کیسز میں بھارت کو مشکوک اکاؤنٹس کی تفصیلات دی جا چکی ہیں،غیر ملکی کلائنٹس کی رقوم میں کمی آئی مگر بھارتی پیسہ غیر معمولی حد تک بڑھا۔
پاناما پیپرز میں بھارتیوں کی کرپشن کی ان گنت کہانیاں بھی سامنے آ گئی ہیں، ٹیکس چرانے کے لیے بھارتیوں نے بھی اربوں کے بے نامی اثاثے بنائے اور چھپائے۔بھارتی ٹیکس اتھارٹیز 200 ارب روپے کے بے نامی اثاثہ جات تک پہنچ گئیں، 2016 سے اب تک سینٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز نے تحقیقات کر کے بھارت اور بیرون ملک اربوں کے بے نامی اثاثہ جات کا پتا لگایا۔بھارت میں بلیک منی اور انکم ٹیکس ایکٹ پر 46 مقدمے دائر کیے جا چکے ہیں، بھارتی ٹیکس اتھارٹیز نے ان مقدمات میں 142 کروڑ کی ریکوری کر لی ہے، جب کہ مزید 83 کیسز میں سرچ اور سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ مزید کیسز کے مقدمات دائر ہونے پر مزید کروڑوں روپے کی ریکوری کا امکان ہے۔آئی سی آئی جے نے اندازہ لگایا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں ٹیکس حکام نے ٹیکسوں اور جرمانوں کی مد میں 1.36 بلین ڈالرز سے زیادہ کی ریکوری کی ہے، جب کہ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے اعداد و شمار برطانیہ، جرمنی، اسپین، فرانس اور آسٹریا کے تھے۔2016 میں اپریل میں بحر اوقیانوس کے کنارے پر واقع ملک پاناما کی صحافتی تنظیم آئی سی آئی جے نے ایک قانونی فرم موزاک فونسیکا سے غیر قانونی اثاثہ جات کی ڈیڑھ لاکھ دستاویزات لے کر پامانہ پیپرز کے نام سے شائع کی تھیں، جس کے باعث کئی ممالک کی حکومتیں ہل گئی تھیں۔ بی جی پی حکومت نے سپریم کورٹ کو بھارتی شہریوں کے بیرون ملک موجود کالے دھن کی تفصیلات بتانے سے معذرت کر لی ہے ، مودی حکومت کے سپریم کورٹ کو جواب پر اپوزیشن کانگریس نے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی قوم سے معافی مانگیں۔
سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ قبل حکم جاری کیا تھا کہ بھارتی شہریوں کے بیرون ملک موجود کالے دھن کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جائے، جس کے بعد مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ جن ممالک کیساتھ دوہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدے ہیں ، وہاں موجود بھارتیوں کے کالے دھن سے متعلق تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔مودی سرکار کے اس جواب کو اپوزیشن پارٹی کانگریس نے آڑے ہاتھوں لیا ہے۔کانگریس کے ترجمان ابھیش سنگھوی نے کہا کہ عدالت میں دیے گئے حکومتی موقف پر وزیر اعظم نریندر مودی قوم سے معافی مانگیں کیونکہ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ بر سراقتدار آکر وہ کالادھن واپس لے کر آئے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
چائلڈ لیبر جبری مشقت کا بڑھتا دائرہ اور سماجی بے حسی وجود اتوار 07 دسمبر 2025
چائلڈ لیبر جبری مشقت کا بڑھتا دائرہ اور سماجی بے حسی

مودی کا کرپٹ دور حکومت وجود اتوار 07 دسمبر 2025
مودی کا کرپٹ دور حکومت

بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی وجود هفته 06 دسمبر 2025
بھوپال گیس سانحہ کی 41 برسی

مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا وجود جمعه 05 دسمبر 2025
مہنگائی کی آگ اور غریب کا بجھتا ہوا چولہا

پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر وجود جمعه 05 دسمبر 2025
پاکستان میں عدلیہ :کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا سفر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر